منتخب تحریریں

کن گناہوں کی یہ سزا ہے؟

Share

دیگر مسائل اپنی جگہ ہیں۔ ٹھیک ہے مہنگائی ہے، کاروبار ایسے نہیں چل رہے جیسے چلنے چاہئیں، انتظامی کنٹرول نام کی چیز کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ نالائقی کے نت نئے معیار آئے روز قائم کیے جا رہے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ لیکن ان تبدیلی والوں نے تو قوم کی مَت مار دی ہے۔
کام آپ سے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ وہ بھی برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے کھاتوں میں اکثر کوئی اتنے شاندار حکمران نہیں آئے۔ اس فہرست میں ایک اور حکومت والوں کا اضافہ ہو جائے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن انہیں یہ کس نے کہا ہے کہ ہر روز کی بنیاد پہ قوم کی اجتماعی عقل کی توہین کرتے رہیں؟ کیا یہ قوم کو اتنا ہی بے وقوف سمجھتے ہیں کہ جو لایعنی بات منہ سے نکلے قوم اُس کے سامنے سربسجود ہوجائے؟ شاہکار تو بہت ہیں لیکن یہ سوئٹزرلینڈ کے مقام ڈیووس میں ایک ناشتے کی تقریب میں وزیراعظم صاحب نے جو تقریر فرمائی اورجس کی مفصّل رپورٹنگ میڈیا میں آچکی ہے، یہ تقریر اوریہی باتیں وزیراعظم زیادہ نہیں توکم ازکم پانچ سوبار دہرا چکے ہوں گے۔ وہی خود سرائی کہ کرکٹ کے میدان میں آیا تو بہت مشکلات کا سامنا تھا‘ لیکن محنت اورہمت سے اُن پہ عبور حاصل کیا۔ لوگ کہتے تھے پاکستان جیسے ملک میں کینسر ہسپتال نہیں بن سکتا لیکن میں نے بنا کر دکھایا۔ میانوالی جیسے دُور افتادہ علاقے میں نمل یونیورسٹی جیسی ورلڈ کلاس درسگاہ بنائی۔ پھر سیاست میں قدم رکھا جس پہ شروع میں لوگ مذاق اڑاتے تھے لیکن تمام دُشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ یہ چیزیں سن سن کے قوم کے کان پک چکے ہیں۔ سید عطااللہ شاہ بخاری جیسا عظیم مقرر ہو تو اُن کی بھی اگر ایک ہی تقریر سننے کو ملے تو لوگ کتنی باراُسے سُن سکتے ہیں؟ وزیراعظم صاحب اورجو بھی ہوں عطااللہ شاہ بخاری نہیںہیں۔
باقی تقریر بھی اُنہی گھسے پٹے جملوں سے بھری ہوئی ہے جو ہم بار بار سُن چکے ہیں‘ کہ پہلے کے حکمران ملک کو تباہ کر گئے، ہمیں بڑے بُرے حالات ورثے میں ملے لیکن کرپٹ مافیا کا ہم سامنا کررہے ہیں، معیشت میں اب استحکام آگیاہے اور پاکستان عنقریب بہتر ی کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ وزیر اعظم صاحب ایسا ارشاد کررہے ہوں تو لازم ہوتاہے کہ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کاذکر آئے۔ یہاں بھی یہی ہوا جب انہوں نے فرمایا کہ مہاتیر محمد بھی اپنی قوم کو صبر کی تلقین کرتے تھے، یعنی آپ بھی کچھ صبر کریں، بس حالات ٹھیک ہونے والے ہیں۔ قوم یہاں آٹے اورپتا نہیںکس کس چیز کیلئے رو رہی ہے اور وزیراعظم وہی پرانی باتیں دہرا کے قوم کو بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ قوم کی اپنی کمزوریاں ہیں، نادانیاں بھی بہت ہیں، لیکن یہ کس نے سمجھ لیا کہ قوم اتنی بے وقوف ہے کہ ایسی سطحی باتوں میں آنے کیلئے بے قرار کھڑی ہے؟
