فواد حسن فواد کبھی صرف فواد تھا۔ ایک دبلا پتلا دھان پان سا لڑکا جو ہاکی اور کرکٹ میں جُتا رہتا تھا۔ 14 جنوری کو وہ ساٹھ برس کا ہوا تو لاہور کے کیمپ جیل میں تھا۔ اُس دن وہ ہم سب گھر والوں کو بہت یاد آیا۔ وہ کوئی نصف صدی سے ہمارے گھر کا فرد ہی تھا۔ میری بیگم، جو ہر نماز اور تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد اُس کے لیے دعا کرتی تھی، چونک کر بولی ”ساٹھ سال کا ہو گیا؟ اتنا سا لڑکا تھا جب ہمارے گھروں میں آتا تھا۔ وقت کس تیزی سے گزرتا ہے۔‘‘ ہم نے اس کی سالگرہ کے لیے نہ کوئی کیک کاٹا، نہ موم بتیاں روشن کیں، نہ کسی نے ”ہیپی برتھ ڈے ٹویو‘‘ والا نغمہ گایا، نہ تالیاں پیٹیں۔ یہ بہت دکھ بھری سی شام تھی۔ میں نے ڈاکٹر ندیم کو فون کیا ”آج تو ہمیں فواد کی سالگرہ منانا تھی کسی اچھی جگہ‘‘ محبت اور وفا میں گندھے ڈاکٹر نے کہا ”سر‘ کہیں نکلنے، کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ باہر مسلسل ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی اور شاید ہمارے اندر بھی۔
پچاس برس کا رشتہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ ہم راولپنڈی کی ایک کم مایہ سی بستی ڈھیری حسن آباد میں رہتے تھے۔ اس رشتہ و تعلق کا ایک نیا باب 1974ء میں کھلا جب میں فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج راولپنڈی میں اردو کے لیکچرر کے طور پر تعینات ہوا۔ اسی برس فواد لال کڑتی کے ہائی سکول سے میٹرک کرکے کالج میں پہنچا۔ وہ میری کلاس کا طالب علم ٹھہرا۔ اردو شعر و ادب سے اس کی گہری رغبت نے استاد اور شاگرد کے رشتے میں قربت کا ایک اور دریچہ کھول دیا۔ تب وہ سولہ سترہ برس کا ایک الہڑ، لا ابالی اور طرحدار سا نوجوان تھا۔ جوانی کے شاداب موسموں میں ایک رُت ایسی بھی آتی ہے جب ہر نوجوان کے دل میں رومانویت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور وہ عروض کی بندشوں سے بے نیاز، شعر کہنے لگتا ہے۔ فواد بھی شعر کہنے لگا اور فواد حسن فوادؔ بن گیا۔ اُس کے شعر، عام نوجوانوں سے قطع نظر، تمام شعری تقاضوں سے آشنا تھے۔
میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ ایسے گھرانوں میں جنم لینے والوں کا لڑکپن، براہ راست ادھیڑ پن میں داخل ہو جاتا ہے۔ رزق روزی کی تلاش میں محنت مشقت کے کولہو میں جُتی ان کی زندگیوں میں جوانی آتی ہی نہیں۔ لیکن کالج کے نوجوان اور خوش ذوق طلبا کے ساتھ رہتے ہوئے میری شاعری نے بھی بھرپور انگڑائی لی۔ میں مشاعروں اور چھپنے چھپانے سے ہمیشہ دور رہا۔ برادرم عطاء الحق قاسمی نے ایک بار کسی کالم میں لکھا تھا کہ عرفان اپنی شاعری کو اس طرح چھپاتا ہے جس طرح کوئی آدمی اپنے عیب کو چھپاتا ہے۔ میں نے کبھی اس عہد کی شاعری کو محفوظ بھی نہیں کیا، لیکن کیا کمال کا حافظہ پایا تھا فواد نے، اسے میری ساری نظمیں اور غزلیں حفظ ہو گئی تھیں۔ اسی کے حافظے نے ان دنوں ”محبت کی نظمیں‘‘ کے عنوان سے میری شاعری کی ایک کتاب بھی مرتب کی۔ عمر بھر میں اپنے کسی گم شدہ شعر کے لیے فواد ہی سے رابطہ کرتا رہا، اور اب بھی کرتا ہوں۔
