منتخب تحریریں

عثمان بزدار کا کلہ مضبوط

Share

عثمان بزدار کی ’’فراغت‘‘‘ کی کہانیاں کئی مہینوں سے سن رہا ہوں۔اخباروں میں لکھے اور ٹی وی سکرینوں پر اس ضمن میں بہت اعتماد سے کئے دعوے ٹھنڈے دل سے سنے ہیں۔’’مقتدر حلقوں‘‘ اور بنی گالہ تک یکساں طورپر مؤثر رسائی رکھنے والے کئی نامور صحافیوں سے اس ضمن میں نجی ملاقاتوں کی بدولت ’’تفصیلی وجوہات‘‘ سے آگہی کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ ’’دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘ والی کیفیت مگر دل ودماغ پرحاوی رہی۔

بزدار صاحب سے تعارف کی سعادت بھی نصیب نہیں ہوئی۔غالباََ وہ مجھ ’’دوٹکے کے رپورٹر‘‘ کے نام سے بھی آشنا نہیں ہوں گے۔اس کے باوجود کئی بار جی مچلا کہ ان کا ’’کلہ مضبوط‘‘ ہونے کی بڑھک لگادی جائے۔میڈیا کے ذریعے گزشتہ برس کے موسم گرما میں یہ اطلاع ملی تھی کہ انہوں نے چند بااثر تصور ہوتے ہوئے صحافیوں کو آم کی پیٹیاں تحفے میں بھیجی ہیں۔ارادہ باندھا تھا کہ اب کے برس موسم بہار کے اختتامی ایام میں بزدار صاحب کا ’’کلہ‘‘ مضبوط ہونے کے بارے میں تواتر سے کالم لکھوں گا۔اس کی بدولت بزدار صاحب کو شاید میرے بارے میں ’’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں…‘‘والی خبرمل جائے۔مناسب وقت کا انتظار کرتے ہوئے دیگر موضوعات کی بابت لکھتا رہا۔بزدار صاحب کے بارے میں گزشتہ ایک ماہ سے ایک بار پھر گرم ہوئی افواہوں میں اپنا حصہ ہرگز نہیں ڈالا۔

عمران خان صاحب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔اتوار کے دن وہ لاہور گئے اور واضح الفاظ میں بزدار صاحب کا کلہ مضبوط ہونے کا اعلان کردیا۔یہ بھی انکشاف فرمایا کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف سازشیں’’کہاں‘‘ ہورہی ہیں۔ ’’سازشیوں‘‘ کی نشان دہی کا مگر تردد نہیں کیا۔اپنی جماعت کے ایم این ایز اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو البتہ بدعنوان سیاستدانوں پر مشتمل ان ’’مافیاز‘‘ کی یادضرور دلائی جو وزیر اعظم کی نگاہ میں اب احتساب کے شکنجے میں جکڑے جاچکے ہیں۔ خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے ’’چور اور لٹیرے‘‘ اپنی بقاء کی خاطر خان صاحب کی حکومت کو فا رغ کروانا چاہ رہے ہیں۔وفاقی حکومت پر براہِ راست حملہ کرنے کی جرأت مگر ان میں نہیں۔

حال ہی میں بلکہ وفاقی حکومت کو ایک ’’انتہائی حساس‘‘ معاملے پر سپریم کورٹ کے آصف سعید کھوسہ صاحب کے حکم پر عجلت میں ایک قانون تیار کرناپڑا۔یہ قانون ریکارڈ عجلت کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینٹ سے مذکورہ قانون کے مسودے میں فل سٹاپ اور کوماتبدیل کئے بغیر بے پناہ اکثریت سے منظور ہوگیا۔’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا ورد کرتے کئی لوگوں نے اس قانون کا مسودہ پڑھے بغیر ہی اس کی ’’غیر مشروط حمایت‘‘ کا اعلان کردیا تھا۔پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری حمایت کے اس اعلان کے بعد ہکابکا رہ گئے۔انپے تئیں دکھاوے کے لئے پارلیمان کی ’’لاج‘‘ رکھنے کے نام پر چند ہومیوپیتھک ترامیم متعارف کروانے کی کوشش کی۔ آخری لمحات میں مگر ان کے والد گرامی کا فون آگیا۔بندگی دکھانے کو مجبور ہوگئے۔

