فیچرز

دیسی شادیوں کو یادگار بنانے والے ویڈنگ کوریوگرافرز

Share

دیسی شادیوں کا ذکر ہو اور ناچ گانے کی بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن اب روایتی شادیاں بھی جدید رنگ میں ڈھلتی جا رہی ہیں اور ڈھول کی تھاپ پر رشتہ داروں کے رقص اور دلہن کی سہیلیوں کے گیتوں کی جگہ ڈی جیز، میڈلیز اور میش اَپس نے لے لی ہے۔

شادیوں کے اِس بدلتے روپ کی جان ویڈنگ کوریوگرافر ہے جو اپنی صلاحیتوں سے شادی کی تقریبات میں ایسا رنگ بھرتا ہے کہ اُن پر کسی بالی ووڈ فلم کا گمان ہونے لگتا ہے۔

آئیے آپ کو ایک ایسے ہی مقبول ویڈنگ کوریوگرافر سے ملواتے ہیں۔

شادی

کوریوگرافر ہی کیوں؟

کراچی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ عارفین اقبال گذشتہ 10 برس سے اِس شعبے سے وابستہ ہیں۔ ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ویڈنگ کوریوگرافرز وقت کی ضرورت ہیں۔

‘اب لوگوں کے پاس رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کا وقت نہیں ہوتا تو ایسے میں کون کئی کئی دن ڈانس پریکٹسز کے لیے سب کو ایک جگہ جمع کرے۔ پھر جو گانا خود سے سیکھنے میں گھر والے کئی کئی دن لگا دیتے ہیں وہ مجھ جیسے پروفیشنل کوریو گرافرز چند گھنٹے میں سِکھا دیتے ہیں۔ تو اِس طرح آج کل لوگ اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔’

عارفین کا دعویٰ ہے کہ اب لوگ شادی کی تقریبات کے لیے ‘ون ونڈو سلوشن’ چاہتے ہیں اور اُن کی ڈانس کمپنی یہ سہولت فراہم کرتی ہے۔

‘کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد اپنی مصروفیات یا ہچکچاہٹ کی وجہ سے خود رقص نہیں کرنا چاہتے۔ تو میں اِس صورت میں اپنے گروپ کے ساتھ پرفارم کرتا ہوں۔ لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ میری کمپنی کے ڈانسرز کو دیکھ کر ڈانس گروپ کا احساس نہ ہو بلکہ وہ خاندان کا حصہ ہی لگیں تاکہ ایک اپنائیت کا احساس ہو۔’

شادی

بُکنگ کرائیں لیکن مہینوں پہلے

گرافِک ڈیزائنر عاصمہ افتخار اور برطانیہ سے آئے اُن کے منگیتر احسن خان اِن دنوں اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ دونوں نے مل کر عارفین اقبال کو اپنی ویڈنگ کوریوگرافی کے لیے منتخب کیا ہے۔ اُن کے مطابق یہ کام کچھ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

‘عارفین جیسے ماہر کوریو گرافرز شادی سیزن کے دوران ہاتھ نہیں آتے کیونکہ اِن دنوں اُن کے پاس سر کُھجانے کی فرصت نہیں ہوتی۔ ویڈنگ کوریو گرافرز کو شادی کی تقریبات سے کئی مہینے پہلے بُک کرنا پڑتا ہے۔’

عارفین بتاتے ہیں کہ تقریب سے مہینہ بھر پہلے ریہرسل شروع کر دی جاتی ہے۔

‘ہفتے میں تین دن، دو سے ڈھائی گھنٹے مختلف ڈانسز کی پریکٹس کی جاتی ہے۔ آخر میں تمام افراد کو اکھٹے بلایا جاتا ہے اور مل کر ایک فائنل ریہرسل کی جاتی ہے۔ شادی کی تقریبات کے لیے لوگ عموماً 10 سے 15 گانے سیکھتے ہیں۔’

ویڈنگ ڈانس کوریو گرافی کا کام سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اہلخانہ کو ایک باقاعدہ شیڈول بنا کر دیا جاتا ہے جس میں مختلف ڈانسز اور اُن پر پرفارم کرنے والے افراد کی معلومات درج ہوتی ہیں۔

‘اِس لسٹ میں لوگوں کے نام، اُن کے لباس اور ڈانس میں استعمال کی جانے والی مختلف اشیا جیسے تلواریں، ٹوپیاں اور چھتریوں کی تفصیل شامل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوریوگرافر تقریب میں پیش کیے جانے والے میش اَپس اور میڈلیز بھی فراہم کرتا ہے۔’

شادی

ڈانس فلور انچارج

ایسا نہیں ہے کہ ویڈنگ کوریو گرافر کا کام صرف ڈانس پریکٹس کی حد تک ہی محدود ہے۔ عارفین بتاتے ہیں کہ تقریب کے دن وہ ہی ڈانس فلور کے انچارج ہوتے ہیں۔

‘میں ہی گھر کے افراد، ڈی جے، فوٹوگرافر اور ویڈیوگرافر کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہوں تاکہ ساری چیزیں پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں اور کوئی مسائل پیش نہ آئیں۔

