وزارت دفاع کے ماتحت اداروں نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو رہا کر دیا ہے۔
انعام الرحیم کو 17 دسمبر کو راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ سے اغوا کیا گیا تھا اور بعد ازاں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ گمشدہ وکیل وزارت دفاع کے ماتحت اداروں کے پاس ہیں۔ کرنل ریٹائرڈ انعام کے اہلخانہ کے مطابق انھیں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب رہا کیا گیا اور وہ گھر پہنچ چکے ہیں۔
ان کی رہائی سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے احکامات کی روشنی میں عمل میں آئی ہے۔
چند روز قبل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی گمشدگی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں وفاق کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور نے انعام الرحیم کو مشروط طور پر رہا کرنے کی پیشکش کی تھی۔
رہا کیے جانے سے قبل عدالتی احکامات کی روشنی میں راولپنڈی میں واقع بینظیر بھٹو ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل ایک پینل نے ان کا طبی معائنہ کیا۔ معائنہ کرنے والی ٹیم میں شامل ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات نہیں ہیں۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے مشروط رہائی کی پیشکش میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور انھیں بار بار ہسپتال لے کر جانا پڑتا ہے اور یہ کہ انعام الرحیم اگر اپنا پاسپورٹ عدالت میں جمع کروائیں اور اپنے خلاف چلنے والے مقدمہ کی تفتیش میں تعاون کریں تو انھیں رہا کیا جا سکتا ہے۔
مشروط پیشکش میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا تھا کہ کرنل انعام اپنے زیر استعمال لیب ٹاپ کا پاس ورڈ بھی فراہم کریں۔
تاہم اس کے برعکس 14 جنوری کو اس کیس میں ہونے والی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا تھا کہ وزارت دفاع کے ماتحت اداروں نے جب کرنل انعام کو حراست میں لیا تو ان کے لیب ٹاپ سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور حساس اداروں میں تعینات فوجی افسران کا ریکارڈ موجود تھا۔ اٹارنی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام ایک جاسوس ہیں۔
تاہم اگلی ہی سماعت پر وفاق کی جانب سے مشروط رہائی کی پیشکش کر دی گئی تھی۔
اس پیشکش پر انعام الرحیم کے وکیل نے شرائط تسلیم کر لیں اور کچھ گھنٹوں بعد پاسپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل کا کیا کہنا تھا؟
یاد رہے کہ رہائی کی مشروط پیشکش میں یہ بات شامل تھی کہ انعام الرحیم اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ بھی حکام کو فراہم کریں۔
تاہم گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزارت دفاع کے ماتحت اداروں کے اہلکاروں نے ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تو کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے زیر استعمال لیپ ٹاپ سے بہت سا مواد ملا تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ دشمن ملک کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ مذکورہ وکیل کے خلاف ابھی تحقیقات چل رہی ہیں اور ان کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک ہے اور ان سے تحقیقات کی روشنی میں متعدد لوگوں کی گرفتاریاں ہونی ہیں۔
گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل انور منصور نے ایک سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی جس کا بینچ میں موجود ججز نے مطالعہ کیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی اگر اس معاملے کی ان کیمرہ یا چیمبر میں سماعت کرلیں تو وہ تمام معلومات عدالت کو بتانے کے لیے تیار ہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت جرم کی نوعیت کے بارے میں معلومات چاہتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ زیر حراست وکیل کے پاس پاکستان کے جوہری ہتھیاروں، آئی ایس آئی اور کچھ دیگر افراد کے بارے میں معلومات تھیں۔
کرنل انعام الرحیم کون ہیں؟
انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا تعلق پاک فوج کے 62ویں لانگ کورس سے ہے۔ یہ وہی کورس ہے جس سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا بھی تعلق ہے۔
آل پاکستان ایکس سروس مین لیگل فورم کے کنوینر انعام الرحیم ماضی میں لاپتہ اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی عدالتوں اور فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔
انعام الرحیم پاک فوج کی لیگل برانچ جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ کہتے ہیں سے بھی منسلک رہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوج میں رہتے ہوئے پرویزمشرف کے ناقدین میں شامل تھے۔
انھوں نے اپنے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ لیفٹینینٹ کرنل کے عہدےسے آگے نہ جاسکے اور اکتوبر 2007 میں ریٹائر ہو گئے۔
2008 میں انعام الرحیم نے راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ ان دنوں راولپنڈی میں پرویز مشرف پر حملہ کیس کے ملزمان رانا فقیرو دیگر اپنے لیے وکیل تلاش کررہے تھے مگر کوئی ان کا کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ انعام الرحیم آگے بڑھے اور انہوں نے ملزمان کے وکیل کے طور پر خدمات پیش کیں۔
اس طرح وہ پہلی بار میڈیا کی نظروں میں بھی آئے۔
پرویز مشرف اوردیگر عسکری شخصیات کے اثاثوں سے متعلق انعام الرحیم نیب سے بھی رجوع کرتے رہے۔ پرویز مشرف کے اثاثوں کے بارے میں انھوں نے مختلف فورمز پر درخواستیں بھی دیں۔
انعام الرحیم نے جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک افغان سرحد پر انگور اڈہ چیک پوسٹ مبینہ طور پر افغانستان کے حوالے کرنے کے خلاف بھی ایک رٹ پٹیشن کررکھی تھی جس میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کو بھی ملزم نامزد کر رکھا تھا۔
حال ہی میں عاصم سلیم باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر تعیناتی کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سامنے آیا تھا۔