خدا معاف کرے لیکن وزیراعظم صاحب کے پاس ایک ہی گھِسا پِٹا گرامو فون ریکارڈ ہے۔ اپوزیشن لیڈر تھے تب بھی یہی ریکارڈ چلتاتھا، حکومت میں آئے ہیں (یا لائے گئے ہیں) تو گفتگو میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آئی۔ وہی بار بار کی دہرائی گئی باتیں چاہے مقام پاکستان ہو یا کہیں اور۔
ہم نوازشریف کو روتے تھے کہ امریکی صدر بارک اوبامہ کے سامنے بیٹھ کے چند جملے فی البدیہہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ وہ منظر قوم کے ذہن پہ نقش ہے جب نوازشریف نے ایک تھدّی کاغذوں کی ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور چند جملے کہنے کیلئے ان کاغذوں کو صدر اوبامہ کے سامنے ادھر ادھر کررہے تھے۔ موجودہ وزیراعظم کا یہ پرابلم تو نہیں، فی البدیہہ تقریر کے آپ ماسٹر بن چکے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو ایک ہی تقریر لبوں سے نکلتی ہے۔ کوئی نیا خیال بھی اُن کے ذہن میں آئے یہ معجزہ ابھی تک رُونما نہیں ہوا۔ یہ بھی اِن سے پوچھا جاسکتاہے کہ ڈیووس آپ کرنے کیا گئے تھے۔ کون سا ایسا ناگزیر کام تھا جس کے کرنے کیلئے آپ کی وہاں حاضری ضروری تھی؟
دنیا کے بڑے ممالک اوردنیا کے امیر ترین لوگوں کی اپنی سوچ ہے اوراپنی ترجیحات۔ وہ ایک لیول پہ ہوتے ہیں اوراُسی لیول پہ بات کرتے ہیں۔ ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ ڈیووس جیسے مقام پہ ہمارا جانا کیا تُک رکھتاہے؟ وزیر اعظم کو وہاں مل بھی کون رہے ہیں؟ کوکا کولا کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور اِس قسم کے دوسرے لوگ۔ سبحان اللہ۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے باقاعدہ کوئی ملاقات ہمارے وزیراعظم کی نہیں ہوتی، بس کہیں چلتے چلتے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور چند منٹ کیلئے گفتگو ہو جاتی ہے۔ اُسے ہمارے میڈیا میں بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے۔ خطاب بھی وزیراعظم کہاں فرماتے ہیں، ایک ناشتے کی میٹنگ پہ جسے دو پاکستانی بزنس مین ارینج کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارے دوست اکرام سہگل ہیں۔ اپنا خیال نہیں تو ہمارے حکمران ملک کے وقار کا ہی کچھ خیال کر لیا کریں۔ جس اجتماع میں ہمارا اتنا مقام نہ ہو وہاں جانے کی ضرورت کیا ہے؟ بس سیر سپاٹے کا شوق رہتا ہے۔ ہاتھ میں کشکول جو ہاتھوں سے کبھی چھُوٹا نہیں لیکن باتیں اُونچی اُونچی‘ جن کی پروا کم ازکم باہر کی دنیا نہیں کرتی۔ اپنے ڈھولوں کے پیٹنے پہ ہم خود ہی خوش اورمحوِ رقص ہوجاتے ہیں۔