ایک دن مجھے کالج کے ہمہ رنگ پرنسپل ہمدانی صاحب نے اپنے دفتر میں بلایا۔ کہنے لگے: ”آپ ڈیبیٹنگ کلب کا انتظام سنبھالیں اور کالجوں کے روایتی سالانہ میگزین سے ہٹ کر ایک پندرہ روزہ خبرنامہ شروع کریں جس کا انتظام کالج کے سٹوڈنٹس خود کریں۔ بس آپ نگران ہوں۔‘‘ اس اچھوتے اخبار کا نام ”رپورٹر‘‘ تجویز ہوا۔ میں نے ان دونوں کاموں کے لیے فواد کو ساتھ لیا اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔ رپورٹر دیکھتے دیکھتے بہت دور نکل گیا۔ فواد ڈیبیٹنگ کلب کے سانچے میں ڈھل گیا۔ وہ نہ صرف پنڈی اور اسلام آباد، بلکہ ملک بھر کے نامور اردو ڈیبیٹر کے طور پر جانا جانے لگا۔ صدر رفیق تارڑ اور وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر نویسی سے بہت پہلے میں فواد حسن فواد کا تقریر نویس بھی رہا ہوں۔ ایک دن فواد کی دھواں دھار تقریر سنتے ہوئے، شعبہ اردو کے صدر اور معروف شاعر جمیل ملک مرحوم نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولے: ع سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
دَم بھلے سینۂ شمشیر سے باہر تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ فواد ایک شمشیر جوہردار کی طرح چمکا اور بڑا نام پایا۔ انہی دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ بھی کالج کے طالب علم تھے۔ انگریزی تقریر ان کا ہنر تھا۔ بلا شبہ اطہر نے بھی انگریزی مقرر کے طور پر کمال کی شہرت پائی۔ فواد میں ”لیڈری‘‘ کے جراثیم بھی تھے۔ وہ سٹوڈنٹس یونین کے جس بھی عہدے کا انتخاب لڑا، بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا۔ تقریر کا فن اس کی کامرانی کی کلید تھی۔ جن دنوں وہ یونین کا صدر منتخب ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کا عہد تمام ہونے کو تھا۔ طلبہ کے جوشِ جنوں کا لاوا سڑکوں پہ بہہ رہا تھا۔ سر سید کالج کی ایسی کوئی روایت نہ تھی لیکن فواد کی طبیعت میں ہمیشہ ایک اکساہٹ سی رہی‘ سو اُس نے بھی کالج کے طلبہ کو کلاسوں سے نکال کر ایک شعلہ فشاں تقریر کی اور انہیں لے کر مال روڈ پر چل پڑا۔ ہمدانی صاحب کا بس نہ چلا تو خود جلوس کے آگے آگے، فواد کے پہلو بہ پہلو چلنے لگے۔ ایک جگہ رک کر بولے ”جہاں تک جانا ہے میں ساتھ جائوں گا‘ لیکن اگر کسی نے پتھر مارنا ہے تو پہلے میرے سر پہ مارنا۔‘‘ ہمدانی صاحب کا سر چٹیل میدان کی طرح بے آب و گیاہ تھا۔ کیا کمال کے انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ کبھی کبھی فواد کے چونچال پن سے تنگ آ کر، تیز تیز قدموں سے چلتے میرے چھوٹے سے کمرے میں آتے اور ہاتھ جوڑ کر کہتے: ”خدا کے لیے اس کو سمجھائو۔ وہ کسی اور کی نہیں سنتا۔‘‘ میں اسے سمجھاتا اور وہ میری سن بھی لیتا۔
فواد سی ایس ایس کرکے ڈی ایم جی میں گیا تو ہم نے ایک جشن منایا۔ اس کی پہلی تقرری کوئٹہ میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر ہوئی تو اس نے مجھے بلایا۔ میں ہفتہ بھر اس کے ساتھ رہا اور سوچتا رہا کہ شاگرد کو پھولتے پھلتے دیکھ کر استاد کو اتنی خوشی کیوں ہوتی ہے؟ وہ کسی برقی سیڑھی کے بغیر زینہ زینہ قدم اٹھاتا، سرکاری ملازمت کی معراجِ کمال تک پہنچا۔ اسے پہنچنا ہی تھا کہ قدرت نے اس کی پیشانی پہ رقم کر دیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر فواد کا عہد، شاید اس کی پوری ملازمت پہ بھاری تھا۔ وہ صبح دم دفتر میں آتا اور رات تک کام میں جُتا رہتا۔ کبھی اس کی بہت ہی نفیس اور با ہمت بیگم سے ملاقات ہوتی تو کہتی: ”پروفیسر صاحب اس کو سمجھائیں‘‘ فواد کے ساتھ برسوں سے دوستی کا تعلق بن گیا ہے لیکن وہ اور اس کے سارے گھر والے مجھے پروفیسر صاحب کہہ کر ہی بلاتے ہیں۔ میں رباب سے کہتا: ”دیکھو رباب! تمہیں اب تک پتہ نہیں چلا کہ یہ سر پھرا اور جنونی سا ہے۔ کام کا بھوت اس کے سر پہ سوار ہو تو اسے کسی اپنے پرائے کی سدھ بدھ نہیں رہتی۔‘‘ میں فواد کے سادہ و درویش والد اور اس کی روایتی مائوں جیسی محبت شعار والدہ سے بیسیوں بار ملا۔ ان کے ہاتھ کے بنے کھانے کھائے۔ کیا طرحدار لوگ تھے۔ اچھا ہوا انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ جانے اپنے زنجیر بستہ بیٹے کی ساٹھویں سالگرہ مناتے ہوئے ان پر کیا گزرتی۔
