کیا افزائشِ نسل کے لیے مردہ شخص کا سپرم استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟
کیا مردہ افراد کے سپرم سے افزائشِ نسل ہو سکتی ہے؟ ایک تازہ تحقیق کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے جسم سے نکالے گئے سپرم عطیہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
جرنل آف میڈیکل ایتھکس نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افزائش نسل کے لیے مرنے کے بعد انسان کے جسم سے سپرم نکال کر حالیہ ذخائر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
صرف 2017 میں برطانیہ میں 2345 بچے ’سپرم کے عطیے‘ کی بدولت پیدا ہوئے۔ تاہم برطانیہ بھر میں سخت قوانین کی وجہ سے سپرم عطیہ کرنے کے رواج میں کمی آتی جا رہی ہے۔
تحقیق کے مطابق کسی مرد کے مردہ جسم سے آپریشن کر کے یا بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے پروسٹیٹ گلینڈ کو حرارت پہنچا کر سپرم حاصل کیا جا سکتا اور بعد میں اسے منجمد کیا جا سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق موت کے 48 گھنٹے بعد تک مردہ جسم سے ایسے سپرم حاصل کیے جا سکتے ہیں جن سے خواتین حاملہ ہو کر صحت مند بچوں کو جنم دے سکتی ہیں۔
اپنے تجزیے میں لیسسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر نیتھن ہوڈسن اور مانچسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر جوشوا پارکر کہتے ہیں کہ جس طرح مردہ افراد کے جسم کے دیگر اعضا پیوندکاری کے لیے نکالے جا سکتے ہیں، اسی طرح مردہ جسم سے سپرم بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دونوں ڈاکٹروں کے خیال میں اگر کوئی شخص کسی کو مصیبت سے چھٹکارا دلانے اور ان کی زندگی بڑھانے کے لیے اپنے جسم کے مختلف اعضا عطیہ کرتا ہے تو یہ اخلاقی طور پر قابل قبول سمجھا جاتا ہے، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ بانجھ پن جیسی دوسری تکالیف کے شکار افراد یہ سپرم حاصل نہ کر سکیں۔
تاہم ان کے خیال میں اس سب کے لیے مرنے والے انسان کے خاندان سے اجازت درکار کرنے سے متعلق سوال اٹھ سکتے ہیں اور ڈونر کا نام خفیہ رکھنے سے متعلق خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔
سنہ 2014 میں برمنگھم میں حکومت کی طرف سے دیے گئے 77 ہزار پاؤنڈز سے ایک قومی سپرم بینک کھولا گیا۔
دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ بینک بند ہو گیا اور یوں ڈونرز کی رجسٹریشن کا عمل رک گیا۔ اس بینک کے ساتھ نو افراد نے رجسٹریشن کروائی تھی جن میں سے ایک نے بعد میں اپنا نام واپس لے لیا تھا۔
سنہ 2005 سے برطانیہ کے قانون کے مطابق سپرم دینے والے شخص کا اس بات پر آمادہ ہونا ضروری ہے کہ اس کے سپرم سے پیدا ہونے والے بچوں میں سے کوئی بھی جب 18 سال کا ہو گا تو وہ ان سے رابطہ کر سکتا ہے۔
’چیلنج سے بھرپور دھبہ‘
ماضی میں سپرم عطیہ کرنے والے لندن کے جیفری انگولڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ مرنے کے بعد سپرم عطیہ کرنے کی اجازت سے مزید لوگ سپرم عطیہ کرنے کے لیے سامنے آئیں گے۔
ان کے خیال میں سپرم عطیہ کرنا بھی ایسا ہی اچھا کام ہے جیسے جسم کے دیگر اعضا عطیہ کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’میرے لیے سپرم عطیہ کرنے کا مقصد جین یا کوئی اور نہیں بلکہ ضرورت مند دوستوں کی مدد کرنا ہے۔‘
ان کے خیال میں سپرم عطیہ کرنے کا یہ عمل کسی نہ کسی طرح اس متعلق معاشرے میں موجود خاص خیالات کو چیلنج کرتا ہے۔
جیفری انگولڈ کا کہنا ہے کہ اگ سپرم عطیہ کرنے سے متعلق عمل سے مزید آگاہی دی جائے تو ایسی صورت میں زیادہ لوگ سپرم عطیہ کرنے پر رضامند ہو جائیں گے۔
تاہم شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن پیکے کے خیال میں اس سے سپرم عطیہ کرنے کا عمل ایک قدم پیچھے چلا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں ’میں ترجیح دوں گا کہ ہم ایسے نوجوان صحت مند اور عطیہ دینے پر آمادہ افراد کو بھرتی کرنے پر اپنے وسائل صرف کریں جن کے اس وقت تک زندہ رہنے کا امکان ہو جب ان کے عطیے سے جنم لینے والا فرد ان کے بارے میں تحقیق کرنے کے قابل ہو اور اسے کسی روحانی عامل کی مدد کے بغیر ان سے رابطہ کرنے کا موقع مل سکے۔‘
ایک قانونی مثال
برطانیہ میں سنہ 1997 میں ایک خاتون نے اپنے مردہ شوہر کے سپرم کو استعمال کرنے سے متعلق حق کا مقدمہ جیت لیا تھا۔
سنہ 1995 میں اپنی بیوی ڈیانے کے ساتھ اپنی فیملی شروع کرنے کی کوشش کے دو ماہ بعد سٹیفن بلڈ کو گردن توڑ بخار ہو گیا تھا۔
وہ کومہ میں ہی چل بسے اور یہ وصیت نہ کر سکے کہ ان کے سپرم کو استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں اگرچہ ان کی اہلیہ کی درخواست پر ان کے جسم سے دو نمونے حاصل کیے گئے۔
سنہ 1990 کے ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریولوجی ایکٹ نے ڈیانے کو اپنے وفات پا چکے شوہر کا سپرم استعمال کرنے سے روک دیا۔
تاہم بعد میں عدالت نے ان کی درخواست پر انھیں یہ سپرم برطانیہ کے علاوہ یورپی کمیونٹی میں کہیں بھی افزائش نسل کے علاج کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
ڈیانے نے اپنے شوہر کے سپرم سے 2002 میں اپنے بیٹے جوئل کو جنم دیا۔ اس کے ایک سال بعد ہی ڈیانے نے اپنے وفات پا چکے شوہر کو اپنے بیٹے کا قانونی طور پر باپ تسلیم کروانے کی قانونی جنگ بھی جیت لی۔