منتخب تحریریں

…اور اب ڈیووس میں بھی

Share

ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے 50ویں سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان خاصے مصروف رہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے قیام کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اگست 2018 میں وزراتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے قوم سے جو وعدے اور دعوے کئے، ان میں حکومت کی کفایت شعاری کا وعدہ بھی تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں تباہ حال معیشت ”ورثے‘‘ میں ملی؛ چنانچہ وہ سرکاری خزانے کو اللوں تللوں کی نذر نہیںکریں گے۔ پرائم منسٹر ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کے ساتھ، وہ گورنر ہاؤسز کے منافع بخش استعمال کی بات کر رہے تھے اور یہ بھی کہ وہ بے فائدہ غیر ملکی دوروں پر قومی خزانہ ضائع نہیں کریں گے‘ فائدہ مند دوروں کو بھی زیادہ سے زیادہ سستا بنانے کی کوشش کریں گے اور اس کیلئے خصوصی جہازوں کے بجائے عام (کمرشل) پروازوں پر سفر کریں گے۔
نیک ارادے اور مقدس خواہشات اپنی جگہ لیکن عملی زندگی کے اپنے (بے رحم) تقاضے ہوتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم اپنے اِن ارادوں پر کس حد تک عمل کر پائے، سب کے سامنے ہے۔ ڈیووس کے حالیہ دورے میں کوئی بہت بڑا سرکاری وفد وزیر اعظم کے ہمراہ نہیں تھا۔ کانفرنس کی نوعیت کے اعتبار سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا ہونا ضروری تھا؛ البتہ زلفی بخاری اور معید یوسف کی شمولیت پر بعض لوگوں نے بھنویں چڑھائیں (زلفی بخاری سے جناب وزیر اعظم کا برسوں پرانا یارانہ ہے۔ وہ موجودہ حکومت کے روز اول سے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی (برائے اوورسیز پاکستانیز) ہیں جبکہ معید یوسف پرائم منسٹر ہاؤس میں نئی اینٹری ہیں۔ لاہور کے جم پل معید یوسف، برسوں واشنگٹن میں ایک امریکی تھنک ٹینک میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ اب قومی سلامتی کے امور پر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی ہیں۔ جناب حفیظ شیخ سمیت اپنی اکنامک ٹیم کے اہم ارکان کی طرح، معید یوسف سے بھی وزیر اعظم کی شناسائی شاید اس اہم ذمہ داری کے لیے منتخب ہونے کے بعد ہوئی ہو۔ حفیظ شیخ (مشیر خزانہ) اور علی جہانگیر صدیقی (انویسٹمنٹ کیلئے سفیرِ عمومی) ڈیووس میں وزیر اعظم کے وفد میں شامل ہوئے۔
ڈیووس میں ”بریک فاسٹ میٹ‘‘ میں اہم کاروباری شخصیات سے گفتگو (اور امریکن چینل سے انٹرویو) میں وزیر اعظم نے قومی خزانے کے حوالے سے اپنی حساسیت کے اظہار کیلئے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ ڈیووس میں قیام بہت مہنگا ہوتا ہے‘ یہاں میرے اخراجات اکرام سہگل اور محمد عمران نے اٹھائے۔ یوں ڈیووس کے اس اجلاس میں شریک ہونے والے عالمی رہنماؤں میں، ان کا دورہ شاید سب سے سستا ہو۔ کسی تکلف کے بغیر وزیر اعظم کی یہ صاف گوئی اپنی جگہ لیکن سچ بات یہ ہے کہ ہمیں ایٹمی طاقت کے حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مالی کسمپرسی کا ایک دنیا کے سامنے یہ اظہار اچھا نہیں لگا۔ بعض ستم ظریفوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ وفد کے دیگر ارکان کے اخراجات بھی کیا اسی طرح احباب کا عطیہ تھے؟
وزیر اعظم کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی اس دورے کا ایک اہم ایونٹ تھا۔ یہ ملاقات کوئی گھنٹہ بھر جاری رہی، لیکن اس میں نئی بات کیا تھی؟ صدر ٹرمپ نے اسے ایک دوست سے ملاقات قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک، امریکہ تعلقات جتنے اچھے آج ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے (پاک، امریکہ تعلقات میں مختلف ادوار میں جو نشیب و فراز رہے، وہ ایک الگ موضوع ہے اور اس حوالے سے صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ بحث طلب ہے) لیکن اس سے ملتی جلتی بات انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے گزشتہ جولائی میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی (پہلی) ملاقات میں بھی کہی تھی۔ گزشتہ حکومت (نواز شریف کی تیسری وزارتِ عظمیٰ) کے حوالے سے اپنی شکایات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا: ہم پاکستان کو ہر سال ایک عشاریہ تین بلین ڈالر کی امداد دیتے رہے لیکن اس نے ہمارے لیے کچھ نہ کیا، امریکہ کو احترام بھی نہ دیا۔ (انہوں نے گزشتہ حکومت کے لیے Subversive کا لفظ بھی استعمال کیا) آخر تنگ آ کر انہوں نے ڈیڑھ سال قبل پاکستان کے لیے امداد بند کر دی (اب اس کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا) میں ایمانداری سے کہوں گا کہ اس وقت پاک امریکہ تعلقات اس دور سے بہتر ہیں جب ہم اسے امداد دیا کرتے تھے) …اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا کہ تب امریکہ کی ناراضی کا سبب، CPEC کے علاوہ چین، ترکی، ایران اور روس پر مشتمل خطے میں ابھرتی ہوئی نئی طاقت سے پاکستان کی رفاقت بھی تھی۔ عمران خان کی کابینہ میں وزارتِ خارجہ کا حلف اٹھانے کے بعد جناب شاہ محمود قریشی نے فرمایا تھا: ہم خارجہ پالیسی کا قبلہ درست کریں گے، جبکہ جناب رزاق داؤد ایک سال کے لیے، CPEC منصوبوں پر کام بند کرنے کی بات کر رہے تھے۔
کشمیر کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی طرف سے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش پر، سچ بات ہے کہ ایک بار تو ہمیں جھرجھری سی آ گئی۔ امریکی صدر نے ہمارے وزیر اعظم سے گزشتہ جولائی کی ملاقات میں بھی اسی طرح کی پیشکش کی تھی اور اس کے 15 دن بعد (5 اگست کو) نریندر مودی نے آرٹیکل 370 اور 35(A) ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی (برائے نام سی) خود مختاری بھی ختم کر دی تھی اور تب سے وہاں قیامت کا سماں ہے۔ کشمیری اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم ہو چکے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے ان مظلوموں کے حق میں ہمدردی اور نریندر مودی کی مذمت میں دو بول بھی سنائی نہیں دیئے۔ اس کے بعد (22 ستمبر کو) امریکی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ بھی ہوا کہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی، ہیوسٹن (ٹیکساس) میں ہندوستانیوں کے جلسے سے خطاب میں نہ صرف ایک دوسرے پر واری جا رہے تھے بلکہ ”سر حد پار دہشت گردی‘‘ سمیت مختلف عالمی امور پر مشترکہ ویژن کا اعلان بھی کر رہے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے تب صدر ٹرمپ کو دورۂ پاکستان کی دعوت بھی دی تھی، جسے رسماً قبول کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لیے ضرور وقت نکالیں گے۔ ٹرمپ دورۂ پاکستان کے لیے تو وقت نہیں نکال سکے؛ البتہ اگلے ماہ (فروری میں) ہندوستان جا رہے ہیں۔ ڈیووس میں اس سوال پر کہ کیا وہ اس موقع پر پاکستان بھی آئیں گے؟ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس کے لیے وہ (بعد میں) الگ سے وقت نکالیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس توقع کا اظہار کر رہے تھے کہ امریکی صدر کا یہ دورہ جلد ہی ہو گا لیکن ظاہر ہے، فروری کے بعد ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخاب (نومبر 2020) کی مصروفیات درپیش ہوں گی؛ چنانچہ اسلام آباد میں ہمارے فارن آفس کی یہ بات زیادہ وزنی ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورہ پاکستان امریکی صدارتی انتخاب کے بعد ممکن ہو گا۔
ہم پاکستان میں اداروں کے ”سیم پیج‘‘ پر ہونے کی بات سنتے رہتے تھے۔ اب ”سیم پیج‘‘ کی بات ڈیووس میں بھی سنائی دی۔ ”امریکہ اور پاکستان کے سیم پیج پر ہونے کی بات‘‘ لیکن یہ افغانستان والا ”سیم پیج‘‘ ہے کشمیر، اسلام آباد اور واشنگٹن کے سیم پیج پر نہیں۔
پاکستان میں سول، ملٹری تعلقات کے ”مسائل‘‘ کی ذمہ داری سابق سول حکومتوں پر عائد کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کی کرپشن پر نظر رکھتی تھیں‘ جس سے تعلقات خراب ہوتے تھے، تو کیا جناب وزیر اعظم دنیا کو یہ بتا رہے تھے کہ ہماری ایجنسیاں، سول حکومتوں کے معاملات کی بھی مانیٹرنگ کرتی تھیں؟ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، کہ فلاحی ریاست کا تصور تو انہیں برطانیہ جا کر معلوم ہوا (جب مزید تعلیم اور پھر کرکٹ کے سلسلے میں برطانیہ آنا جانا رہا) لیکن پاکستان میں تو وہ ریاست مدینہ کے ویژن کی بات کرتے ہیں۔