نواز شریف دور میں، میں اور فواد ایک ہی کشتی پہ سوار تھے۔ ہم دونوں کے دفاتر سیکرٹریٹ کی پانچویں منزل پہ تھے جہاں خود وزیر اعظم کا دفتر بھی تھا۔ وزیر اعظم ہائوس میں بھی شاید ہی کوئی دن ہو جب ہماری ملاقات نہ ہوئی ہو۔ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ کھرا شخص تھا۔ اتنا کھرا شخص، بعض اوقات کھُردرا سا لگنے لگتا ہے لیکن وہ اپنے ڈھب کا افسر تھا۔ اس کی دفتری اور گھریلو زندگی، اس کا حلقہِ رفاقت، اس کی سیاسی فکر اور اس کے کردار و عمل کی ایک ایک پرت میرے سامنے ہے۔ مجھے کبھی یہ گمان نہیں گزرا کہ وہ ڈگمگا رہا ہے، یا اس کی ترجیحات بدل رہی ہیں یا وہ نا مطلوب راہوں میں کشش محسوس کرنے لگا ہے۔ پرنسپل سیکرٹری کے منصبی تقاضوں سے ہٹ کر، اُس سے جب بھی وزیر اعظم نے مشورہ کیا، اس نے اپنی بے لاگ رائے دی۔ اور یہ رائے بیشتر وزیر اعظم کی رائے سے مختلف ہوتی تھی۔ اسے نواز شریف کی امانت و دیانت پر ایمان کی حد تک یقین و اعتماد رہا۔ وہ بھری محفل میں لہجے کی مقرّرانہ کھنک کے ساتھ کہتا تھا: ”میں اپنی عزیز ترین شے کی قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم نواز شریف کرپشن سے پاک، ایک دیانتدار شخص ہے‘‘۔ وہ شاید ایسے ہی کسی جرم میں پکڑا گیا۔ پھر اس کی کردار کشی ہوئی۔ نیب کے بے چہرہ کرداروں نے افسانے تراشے۔ اس پر شدید دبائو ڈالا گیا۔ ڈرایا گیا۔
لالچ دیا گیا کہ بس نواز شریف کے چہرے پر ذرا سی کالک تھوپ دو۔ درِ زنداں کھل جائے گا اور سارے مقدمے ختم۔ لیکن زمانۂ طالب علمی جیسے کھرے، دو ٹوک، اٹل، جری اور بے لچک نوجوان کی طرح اس کی استقامت میں بال برابر لرزش نہ آئی۔ کنج قفس میں بھی وہی کچھ کہتا رہا جو مجمع عام میں کہا کرتا تھا۔
ستر کی دہائی سے اب تک وہ جو بھی رہا، جہاں بھی رہا، میرے ساتھ رہا۔ وہ اسلام آباد یا راولپنڈی میں ہوتا تو ہفتے دس دن میں ہم لازماً کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتے۔ یہ خصوصی محفل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس میں وہی پانچ چھ لوگ ہوتے جو پہلے دن تھے۔ نہ کوئی بیوروکریٹ، نہ بڑا عہدیدار، بس وہی جو سر سید کالج سے نسبت رکھتے تھے۔ یہ ہم دونوں کی زندگیوں میں پہلا طویل ترین وقفہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے نہ مل پائے۔ وہ جیل سے نکل کر مجھ تک آ نہیں سکتا تھا اور مجھ میں حوصلہ نہ تھا کہ اسے جیل کی کوٹھڑی میں دیکھوں۔
جوان دنوں کی تمازتیں، سرکار دربار کے بے آب و رنگ روز و شب میں ڈھلیں تو فواد حسن فواد کی شاعری بڑی بڑی میزوں پہ دھری فائلوں، لمبی لمبی الماریوں کی کرم خوردہ درازوں اور کئی کئی گھنٹوں پر محیط میٹنگز میں کہیں گم ہو گئی۔ کارِ حکمرانی کے جھاڑ جھٹکار سے اٹی کشتِ فکر میں شاعری کے چمن کہاں کھلتے؛ اچھا ہوا کہ کوٹ لکھپت اور کیمپ جیل کے خس و خاشاک کا حصہ بن جانے کے بجائے اس نے ایک بار پھر گئے دنوں کی راکھ میں دبی چنگاریاں چنیں اور شعر کا آتشدان سلگانے لگا۔ زندگی بھی کیا سخت جان اور خوش ذوق حسینہ ہے کہ ہر موسم میں کوئی نہ کوئی خوش تراش پیرہن بدل لیتی ہے۔
ممکن ہے فواد اب تک گھر آ چکا ہو لیکن میں دبئی میں ہوں۔ آئوں گا تو اس کے عشّاق کا مجمع چھَٹ چکا ہو گا۔ پھر میں اس کے پہلو بہ پہلو بیٹھ کر اس کی تازہ اور اپنی باسی شاعری سنوں گا۔ ایک جہاں دیدہ اور سرد و گرم چشیدہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے بدن پر شاعری کا پیرہن کیا خوب سجے گا۔
لیکن شعر و سخن کی یہ حکایت اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ (جاری)