نواز شریف کو بھی ڈیووس کی بیماری لگی ہوئی تھی۔ بطور وزیر اعظم ہر ڈیووس میٹنگ پہ پہنچ جاتے تھے۔ خطاب کا موقع وہی اکرام سہگل کے ناشتے کی میز پر ملتا تھا۔ کیا خوب بندوبست ہے، اکرام سہگل صاحب کو بطور مہمان اپنا ہی وزیر اعظم ملتا ہے اور وزیر اعظم، نواز شریف ہوں یا عمران خان، کو بھی خطابت کے جوہر دکھانے کیلئے ڈیووس میں یہی ایک موقع ملتا ہے۔ اتنا تردّد کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ یہی میٹنگ کہیں اسلام آباد، لاہور یا کراچی میں کی جا سکتی ہے۔ اِن میں کوئی باہر سے بڑے نام نہ آئیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ڈیووس میں بھی باہر کے لوگ ہمارے وزیر اعظموں کو سننے کیلئے اتنے بے تاب نہیں ہوتے۔ ہمارے جیسے ملک کیلئے ڈیووس وقت کا ضیاع ہے لیکن ہمارے وزیر اعظموں کو کون سمجھائے۔
ہمارے ملک کو نظر کس کی لگی۔ آج کل ہم گورننس گورننس کہنے میں لگے رہتے ہیں لیکن پوچھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے نصیب میں ڈھنگ کے حکمران آئے کیوں نہیں۔ یہ کوئی جمہوری حکمرانوں اور مارشل لاء والوں کا موازنہ نہیں ہے۔ بڑے بڑے قابل جرنیل دنیا میں آئے ہیں۔ اَتا تُرک فوجی تھے، چارلس ڈیگال جرنیل تھے۔ جنوبی کوریا اور تائیوان کی ترقی وہاں کے جرنیلوں کے مرہون منت رہی ہے۔ سنگا پور کے لی کوآن یو مکمل نہیں تو آدھے سویلین ڈکٹیٹر تھے۔ مہاتیر محمد نے بھی حکومت کی تو رعب اور دبدبے سے۔ ہمیں یہ سوال اُٹھانا چاہیے کہ ہمارے حکمران اتنے پست معیار کے کیوں رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو ذہین تھے لیکن اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود فضول اور بے مقصد تباہ کاریاں کر گئے۔ ضرورت سے زیادہ تیز تھے اور وہاں بھی تیزی دکھا جاتے جہاں قطعاً کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ محمد خان جونیجو کوئی دانش ور نہ تھے۔ نواب کالا باغ گورنر تھے تو اُن کی مغربی پاکستان کی کابینہ میں وزیر رہے۔ پھر عرصہ دراز تک اُن کا نام سیاست کے میدان سے اوجھل رہا۔ جنرل ضیاء الحق نے جو 1985ء کے انتخابات کرائے۔ اُس کے بعد پیر پگاڑا کی سفارش پہ محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنا دئیے گئے۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے نامزد کردہ وزیر اعظم تھے لیکن جتنا عرصہ رہے اپنے فرائض اُنہوں نے نہایت پُر وقار انداز میں ادا کیے۔ اپنی عزت رکھی اور اپنے عہدے کی بھی۔ کرپشن کا کوئی الزام اُن پہ نہ لگ سکا۔ اُس کے بعد جمہوریت کے جو دو تحفے ملے، بینظیر بھٹو اور نواز شریف، اُنہوں نے تو کمال ہی کر دیا۔ ایسی داستانیں اُن کے حوالے سے رقم ہوئیں کہ پڑھیں تو یقین نہیں آتا۔
اب کے جو کرشمہ ساز ہیں اِن کو قوم کے نوجوانوں اور پڑھے لکھوں نے نجات دہندہ کے طور پہ کندھوں پہ اُٹھایا۔ خود بھی کہتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک کر دوں گا اور مڈل کلاسیے بھی سمجھتے تھے کہ قوم کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ اپنی بے مثال صلاحیتوں کی وجہ سے جو قوم کا حشر کر رہے ہیں وہ عیاں ہوتا جا رہا ہے‘ لیکن جو بھی ہو اتنی احتیاط بَرت لی جائے کہ قوم کی اجتماعی ذہانت کا آئے روز اتنا مذاق تو نہ اڑایاجائے۔