فضائیہ ہاؤسنگ سکیم: اربوں روپے کے منصوبے میں چار سال میں صرف چار عمارتیں ہی بن پائیں
محمد حنیف تیس سال متحدہ عرب امارات اور پھر سعودی عرب میں ہوا بازی کے شعبے میں کام کرنے کے بعد جنوری 2019 میں کراچی یہ سوچ کر آئے تھے کہ اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان میں رہیں گے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے کراچی کے مضافاتی علاقے گلشنِ معمار کے نزدیک واقع فضائیہ ہاؤسنگ سکیم (ایف ایچ ایس) کی زمین میں پچھلے چار سال سے سرمایہ بھی لگایا ہوا تھا۔
ان چار سالوں میں تین لاکھ کی ماہانہ رقم ایف ایچ ایس کے اکاؤنٹ میں جمع کرنے والے محمد حنیف نے پاکستان واپسی کے بعد جب گلشنِ معمار میں ڈریم ورلڈ ریزورٹ کے پاس اپنی زمین کا معائنہ کرنے کی غرض سے چکّر لگایا تو وہ دنگ رہ گئے۔
‘میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اب تک تو وہاں گھر بن گئے ہوں گے مگر اُدھر تو ویران زمین، بجری اور تین ٹرکوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔’
مگر محمد حنیف کی حیرانی پریشانی میں بدل گئی جب ان کی پاکستان واپسی کے ایک ماہ بعد، فروری 2019 میں ڈان اخبار میں اینٹی کرپشن سیل کی جانب سے ایک اشتہار میں ‘فراڈ الرٹ’ کے نام سے جاری کردہ فہرست میں 123 ویں نمبر پر فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کا نام بھی شامل تھا۔
فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کا آغاز کیسے ہوا؟
سنہ 2014 کے آخر میں کراچی کے مختلف علاقوں میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے بینر اور پوسٹر نظر آنا شروع ہوئے جن کو دیکھ کر کئی لوگوں نے اس سکیم میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچا۔
اِن لوگوں میں خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی بھی شامل تھے جنھیں ٹی وی چینلز، اخبارات اور رشتہ داروں کے ذریعے اس منصوبے کے بارے میں پتا چلا۔
16 جنوری 2015 میں کراچی سے تعلق رکھنے والی مارکیٹنگ کمپنی میکزم اور پاکستان ائیر فورس (پی اے ایف) نے مشترکہ طور پر اس پراجیکٹ کے کاغذات پر اسلام آباد میں ائیر ہیڈ کوارٹرز میں دستخط کرکے اس کا آغاز کیا۔
کراچی حیدر آباد موٹروے ایم-نائن اور ناردرن بائی پاس کے نزدیک فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے زیر انتظام منصوبہ دو فیز پر مشتمل ہے۔
ان میں سے ایک حصہ گلشنِ معمار کے نزدیک 32 ایکڑ کی زمین پر میحط ہے جسے ‘سائٹ ون’ کہا گیا جبکہ دوسرا حصہ ناردرن بائی پاس کے پاس 370 ایکڑ کی زمین کی شکل میں ہے جسے ‘سائٹ ٹو’ قرار دیا گیا۔
یہ دونوں فیز کراچی کے شمالی مضافات میں شہر سے تقریباً 25 منٹ کے فاصلے پر موجود ہیں۔
اس کے علاوہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کو 30 ایکڑ کی اضافی زمین بھی ملی ہوئی ہے جو فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ابھی تک استعمال نہیں ہوئی ہے۔
فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی زمینوں پر تعمیراتی کام 2015 میں شروع ہوا۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ ماہانہ قسطیں جمع کراتے رہے مگر اُن کو انتظامیہ کی جانب سے ہاؤسنگ سکیم کے آگے بڑھنے کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔
پاکستان کی فضائیہ کا اس بارے میں موقف ہے کہ انھوں نے تعمیراتی کام 2019 کے شروع میں روک دیا تھا لیکن حکومتی دستاویزات اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات پی اے ایف کے بیان سے مختلف منظر پیش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے چند متاثرین جیسے محمد حنیف، محمد سعد* اور محمد عادل* نے چار سال تک جمع کرنے والی رقوم کی تفصیلات بی بی سی سے شئیر کیں۔
متاثرہ خاندان دونوں علاقوں میں رُکے ہوئے کام کی تصاویر شواہد کے طور پر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعمیراتی کام کافی پہلے رُک گیا تھا جس کی ہاؤسنگ سکیم سے منسلک ترجمان تردید کرتے ہیں۔
پاک فضائیہ یا میکزم، منصوبہ کا ذمہ دار کون؟
میکزم نامی کمپنی کراچی میں زمین کی خرید و فروخت کا کام کرتی ہے۔ اس کمپنی کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لیکن ان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ خود کو کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں زمین کی خرید و فروخت کا ایک ‘اہم حصّہ’ ظاہر کرتے ہیں۔
میکزم کے مطابق اُن کے پاس کراچی کے مختلف علاقوں، خاص کر شہر کے مضافات میں زمینیں رکھی ہوئی تھیں جس کو انھوں نے 1998 میں خریدا تھا۔
میکزم کمپنی کے ایک سینئیر افسر سے جب بات کی گئی تو وہ انھوں نے بی بی سی سے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ میکزم اور فضائیہ کے درمیان معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ پچاس فیصد زمین فضائیہ نے شہدا اور جونئیر افسران کے لیے مختص کی تھی جبکہ پچاس فیصد شہریوں کے لیے۔
عام شہریوں سے منسلک کام میکزم کے حصے میں آیا جبکہ فضائیہ کے افسران کی زمین کا ذمہ پاکستان فضائیہ نے اٹھایا۔
اس سلسلے میں ایک پراجیکٹ مینیجنگ کمیٹی بنائی گئی جس میں پاک فضائیہ کے تین سروِنگ افسران اور میکزم کے تین افسران کو شامل کیا گیا۔
میکزم کے افسر کے مطابق منصوبے کے بینر، پوسٹر اور اشتہارات میں فضائیہ کا نام استعمال کیا گیا جس پر میکزم نے اعتراض اس لیے نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ زمین کی فروخت میں پاکستان فضائیہ کا نام استعمال کرنا کارآمد ثابت ہوسکتا تھا، اور حقیقت میں بھی یہی ہوا۔
منصوبے کے اشتہارات کی مدد سے پانی اور بجلی کے مسائل سے تنگ کراچی کے عوام کے لیے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے نام پر شہر کے مضافات میں ایک نیا شہر بنانے کا خواب دکھایا گیا۔
گلشنِ معمار میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی زمین کے بالکل پیچھے تفریح کے غرض سے بنایا گیا ڈریم ورلڈ ریزورٹ ہے جہاں سوئمنگ پول سے لے کر رہائشی فلیٹس بھی بنائے گئے ہیں اور اس کو دیکھ کر ایسا تاثر ملتا ہے جیسے کہ یہ دبئی کے کسی علاقے میں بنایا گیا ہو۔
ان اشتہارات کو دیکھ کر متاثر ہونے والے افراد جیسے دبئی کے محمد سعد٭ اور بحرین کے محمد خالد٭ کو ایف ایچ ایس کے بارے میں بتایا گیا کہ ‘منصوبے کے مکانات اور یہاں کا رہن سہن اس ریزورٹ سے بھی بہتر ہوگا۔’
منصوبے کی دستاویزات کے مطابق کراچی کے ناردرن بائی پاس اور گلشنِ معمار میں 2700 کے قریب لگثری اپارٹمنٹ بننے تھے۔
لیکن ان چار سالوں میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے ترجمان اب تک صرف چار منزلیں کھڑی کرنے کا دعویٰ کرپائے ہیں۔
کیا منصوبے کے آغاز کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی؟
