ہمارے وزیر اعظم یہ کالم لکھنے تک سوئیٹزرلینڈ کے شہر Davosمیں تھے۔ کئی برسوں سے وہاں ہر سال ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ عالمی منڈی کی اجارہ دار کمپنیوں کے پردھانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔مختلف حکومتوں کے سربراہ وہاں جاکر انہیں اپنے ملکوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہیں۔
“Davos”اگرچہ اب استحصالی نظام کا استعارہ بھی بن چکا ہے۔لطیفہ یہ بھی ہے کہ اسے ’’بدنام‘‘ کرنے میں سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی علمبردار امریکہ ہی میں آوازیں بلند ہوناشروع ہوئیں تھیں۔ملٹی نیشنل کمپنیوں پر یہ الزام لگا کہ وہ سستی اُجرت کے لالچ میں چین جیسے ملکوں میں فیکٹریاں لگاتے اور کاروبار بڑھاتے ہیں۔وہاں بنائی مصنوعات اپنے ’’برانڈنیم‘‘ کے سبب دُنیا کے ہرخطے میں پہنچ جاتی ہیں۔اجارہ دار کمپنیوں کے منافع میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اس منافع سے مگر ان کمپنیوں کے ’’پیدائشی ممالک‘‘ کو ٹیکس کی صورت ایک دھیلہ بھی نہیں ملتا۔ ’’آف شور کمپنیوں‘‘ کے ذریعے ہوئے بندوبست کی بدولت اجارہ دار اپنی ذاتی دولت ہی بڑھاتے رہتے ہیں۔
سستی اُجرت کی وجہ سے چین جیسے ممالک میں ہوئی سرمایہ کاری نے امریکہ کے وسیع تر علاقوں میں کئی دہائیوں سے قائم فیکٹریاں بند کردیں۔تالہ لگی فیکٹریوں کی مشینوں کو زنگ لگ گیا۔ وہاں کے علاقے Rust Statesکہلانے لگے۔
عالمی اجارہ داروں کے خلاف کھولتے غصے کو بہت ذہانت سے دریافت کرتے ہوئے ٹرمپ نے Make America Great Againیعنی Magaکا نعرہ لگایا۔یہ وعدہ کیا کہ وائٹ ہائوس پہنچنے کے بعد وہ چین جیسے ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرتے ہوئے امریکی سرمایہ کاروں کو اپنے ہی وطن میں سرمایہ کاری پر مجبور کردے گا۔اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ امریکی صارف اپنے ہی وطن میں بنائی مصنوعات خریدیں۔ ان کی طلب کو پورا کرنے کے لئے تالہ لگی فیکٹریوں کو کھول کر نئی سرمایہ کاری سے جدید ترین مشینری لگائی جائے گی۔روزگار کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔
Davosکے ذریعے دُنیا کو ایک Global Villageمیں تبدیل کرنے والے رویے کے خلاف ہی برطانیہ میں بھی Brexitتحریک چلی۔ یورپ میں قوم پرستی اور نسلی تعصب کو فروغ ملا۔انتہاپسند ’’وطن پرستی‘‘ عالمی ’’بھائی چارے‘‘ کے خلاف دیواریں کھڑی کرنا شروع ہوگئی۔ Davosکے خلاف اُبھرے غصے ہی کی وجہ سے اب کے برس کئی اہم ممالک کے سربراہ وہاں منعقد ہوئی کانفرنس میں شرکت کو مائل نہ ہوئے۔امریکی صدر وہاں گیا تو بنیادی طورپر اجارہ داروں کو یہ بتانے کہ اس نے America Firstکی پالیسی اپناکر اپنے ملک میں معاشی رونق بحال کردی ہے۔اجارہ دار سیٹھ اب ’’بندے کے پُتر‘‘ بن جائیں۔
