Site icon DUNYA PAKISTAN

بچے کی پیدائش پر کچھ مائیں دکھ اور پشیمانی کا شکار کیوں ہو جاتی ہیں؟

Share

‘جب بیٹا پیدا ہوا تو میں بہت خوشی محسوس کرنا چاہتی تھی کہ میرے یہاں دس سال بعد بچہ ہوا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ خوش ہونے کے بجائے میں الٹا دُکھی رہتی تھی۔ میں سمجھ نہیں سکتی تھی کہ یہ کس قسم کی صورتحال ہے۔‘

’یہ ایسی بات تھی جو میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں اپنی اس کیفیت کے بارے میں کسی کو بتاؤں گی تو سب مجھے کہیں گے کہ تم اللہ کی ناشکری کر رہی ہو۔ اس ڈر سے میں نے کسی سے بات ہی نہیں کی۔‘

شادی کے ایک دہائی بعد ماں بننے والی فائزہ قیصر ایسی واحد ماں نہیں جنھیں بچے کی پیدائش کے بعد ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

عموماً خواتین کے لیے حمل اور زچگی خوشی کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بچے کی پیدائش کے بعد پریشانی، مایوسی، غصہ، خوف یہاں تک کہ جرم کے احساس کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ کوئی عام کیفیت نہیں بلکہ یہ ایک بیماری ہے جیسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں۔ فائزہ بھی اسی ڈپریشن کا شکار ہوئیں۔

ان کے مطابق ’مجھے کبھی لگتا تھا کہ شہریار کو دیکھ کر مجھے ویسی خوشی کیوں نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ اکثر میں اداس ہو جاتی تھی، بعض دفعہ پریشان ہو رہی ہوتی تھی۔ کبھی میں چڑچڑی ہوتی تھی اور کبھی کبھی تو بہت زیادہ غصہ بھی آتا تھا۔‘

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کہ مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 20 فیصد ہے

’نہ تو میں اپنے بچے کے کام کرتی تھی اور اگر وہ رو رہا ہوتا تھا تو میں اسے چپ بھی نہیں کرواتی تھی۔ یہ اتنی عجیب کیفیت تھی کہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ اس دوران میرے شوہر نے میرے ساتھ تعاون کیا جس کی وجہ سے مجھے زیادہ دشواری نہیں ہوئی اور پانچ سے چھ ہفتوں میں اس ڈپریشن سے باہر آ گئی۔‘

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کیا ہے؟

زچگی اور اس سے متعلقہ امور کی ماہر ڈاکٹر مصباح ملک کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا دورانیہ ہر خاتون میں مختلف ہوتا ہے۔ اس ڈپریشن میں عورت بجائے اس کے کہ وہ اپنے ہونے والے بچے کی خوشی منائے یا اس وقت سے لطف اندوز ہو، وہ الٹا اداسی اور دکھ کی کیفیت میں چلی جاتی ہے۔

ماہر نفسیات عاتکہ احمد کے مطابق ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں مبتلا خواتین میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ انھیں اپنے نومولود سے کوئی انسیت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے جس وجہ سے وہ خود کو قصوروار سمجھتی ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے جیسے کوئی احساس جرم انسان کو بے چین رکھتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’عموماً خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد چلے میں بالخصوص پہلے چھ ہفتے میں اس کا سامنا ہوتا ہے تاہم اگر کبھی یہ شدت اختیار کر لے تو یہ ڈپریشن لمبا بھی ہو جاتا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق پوسٹ پارٹم ڈپریشن خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس صورتحال میں خاتون اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچے کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات اور اثرات

ڈاکٹر مصباح نے بتایا کہ اس کی وجوہات میں بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کے جسم میں ہونے والی تبدیلیاں تو شامل ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ سماجی وجوہات بھی اس کا مؤجب بن سکتی ہیں جیسا کہ اگر بچپن میں بچیوں کو اہمیت نہ دی جائے یا دوران حمل شوہر اور سسرال والوں کی طرف سے ان کا خیال نہ رکھا جائے اور شوہر سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوں تو ایسی عورتوں کے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پوسٹ پارٹم ڈپریشن خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس صورتحال میں خاتون اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچے کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کہ مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 20 فیصد ہے۔

یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی ماؤں میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 28 فیصد سے زیادہ ہے۔

لاہور کے ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں ملازمت کرنے والی 30 سالہ امبر ارشد بھی ایسی پاکستانی خواتین میں سے ایک ہیں جو اپنے بیٹے کی پیدائش کے بعد کئی مہینے تک پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار رہیں۔

صحافی ثنا بتول سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے بچے کا خیال نہیں رکھ سکتی۔ جتنی بار وہ روتا تھا مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں نے کچھ غلط کیا ہے۔ خاص طور پر جب میرے آس پاس موجود لوگ اسے چپ کروا سکتے تھے اور میں چپ کروانے میں ناکام ہوتی تھی۔ میری جسمانی کمزوری اور ادھوری نیند میرا ڈپریشن بڑھا رہے تھے، میں اپنے بیٹے کو اپنا دودھ نہیں پلا رہی تھی جو مجھے مزید ڈپریشن میں مبتلا کر رہا تھا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زچگی کی چھٹیوں کے بعد جب وہ کام پر واپس گئیں تو وہاں سے ملنے والے ردعمل نے بھی ان کی بیماری میں اضافہ کیا۔

’مجھ سے یہ توقع رکھی جاتی تھی کہ میں زیادہ دیر تک کام کروں اور اس بات کی مسلسل تکرار کی جاتی تھی کہ بچے پیدا کرنا بہت ہی قدرتی عمل ہے۔ یہاں کا نظام اس ذہنی مرض میں مبتلا خواتین کہ لیے بالکل معاون نہیں۔ اگر کسی کو بتائیں تو لوگ آپ کو ’اٹینشن سیکر‘ اور ’پریٹینڈر‘ کہتے ہیں جس میں خواتین ساتھی بھی شامل تھیں۔ ان سب باتوں سے تنگ آ کر مجھے اپنی نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اب بیٹا ایک سال کا ہوا ہے تو میں نے دوبارہ نوکری کی ہے۔‘