جب وہ قانون پاس ہوا تو وزیر اعظم قومی اسمبلی میں موجودگی کے باوجود ایک لمحہ کو اپنی نشست سے اُٹھ کر اپوزیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کرنے کے لئے دو بول بولنے کو بھی آمادہ دکھائی نہ دئیے۔ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو بے پناہ اکثریت حاصل ہے۔ اس ایوان سے مذکورہ قانون کو منظور کروانے کے لئے وزیر اعظم صاحب نے ایک لمحے کو سینٹ میں آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔

’’پرانے‘‘ پاکستان کی پارلیمانی روایات کا عادی میرا ذہن ان کی اس ضمن میں دکھائی ’’رعونت‘‘ کے بارے میں حیران رہ گیا۔ اپنی حیرانی کا اظہار اس کالم میں بھی کیا۔واقعہ گزرگیا تو کئی دن بعد ٹھنڈے دل سے سوچتے ہوئے خیال آیا کہ خان صاحب اس اپوزیشن کا شکریہ ادا کرنے کی زحمت کیوں اٹھاتے جس کے پلے سیاسی اعتبار سے کچھ بھی نہیں۔اس کے ’’پاٹے خان‘‘تصور ہوتے کئی رہ نماقومی اسمبلی میں فقط محض حاضری لگانے آتے ہیں۔ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ لیتے ہیں۔حکمران اشرافیہ کے طاقت ور لوگوں سے رات کے اندھیرے میں ملاقاتیں کرتے ہوئے جیل میں بند ہوئے رہ نمائوں کے لئے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی درخواست کرتے ہیں۔محترمہ مریم نواز صاحبہ کی لندن رخصت کے راستے بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ایسی تھکی ہاری اپوزیشن کی عمران خان صاحب نازبرداری کیوں کریں؟ مجھے ان کے اندازِ سیاست اور حکمرانی سے مستقلاََ اختلاف رہا ہے۔ہزاروں تحفظات کے باوجود مگر ٹھوس حقائق کا منطقی ذہن سے جائزہ یہ اعتراف کرنے کو مجبور کرتا ہے کہ اپنی جماعت کی Baseمیں وہ اب بھی مقبول ہیں۔وہ دورِ حاضر کے ’’ظفر اللہ جمالی‘‘ نہیں بنائے جاسکتے۔ میرے کئی معتبر ساتھی یہ طے کرچکے ہیں کہ ’’مقتدر‘‘ حلقے ان سے تھوڑا مایوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔اپنے گھر تک محدود ہوا میں اس مبینہ ’’مایوسی‘‘ کی تصدیق یا تردید کے قابل نہیں۔ ’’مایوسی‘‘ کہیں ہے بھی تو اس حوالے سے بھی عمران خان صاحب مئی 1988کے محمد خان جونیجو مرحوم سے زیادہ ’’تگڑے‘‘ دکھائی دے رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے ان کی تیسری ملاقات محض ڈیڑھ سال کے دوران ہوچکی ہے۔ٹرمپ عمران خان صاحب کو برملا اپنا ’’دوست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کی امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں مقبولیت سے متاثر ہیں۔اپنے دوست کی معاونت کے لئے وہ کشمیر کے ضمن میں ثالث کا کردار بھی ادا کرنا چاہ رہے ہیں۔نریندرمودی اگرچہ Hard to Getوالا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

اس سال نومبر میں ڈونلڈٹرمپ کو وائٹ ہائوس میں مزید چار سال گزارنے کے لئے انتخاب جیتناہوگا۔اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے وہ افغانستان سے امریکی افواج کی ’’باعزت‘‘ واپسی چاہتا ہے۔یہ واپسی محض اسی صورت ممکن ہوسکتی ہے اگر پاکستان میں سیاسی استحکام برقرار رہے۔ایک ’’پیج‘‘ پر ہونے کا گماں باقی رہے۔