ہمارے وزیر اعظم کو مگر پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری درکار ہے۔وہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ بھی دینا چاہتے ہیں۔’’پرچی‘‘ کے بغیر گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کے دل موہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔امریکی صدر بھی وہاں ان سے ملنے آیا اور کیمروں کے سامنے ایک بار پھر دُنیا کو یاد دلایا کہ عمران خان صاحب ان کے ’’گہرے دوست‘‘ بن چکے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان رشتے ٹرمپ- عمران دوستی کے طفیل گہرے اور توانا تر ہورہے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم شاید ان دونوں کے مابین گہری ہوئی دوستی کے خوف سے Davosنہیں گیا۔اپنے وزیرتجارت کو بھیج دیا۔
امریکی صدر کیساتھ پاکستانی وزیر اعظم کی ملاقات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔میرے کئی دوستوں کو مگر اب یہ فکرلاحق ہوگئی ہے کہ Davosمیں عمران خان صاحب نے یوٹیوب اور فیس بک کے پردھانوں سے بھی ملاقات کی ہے۔انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ دونوں پلیٹ فارم دُنیا کے سامنے پاکستان کی ’’مثبت‘‘ تصویر اجاگر کریں۔حکومتی ترجمانوں کا دعویٰ ہے کہ یوٹیوب اور فیس بک کے پردھانوں نے اس ضمن میں تعاون کا وعدہ کیا ہے۔
’’تعاون‘‘ کے اس وعدے سے میرے کئی پیارے دوست خوفزدہ ہوگئے ہیں۔وہ ان دنوں ہمارے ہاں پیمرا کی نگرانی میں چلائے24/7چینلوں کی سکرینوں پر نظر نہیں آتے۔یوٹیوب اور V-Logsکے ذریعے اپنی بقاء کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
Davosجانے سے قبل وزیر اعظم عمران خان صاحب نے نوجوان صحافیوں کے ایک ایسے گروپ سے بھی طویل ملاقات کی جو ان دنوں سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے بدعنوان سیاست دانوں کیخلاف جہاد میں مصروف ہیں۔شریف خاندان سے ’’لفافہ‘‘ لینے والے صحافیوں کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ان افواہوں اورسازشوں کا قلع قمع بھی جو وطن عزیز کی دشمن قوتیں پھیلاتی اور بنتی رہتی ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں مقبول ان دوستوں کو Influencerشمار کیا جاتا ہے۔عمران خان صاحب نے بہت دُکھی لہجے میں انہیں بتایا کہ ان کی حکومت کو سوشل میڈیا کے ذریعے ’’ناکام‘‘ دکھانے کی کوشش ہورہی ہے۔محب وطن Influencersکو منفی اور سازشی سوچ کا مزید شدت سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ میرے وہ دوست جن کے بارے میں یہ طے کرلیا گیا ہے کہ وہ یوٹیوب یا V-Logsکے ذریعے عمران حکومت کو ’’ناکام‘‘ دکھارہے ہیں ،ہمارے وزیرا عظم کی فیس بک اور یوٹیوب کے پردھانوں سے Davosمیں ہوئی ملاقاتوں کے بارے میں پریشان ہوگئے۔ انہیں خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ ان اداروں کے پردھانوں کی جانب سے ’’تعاون‘‘ کا وعدہ ’’سنسرشپ‘‘ کی کسی صورت میں ایفا ہوتا دکھائی دے گا۔
اپنے ان دوستوں کی پریشانی کو بھاپنتے ہوئے میرے کمینے دل کو بہت تسلی ہوئی۔اگست 2018میں عمران حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ ایسے لوگوں کی نشاند ہی ہوئی تھی جو وطنِ عزیز کی ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتے ہوئے اپنے ٹی وی چینلوں کو بجائے منافع دلوانے کے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔’’مہنگے‘‘مگر’’نکھٹو‘‘تصور ہوتے ہوئے اینکروں کی جو فہرست مرتب ہوئی اس میں مجھ بے ہنر کا نام بھی شامل تھا۔1975سے شعبۂ صحافت ہی میرے رزق کا واحد ذریعہ رہا۔