‘کیونکہ گھر کے افراد پروفیشنل ڈانسرز نہیں ہوتے، اِس لیے اُنھیں یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ اچھی تصویر اور ویڈیو کے لیے ڈانس کے دوران کہاں اور کس رُخ پر کھڑا ہوا جائے۔ اِسی طرح فوٹو گرافر اور ویڈیو ٹیم کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ ڈانس کے سٹیپس کس قسم کے ہیں اور کون سے زاویے سے رقص کو بہتر انداز میں عکسبند کیا جا سکتا ہے۔’

میش اَپس، میڈلیز اور ری مکسز

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کے گانوں اور ڈانسز کے معاملے میں لوگوں کی پسند بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ عارفین اقبال کے مطابق اب کلائنٹس چاہتے ہیں کہ ہر بار کچھ نیا کیا جائے۔

‘پہلے مہندی کے روایتی گیت پسند کیے جاتے تھے لیکن اب لوگوں کا مزاج تبدیل ہو رہا ہے۔ اب زیادہ زور میش اَپس، میڈلیز اور پرانے گانوں کے ری مکسز پر ہے۔ اِس کے علاوہ اب شادیوں میں فلیش مابز کا تصّور بھی فروغ پا رہا ہے۔

مہندیوں کے رقص میں سالسا، ہپ ہاپ، بھنگڑا، ڈانڈیا اور گربا انداز بھی اپنایا جاتا ہے جبکہ انڈین اور پاکستانی گانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی گیتوں پر بھی پرفارم کیا جاتا ہے۔’

آپ کے پاس کون سا سپیکر ہے؟

ڈانس کوریو گرافر عارفین اقبال بتاتے ہیں کہ پہلے کے مقابلے میں اب شادی بیاہ کے رقص میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

‘پہلے صرف گھر کے افراد ایک جگہ جمع ہو کر ڈھولک کی تھاپ پر رقص کر لیا کرتے تھے لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ بیس برس قبل کوریوگرافرز اور ڈانس گروپس کا تصّور بھی نہیں تھا لیکن اب کوئی شادی اِن کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔’

عارفین مانتے ہیں کہ اب لوگ دنیا بھر کی معلومات رکھتے ہیں، وہ جدید رحجانات سے متعارف ہو چکے ہیں اور وہی معیار اپنی تقریب میں بھی چاہتے ہیں۔

‘اب کلائنٹس چھوٹی چھوٹی باریکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ تقریب کا ڈی جے کون ہے۔ اُس کے پاس ساؤنڈ سسٹم کون سا ہے۔ اور تو اور کچھ لوگ اتنی تفصیل میں جاتے ہیں کہ سپیکر کی برانڈ کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں۔’

شادی

فیس بُک فالوورز اور ویڈیو ویوز

عاصمہ افتخار اور احسن خان کے بقول لوگ شادی کی تقریبات کے لیے کوریوگرافر منتخب کرتے وقت اُس کی ساکھ کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

‘گھر والے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ڈی جے اور کوریوگرافر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کتنے فالوورز ہیں اور اُن کی ویڈیوز پر ویوز کتنے ہیں۔ ہم نے عارفین کو منتخب کرتے وقت اُن کے سابقہ کلائنٹس سے رابطہ کر کے اُن کے بارے میں رائے بھی لی تھی۔’

عارفین کا کہنا ہے کہ اِس سلسلے میں لوگوں کا فیڈ بیک کافی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

‘لوگ چاہتے ہیں کہ رقص سکھانے والا اُنھیں ٹیچر کی طرح نہیں بلکہ ایک دوست کی طرح سکھائے۔ میں نے 80 سال کے والدین اور 16 سال کے نوجوانوں کو بھی رقص کی تربیت دی ہے۔ میں ہر عمر کے افراد کے لیے مختلف انداز اپناتا ہوں تاکہ وہ باآسانی اپنے ڈانس سٹیپس سیکھ لیں۔’

حالیہ چند برسوں میں ویڈنگ ڈانس کوریوگرافرز کی مانگ میں اضافے کے بعد کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بے شمار نئی ڈانس کمپنیاں قائم ہو چکی ہیں۔ عارفین اقبال مستقبل میں اِس رحجان میں مزید اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

شادی

‘اب لوگ شادی اور مہندی کو ملا کر ایک فنکشن ‘شیندی’ کرتے ہیں جس میں بھی ڈانس شامل ہوتا ہے۔ اور تو اور برائیڈل شاور میں بھی تھیم پرفارمنسز ہوتی ہیں۔ تو شادیوں میں ڈانس کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے جس کے ساتھ ساتھ یہ بزنس بھی بڑھ رہا ہے۔’

جیب پر کتنا بھاری؟

عارفین اقبال کہتے ہیں کہ شادی کی تقریبات کے لیے کوریوگرافر کی خدمات حاصل کرنے کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا علاقے سے نہیں ہے۔ اُن کے بقول مارکیٹ میں ہر نوعیت اور ہر پرائس رینج کی سروسز موجود ہیں۔

‘میرے نزدیک ویڈنگ کوریوگرافرز کی خدمات ہر اُس شخص کے لیے دستیاب ہیں جو اپنی تقریب کو خوبصورت اور منفرد بنانا چاہتا ہے۔ میں یہ سمجھ کر کام نہیں کرتا کہ یہ صرف ایک شادی ہے۔ میں یہ سوچ کر کام کرتا ہوں کہ یہ کسی کی زندگی کا سب سے بڑا دن ہے اور مجھے یہ دن اُس کے لیے یادگار بنانا ہے۔’