کسی بھی زمین پر تعمیراتی کام شروع کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اس اجازت کے بعد حکومت منصوبے کا بلڈنگ پلان منظور کرتی ہےاور پھر تعمیراتی کام شروع کیا جاتا ہے۔
لیکن فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی باری میں پاکستان فضائیہ نے منصوبے کی دونوں سائٹس کی بیلٹنگ کروائی، پھر اُس پر بغیر اجازت لیے کام شروع کروا دیا۔
منصوبے میں زمین کے خریدار محمد سعد٭ کے مطابق کراچی کے پی اے ایف بیس فیصل میں سنہ 2015 میں بیلٹنگ کرائی گئی جہاں فارم خریدنے والوں کے مطابق ہزار روپے کے جاری کردہ فارم چالیس ہزار روپے میں فروخت کیے گئے۔
مگر فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی زمین کا نہ تو کوئی بلڈنگ پلان سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) سے منظور ہوا اور نہ ہی کسی قسم کا این او سی یعنی منظوری لی گئی اور بغیر باضابطہ اجازت اس پراجیکٹ پر دو سال متواتر کام چلتا رہا۔
ایس بی سی اے کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہماری طرف سے زمین کی منظوری سے متعلق تین نوٹسز 7 فروری، 13 فروری اور 14 فروری 2019 کو فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے منتظمین کو بھیجی گئیں جس کا ہمیں جواب موصول نہیں ہوا۔’
اس حوالے سے بی بی سی کے سوال پر میکزم کمپنی کے افسر نے کہا: ‘ہم نے جب زمین کی منظوری کے بارے میں پوچھا تو پی اے ایف کے ترجمان نے کہا کہ فوج سے منسلک اداروں کو زمین کی منظوری نہیں چاہیے ہوتی۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ ہمارا نام ہی کافی ہے۔’
البتہ پاکستان فضائیہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نیب کی انکوائری جاری ہے اور مقدمہ احتساب عدالت میں پیش ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بھی بیان نہیں دینا چاہتے۔
ایس بی سی اے کے ذرائع کے مطابق فروری 2019 میں نوٹس ملنے کے بعد پاکستان فضائیہ نے سندھ کے وزیرِ اعلٰی مراد علی شاہ سے بات چیت کرکے پراجیکٹ کا بلڈنگ پلان منظور کروانے کی کوشش کروائی۔
لیکن کراچی میں گذشتہ چند سالوں میں بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور ملیر ڈیویلپمنٹ کی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں زمین کے قبضے کی خبریں آنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ نے اس معاملے میں پڑنے سے انکار کردیا۔
میکزم کے ترجمان نے نوٹس ملنے کے بارے میں کہا کہ ‘ہمیں یہ درخواستیں موصول ہی نہیں ہوئیں تو ہم جواب کیا دیتے۔ ہمارے ہاتھ میں اس سکیم کی باگ دوڑ نہیں تھی۔یہ خطوط پی اے ایف کو جارہے تھے۔کیونکہ سکیم اُن کے نام پر تھی۔’
فروری 2019 میں ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فہرست میں ایف ایچ ایس کا نام دیکھ کر منصوبے میں سرمایہ لگانے والے افراد میں کھلبلی مچ گئی۔
خواہ وہ سویلین ہوں یا پھر پاکستان کی فضائیہ سے جُڑے خاندان، سب نے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم میں موجود اپنی زمین اور اس پر خرچ کی ہوئی رقم کی واپسی کے بارے میں جاننے کے لیے فون گھمانا شروع کردیے۔
محمد حنیف نے اس بارے میں کہا کہ ‘میں نے اب تک 75 لاکھ روپے اس زمین پر خرچ کیے ہیں۔ جس بات کا شک مجھے زمین کی حالت دیکھ کر ہوا تھا وہ اشتہار پڑھ کر یقین میں بدل گیا۔’
محمد حنیف کے علاوہ پچھلے چار سالوں میں شہریوں نے ایف ایچ ایس میں اپنی زمینوں کی مد میں حبیب بینک کے ذریعے تقریباً 18 ارب کی رقم جمع کروائی ہے۔