اس کے باوجو دہمیشہ مختلف اداروں سے ازخود استعفیٰ دے کر رخصت ہوا۔ کسی ادارے نے مجھے خود پر بوجھ تصور کرتے ہوئے کبھی فارغ نہیں کیا۔عمر کے آخری حصے میں لیکن یہ ’’اعزاز‘‘ بھی 2018کے اکتوبر میں نصیب ہوگیا۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔رزق کمانے کی ضرورت نے مگر ڈھٹائی کے ساتھ پرنٹ صحافت میں بھرپور واپسی پر مجبور کردیا۔ہر ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھتا ہوں۔میرا اصرار ہے کہ میرے ’’گراںقدر‘‘ خیالات کے اظہار کے لئے مسلسل پانچ دن کی یاوہ گوئی کافی ہے۔
میرے چاہنے والوں کو ربّ کریم صداخوش رکھے۔ ان کی اکثریت مگر بضد رہتی ہے کہ مجھے بھی اپنی صورت اور آواز سمیت ان کے ساتھ یوٹیوب اور وی-لاگ کے ذریعے اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہیے۔ پیدائشی کاہل ہوں۔ابھی تک سیلفی لینے کا طریقہ بھی دریافت نہیں کرپایا۔یوٹیوب چینل کے لئے جو مہارت اور نظم درکار ہے اپنے بس سے باہر محسوس ہوتے ہیں۔ویسے بھی دیانت داری سے ’’ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے؟‘‘والے سوال پر غور کرتا رہتا ہوں۔’’فیر جو کرداں پھراں ٹکور تے فیدا کی‘‘ والی سوچ نے بھی بولنے سے پرہیز کی عادت ڈال دی ہے۔یوٹیوب اور فیس بک کے پردھانوں سے عمران خان صاحب کی Davosمیں ہوئی ملاقات کے بعد ان دوپلیٹ فارمز پر ممکنہ طورپر نمودار ہوتی ’’سنسرشپ‘‘ سے خوف زدہ ہوئے دوستوں کی پریشانی بھانپ کردل کو مزید تسلی ہوئی کہ یوٹیوب اور وی لاگ کے چکرمیں نہیںپڑا۔ قلم گھسیٹنے تک ہی خود کو محدود رکھا۔کونے میں بیٹھ کر دہی کھائی۔
میرے لاہور کے ملامتی شاہ حسین نے ’’مکھیوں کی بھنبھناہٹ‘‘ سے چھٹکارے پر اطمینان کا اظہار کررکھا ہے۔ایسے ہی اطمینان کی بدولت یاد دلانا چاہو ں گا کہ فیس بک اور یوٹیوب ازخود Contentتخلیق نہیں کرتے۔وہ محض Outletsہیں۔ دوسرے کے تیار کردہ مواد کی فروخت کے ’’چھابے‘‘ جسے معزز زبان میں Platformsکہہ لیجئے۔ ان دونوں کا دھندا ہی Likesاور Sharesسے چلتا ہے۔امریکہ اور یورپ میں ان دونوں کے خلاف چند جائز وجوہات کی وجہ سے بھی کافی غصہ اُبل رہا ہے۔حکومتیں Fake Newsکے فروغ سے پریشان ہیں۔ عام لوگوں کو Privacyکی پریشانی لاحق ہے۔حکومتیں تمام تر وسائل واختیار کے باوجود مگر ان دواداروں کے ذریعے فروغ پاتے مواد کی روک تھام کے لئے مناسب طریقے نہیں ڈھونڈ پائیں۔امریکی کانگریس بھی اس ضمن میں بے بس رہی۔فیس بک والے دل وجان سے نت نئے فلٹرلگاکر حکمرانوں اور عام صارفین کو مطمئن کرنا چاہ رہے ہیں۔بات مگر بن نہیں رہی۔
یوٹیوب اور وی لاگ سے جان چھڑانے کا پاکستان جیسی ریاستوں کے پاس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان پر کامل پابندی عائد کردی جائے۔ہمارا یار چین واحد ملک ہے جو اس ضمن میں کامیاب ہوا۔ پیوٹن کاروس بھی اس حوالے سے خود کو بے بس محسوس کررہا ہے۔عمران حکومت کو مگر ملکی سرمایہ کاری درکار ہے۔ہم کشمیریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے کا واویلا بھی مچارہے ہیں۔فیس بک اور یوٹیوب کے لئے وطنِ عزیز میں لہذا فی الوقت ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ انگریزی زبان والے Chillسے لطف اندوز ہوں۔