ڈاکٹر مصباح ملک کا کہنا ہے کہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن جیسی بیماریوں کو خود سے ہی گھر میں ٹھیک کرنے کا خیال درست نہیں

عمیرہ حارث اپنے ڈپریشن کا ذمہ دار سسرال کے عدم تعاون کو سمجھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’میرا سی سیکشن آپریشن ہوا تھا۔ ٹانکوں میں شدید تکلیف تھی اس کے ساتھ ساتھ مجھے بچے کو بھی دیکھنا تھا اور میں ساری رات جاگتی تھی۔‘

’میرے سسرال والوں نے میرے ساتھ بالکل تعاون نہیں کیا۔ مجھے سب سے نفرت ہو رہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مجھے بچے سے بھی کوئی انسیت نہیں۔ میں بہت حساس ہو گئی تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرتی تھی۔ ایسا بھی لگتا تھا کہ کسی کو میری پرائیویسی تک کا خیال نہیں۔ دن رات روتی رہتی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ ہر شخص دشمن ہے۔‘

دو بچوں کی والدہ 36 سالہ سارہ زمان ویمن ریسورس سینٹر سے وابستہ ہیں اور پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار رہ چکی ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ویسے تو ایک عارضی ذہنی مرض ہے لیکن ہارمون کے اتار چڑھاؤ اور سماجی اور ثقافتی عوامل سے اس کا گہرا تعلق ہے۔

’زیادہ تر ڈاکٹرز ایسے میں موڈ بہتر کرنے والی ادویات تجویز کرتے ہیں اور شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی اپنے معمول پر چلتی ہے اور اگر آپ کو صبح دفتر جانا ہو تو آپ یہ ادویات نہیں لے سکتے ورنہ کام کیسے کریں گے۔ جن خواتین پر گھر کی معاشی ذمہ داری ہو ان کے پاس سوائے اس مرض کے ساتھ کام کرنے کہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہوتا۔‘

اس ڈپریشن سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟

زیادہ تر خواتین پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں ڈاکٹر سے طبی امداد لینے یا اپنی اس کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرنے میں گریز کرتی ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرنے والی بیشتر خواتین نے اس بات کی بھی شکایت کی انھیں اس مرض کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔

بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے فائزہ کا کہنا تھا ’مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ یہ کیفیت کیا ہوتی ہے کیونکہ شہریار میرا پہلا بچہ تھا اور مجھے نہ تو میری ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد ایسی صورتحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی میرے گھر والوں نے۔‘

فائزہ کے مطابق انھوں نے اپنی علامات کی بنیاد پر انٹرنیٹ پر اس بارے میں تحقیق کی تو انھیں علم ہوا کہ اس بیماری کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں تاہم اس سے نکلنے میں ان کے شوہر اور اہلخانہ نے ان کا بہت ساتھ دیا۔

فائزہ کے مطابق انھیں اپنے بیٹے کی تصویر کشی کے عمل نے ڈپریشن سے نکلنے میں خاصی مدد دی

’شوہر اور گھر والوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ اگر میں صبح جلدی اٹھ کر اپنے بچے کے کام نہیں کرتی تھی تو میرے شوہر بچے کے کام کر دیتے تھے۔ اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔‘

’اس کے علاوہ میں نے خود شہریار کی فوٹوگرافی شروع کر دی۔ میں سارا وقت سجاوٹیں کر کے سیٹ بناتی تھی اور اس پر اپنے بیٹے کو لٹا کر اس کی تصویریں کھینچتی تھی۔ اس سے مجھے کافی مدد ملی۔ نہ صرف میرا دھیان بٹ جاتا تھا بلکہ مجھے یہ بھی پتا چلا کہ میں کتنی اچھی فوٹوگرافی کر سکتی ہوں۔‘

عمیرہ حارث کا بھی یہی کہنا ہے کہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے گزرتے ہوے انھیں اس ذہنی مرض کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ انھوں نے کہا ’ایسی صورتحال میں اگر گھر والے ساتھ دیں تو اس ذہنی مرض کی شدت کم ہو سکتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں نہ تو آگاہی ہے اور نہ ہی تحمل۔‘

تاہم گائناکالوجسٹ ڈاکٹر مصباح ملک کا کہنا ہے ’یہ انتہانی غلط ہے کہ ہم ان بیماریوں کو خود سے ہی گھر میں ٹھیک کرنے کا سوچتے ہیں۔‘

’اگر کوئی عورت بچے کی پیدائش کے بعد ایسا کچھ بھی محسوس کرتی ہے تو فوراً اپنے ڈاکٹر کے پاس جائے اور اس کا باقاعدہ علاج کروائے۔ اگر اس ڈپریشن کا وقت پر علاج کیا جائے تو صرف ماہر نفسیات سے بات کرنے سے یا مشورہ کرنے سے ہی مسئلے حل ہو جائیں گے۔‘

’کچھ ایسے مسئلے بھی ہوتے ہیں جن میں کچھ عرصے کی دوائی دینی پڑ سکتی ہے اور اگر ڈپریشن شدید ہو تو کئی مہینے اور سال بھی لگ جاتے ہیں مریض کو اس کیفیت سے باہر آنے میں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس بیماری کا علاج وقت پر ہونا بےحد ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بالکل آگاہی نہیں ہے اور ہمارے ڈاکٹر بھی عموماً مریضہ کو نہیں بتاتے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

Exit mobile version