اینٹی کرپشن سیل کی فہرست کی اشاعت کے بعد میکزم نے بھی قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ شروع کیا اور مئی 2019 میں زمین کے کاغذات نہ ملنے کے حوالے سے پاکستان فضائیہ پر سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کردیا۔
این او سی کے بغیر تعمیراتی کام کیسے شروع ہوا؟
ان حقائق کی روشنی میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان فضائیہ نے اس سکیم جس میں وہ شہدا کے خاندانوں کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیر کر رہے تھے، اس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری انھوں نے ایک نجی کمپنی کے ساتھ مل کر کسی بھی قسم کی معلومات اور اجازت حاصل کیے بغیر کیسے شروع کر لی۔
واضح رہے کہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے تعمیراتی کام میں چین کے شانژی صوبے سے تعلق رکھنے والی چینی کمپنی شانژی فارن اکنامک ٹریڈ انڈسٹریل گروپ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
لیکن چینی بلڈنگ کوڈ اور پاکستانی کوڈ کے مختلف ہونے کے باعث دونوں کمپنیوں نے پراجیکٹ میں شامل ہونے کے دو سال بعد مشترکہ طور پر علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کی فضائیہ اور میکزم دونوں ہی خود کو اس بات سے مکمل طور پر بےخبر ظاہر کررہے ہیں کہ زمین کی منظوری کے بارے میں معلومات کس کے پاس تھیں۔
اس کے باوجود میکزم کے ترجمان اس بارے میں اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘اگر فضائیہ اضافی رقم لگائے تو سکیم اب بھی چل سکتی ہے۔’
مگر دوسری جانب پاکستان فضائیہ کی جانب سے تاثر دیا گیا ہے کہ اب اس پراجیکٹ کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔
کیا پاکستان کی افواج زمین کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرسکتی ہیں؟
محمد سعد٭ اور ان کے ساتھ شامل دیگر متاثرین کے خاندانوں نے جب فضائیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور اپنی اربوں روپے کی رقم واپس نکلوانے کے لیے وکیلوں سے رجوع کیا تو انھیں بتایا گیا کہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوج، فضائیہ اور بحریہ زمین میں کاروبار کی غرض سرمایہ نہیں لگا سکتے۔
اسی حوالے سے 5 دسمبر 2019 کو کراچی کے ایک رہائشی و سماجی کارکن محمود اختر نقوی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
درخواست کے متن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 243، 244 اور 245 جبکہ آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی رُولز اینڈ ریگولیشن کے تحت افواجِ پاکستان کے بری، بحری اور فضائی افواج اپنا نام ہاؤسنگ سکیم میں استعمال نہیں کرسکتےاور نہ ہی اپنا نام تجارت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
محمود نقوی نے عدالت سے استدعا کی کہ فضاییہ ہاؤسنگ سکیم، ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم، ایئر فورس ہاؤسنگ سکیم، اور ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کے نام پر بنائی گئی سکیم کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے پابندی لگائی جائے۔
انھوں نے گذارش کی کہ افواجِ پاکستان کو کسی بھی طرح اپنا نام استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے تاکہ لوگوں کے اربوں روپے بچائے جاسکیں۔
