بلوچستان اسمبلی کے سپیکر میر عبد القدوس بزنجو اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے درمیان اختلافات ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر گئے ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے سپیکر نہ صرف کھل کر وزیر اعلیٰ کے خلاف میدان میں آگئے ہیں بلکہ انھوں نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک استحقاق بھی جمع کرادی ہے۔ سپیکر کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کے لیے انہیں مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل ہے۔
سپیکر اور وزیر اعلیٰ جام کمال کے درمیان اختلافات کا پس منظر
سپیکر عبد القدوس بزنجو اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے تعلقات میں دراڑوں کی خبر چند ماہ پہلےہی منظر عام پر آئی تھی۔
ان اختلافات کی وجوہات میں سے ایک مبینہ طور پر سپیکر کے حلقہ انتخاب میں وزیر اعلیٰ کی جانب سے ان کے چند مخالفین کی حمایت تھی ۔
اس وقت تو بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئیر اراکین نے مل بیٹھر کر معاملہ سلجھا دیا تھا لیکن چند روز قبل قائم مقام گورنر بلوچستان کی حیثیت سے سپیکر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال خان ایک اچھے وزیر اعلیٰ ثابت نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ بلوچستان عوامی پارٹی کو چلاپائے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سپیکر اسمبلی قدوس بزنجو نے کہا کہ پارٹی کے سینئیر دوستوں کے کہنے پر وہ خاموش رہے لیکن معاملات ٹھیک نہیں ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ پارتٹی کے نام میں تو ‘عوام’ ڈال دیا گیا لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ حکومت میں عوام کہیں بھی نظر نہیں آئی۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس تک عام عوام کی رسائی تو دور کی بات ہے وہاں اراکین اسمبلی تک کے لیے جانا مشکل ہے ۔
‘بلوچستان میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں ان میں سے یہ بدترین حکومت ہے اس لیے تبدیلی ضرور آئے گی۔ بلوچستان جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلے۔’
بلوچستان کی مخلوط حکومت کن جماعتوں پر مشتمل ہے؟
جام کمال کی سربراہی میں بلوچستان کی مخلوط حکومت جن جماعتوں پر مشتمل ہے ان میں بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اورہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں جبکہ اسے جمہوری وطن پارٹی کے واحد رکن کی بھی حمایت حاصل ہے ۔
65 اراکین کی ایوان میں حکومت کو 41 اراکین کی حمایت حاصل ہے جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے 24 اراکین ، تحریک انصاف کے سات اراکین ، عوامی نیشنل پارٹی کے چار اراکین، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے تین اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ جمہوری وطن پارٹی کا کا واحد ممبر صوبائی اسمبلی بھی اتحاد میں شامل ہے۔
قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ جب تبدیلی کی جانب معاملات چل پڑیں گے تو اس وقت پتہ چل جائے گا کہ اکثریت کس کے پاس ہے ۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک مخلوط حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی بات ہے تو اس کے اکثر اراکین وزیر اعلیٰ سے ناراض ہیں ۔
‘گذشتہ روز گورنر ہاﺅس میں وزرا کی جو تقریب حلف برداری ہوئی اس میں نظر آ رہا تھا کہ اس تقریب میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے کتنے اراکین شریک تھے۔’
تاہم تحریک انصاف بلوچستان کے صدراور وزیر برائے تعلیم سردار یار محمد رند کا کہنا ہے کہ موجودہ اسمبلی میں جام کمال خان بہترین چوائس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف پہلے بھی ان کی حمایت کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی ۔
حزب اختلاف کن جماعتوں پر مشتمل ہے؟
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف تین جماعتوں پر مشتمل ہے جبکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے نواب اسلم رئیسانی بھی حزب اختلاف کا حصہ ہیں ۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جمیعت العلماءاسلام کے 11 اراکین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دس اراکین اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن ہے ۔
بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک اسکندر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جو لوگ تبدیلی کی بات کررہے ہیں ان کو ہم نے بتایا ہے کہ 23اراکین ہمارے ہیں، آپ لوگ دس اراکین لائیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کے لیے جب دس اراکین حکومتی بینچوں کو چھوڑ کرآئیں گے تو پھر ہم آگے بات کریں گے کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا ۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کیا کہنا ہے؟
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ ‘سپیکر بلوچستان اسمبلی تبدیلی کی جو بات کررہے ہیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان کی ذاتی سوچ ہے اور وہ یہ بات کن وجوہات کی بنیاد پر کررہے یہ وہ خود بہتر بتا سکتے ہیں۔’
ان کا موقف تھا کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو اس بات سے تولا جاتا ہے کہ اس نے عوام کے لیے کیا کیا۔
‘قدرتی آفات میں ریلیف ، قانون سازی ، اچھی طرز حکمرانی ، کینسر ہسپتال سمیت دیگر حوالوں سے حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔’
وزیر اعلیٰ نے میڈیا کے اراکین کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا کہ وہ سپکیر قدوس بزنجو کی باتوں پر زیادہ تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ ایک جذباتی رکن ہیں اور وہ ان کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔
قدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک استحقاق
میڈیا کے نمائندوں سے وزیراعلیٰ نے جو بات کی اس پر سپیکر نے ان کے خلاف اسمبلی میں ایک تحریک استحقاق جمع کی ہے۔
سپیکر قدوس بزنجو نے تحریک استحقاق میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے انھیں جذباتی انسان قرار دینے کے علاوہ کہا کہ وہ میری باتوں کواہمیت نہیں دیتے۔
سپیکر نے کہا کہ وہ اسمبلی کے ناظم ہونے کے علاوہ ایک عوامی نمائندے بھی ہیں لیکن وزیر اعلیٰ نے ان کے خلاف غیر پارلیمانی اور غیر مہذب الفاظ استعمال کیے ہیں۔
سپیکر کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے ان ریمارکس سے نہ صرف ان کا بلکہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے لہذا اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے حوالے کیا جائے ۔
کیا قدوس بزنجو 2018 کی طرح کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں ؟
یاد رہے کہ سابق دور حکومت میں قدوس بزنجو نے 2018 کے اوائل میں بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف بغاوت کی تھی۔
ان کی بغاوت کے نتیجے میں نہ صرف نواب ثناءاللہ زہری کو استعفیٰ دینا پڑا تھا بلکہ قدوس بزنجو خود تین ماہ کی مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بھی بن گئے تھے ۔
اب جب وہ ایک بار پھر حاضر وزیر اعلی کے خلاف میدان میں آ گئے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ کیا جام کمال کو بھی استعفیٰ دینے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں۔
تجزیہ کار اور کوئٹہ میں بول ٹی وی کے بیوروچیف شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اس کے امکانات کم ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ قدوس بزنجو کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں حکومتی اراکین ان کے ساتھ ہیں لیکن ابھی تک انھوں نے عملی طور پر ان اراکین کی حمایت ظاہر نہیں کی۔