واضح رہے کہ اس ہاؤسنگ سکیم آغاز سے لے کر اب تک پاکستان فضائیہ نے اپنا مؤقف یہی رکھا ہے کہ وہ کمرشل سرمایہ کاری کے بجائے پاک فضائیہ کے شہدا کے لیےگھر بنانا چاہتے تھے۔
منصوبے کے مستقبل کے بارے میں سوال پر پاکستان فضائیہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ سب سے پہلے اپنے ادارے کا نام صاف کرنا چاہتے ہیں اور مزید جوابات کے لیے نیب کی انکوائری کی تکمیل تک انتظار کرنے کو کہا۔
گذشتہ سال نیب کی جانب سے نومبر 2019 میں ایک جاری کردہ پریس ریلیز میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے خلاف تازہ انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی غلط بیانی اور مبینہ فراڈ کی وجہ سے تقریباً 6000 افراد متاثر ہوئے ہیں جنھوں نے ان زمینوں پر 13 ارب روپے کا سرمایہ لگایا ہوا ہے۔
یہ رقم متاثرہ خاندانوں اور میکزم کی طرف سے بتائی گئی رقم (18 ارب) سے کم بتائی جارہی ہے۔
دوسری جانب میکزم کے ترجمان کا دعوی ہے کہ اب تک دو ارب رقم ان افراد کو کو واپس کر دی گئی ہے جن کا نام زمین کی قرعہ اندازی میں نہیں نکلا۔
یاد رہے کہ گذشتہ تین سالوں میں نیب کی طرف سے شروع کی گئی یہ تیسری ‘تازہ’ تفتیش ہے۔
نیب کی کارروائی میں اب تک کیا ہوا ہے؟
2828 دسمبر 2019 کو نیب نے میکزم کے مالکان، تنویر احمد اور اُن کے بیٹے بلال تنویرکو اپنی تحویل میں لے لیا جس کے بعد احتساب عدالت کی حالیہ سماعت کے دوران میکزم کے مالکان کے ریمانڈ میں مزید دس دن کی توسیع کردی گئی ۔
احتساب عدالت نے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے معاملے میں ملوث دیگر افراد کو بھی بلایا مگر اب تک اس معاملے میں ہونے والی یہ واحد گرفتاریاں ہیں۔
جہاں پاکستان فضائیہ جہاں اپنا نام صاف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، وہیں میکزم کا الزام ہے کہ اُن کی کمپنی کو نیب کے ذریعے ہراساں کیا جارہا ہے اور اس سکیم کے نقصان کا سارا الزام بھی اُن پر لادا جارہا ہے۔
پاکستان کی فضائیہ کا کہنا ہے کہ نیب اپنی طرف سے تمام تر تفتیش جب تک مکمل نہیں کرتی وہ میکزم یا باقی الزامات کا جواب نہیں دیں گے۔
پاکستان کی فضائیہ کو نیب کی طرف سے 20 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ بھیجا گیا ہے اور اس وقت ادارہ اس کے جوابات مرتب کرنے میں مصروف ہے۔
متاثرین کا احتجاج مگر کوئی شنوائی نہیں
اس سکیم میں متاثر ہونے والے تقریباً 800 افراد محمد حنیف کے ساتھ مل کر کراچی میں پی اے ایف بیس فیصل کے سامنے کئی بار احتجاج کرچکے ہیں مگر ان مظاہروں میں صرف سویلین شامل رہے ہیں۔
محمد حنیف کو بھی اب تک مختلف ذرائع اور طریقوں سے احتجاج نہ کرنے کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔
‘کبھی کسی دوست کے ذریعے اور کبھی کسی افسر کے ذریعے منع کرتے ہیں کہ آپ کے حق میں بہتر ہے کہ بات نہ بڑھائیں۔ اب اِن کو کیا پتا کہ میری زندگی کی جمع پونجی میں نے اس زمین میں لگائی ہے۔ اس کے باوجود دھمکیوں کا سلسلہ نہیں رُک رہا ہے۔’
انھوں کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ میں ایسی جگہ گھر بناؤں جہاں پاکستان کی افواج اور فضائیہ کے لوگ ہوں، ‘لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ اُن کا محاسبہ ہو۔’
محمد حنیف کے ہمراہ دیگر متاثرین اب عدالت کا رُخ کرنے کا سوچ رہے ہیں مگر ان میں سے چند کو انصاف کی زیادہ امید نہیں ہے۔