خان صاحب کو جبلی اعتبار سے بخوبی علم ہے کہ اگر پنجاب سے بزدار صاحب ’’سازشیوں‘‘ کا نشانہ بن کر فارغ ہوئے تو وفاق میں بھی چل چلائوکی داستانیں شروع ہوجائیں گی۔عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر بٹھائے رکھنا لہذا ضروری ہے۔ بچپن میں سنی داستانوں کو یاد کریں۔ ان داستانوں میں ایک جن بھی ہوتا تھا جس کی جان کسی طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ داستان کا ہیرو جن کے ساتھ براہِ راست جھگڑے کے بجائے اس طوطے کو ڈھونڈتا تھا۔ اس کا گلاگھونٹ کر جن کو بے اثر بنادیتا تھا۔ عمران حکومت کے لئے عثمان بزدار ان دنوں ویسے ہی طوطے جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔عمران خان کے حقیقی چاہنے والوں کو بلکہ ان کے لئے ’’نت خیر منگا سوہنیاں میں تیری-دُعا نہ کوئی ہور منگدی‘‘ والا رویہ اختیار کرنا چا ہیے۔

بزدار صاحب کے خلاف متحرک ہوئے ’’سازشیوں‘‘ کا شکوہ ہے کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ان دنوں ’’گڈگورننس‘‘کاشدید فقدان ہے۔میرا وسیم بادامی والا معصومانہ سوال یہ ہے کہ وہ ’’گڈگورننس‘‘ جس کے فقدان کی دہائی مچارہی ہے کب موجود تھی۔شہباز صاحب نے ’’خدمت‘‘ کے ذریعے یہ بہم پہنچائی ہوتی تو تحریک انصاف کی 2018میں حکومت بنانے کی گنجائش ہی نہ نکل پاتی۔تحریک انصاف نے تواتر سے شہباز صاحب کو ’’شوباز‘‘ پکارا اور خود کو ان کا مؤثر ومثبت متبادل بناکر پیش کیا۔شہباز صاحب ’’خدمت‘‘ پر لیکن ڈٹے رہے۔جولائی 2018کے عام انتخاب سے چند ہی روز قبل اپنے بڑے بھائی کو لاہور ائرپورٹ پر ملنے کو بھی نہ پہنچ پائے۔نواز شریف گرفتار ہوگئے۔ بعدازاں احتساب عدالت سے لمبی سزا پائی۔ شہباز صاحب کو ان کی گرتی صحت کی وجہ سے خطرے میں آئی زندگی کو بچانے کے لئے ہزاروں جتن کرنا پڑے۔ محض ’’سیاسی جدوجہد‘‘ اس ضمن میں کسی کام نہیں آئی۔ان دنوں وہ لندن میں مقیم ہیں۔عثمان بزدار کے لئے میدان لہذا خالی ہے۔ان کے خلاف تحریک انصاف ہی کی صفوں میں موجود چند’’سازشی‘‘ چہ مہ گوئیوں میں مصروف ہیں۔نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے پاس انہیں ہٹانے کی کوئی گیم ہی نظر نہیں آرہی۔خواہش سے مغلوب ہوکر چودھری پرویز الٰہی کی جانب دیکھا جارہا ہے۔

بہت عرصے کے بعد خوش فہم لوگوں کو مگر یہ ادراک ہوا کہ عمران خان اور تحریک انصا ف چودھری پرویز الٰہی کی صورت اپنے لئے ایک ’’منظور وٹو‘‘ نہیں ڈھونڈ رہے۔’’انقلاب‘‘ کی منتظرچند نگاہوں نے لہذا چودھری نثار علی خان کی جانب دیکھنا شروع کردیا۔ چودھری نثار صاحب نے لیکن ابھی تک پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی نہیں اٹھایا ہے۔وہ اپنی ’’آزاد‘‘ حیثیت برقرار رکھنے پر بھی مصر ہیں۔عمران خان صاحب ان کے سرپر ہما کیوں بٹھائیں؟

پاکستان کی ’’گوٹ ‘‘ آپ سے دست بستہ عرض کررہا ہوں کہیں اور ’’پھنسی‘‘ ہوئی ہے۔اصل گیم کو سمجھنا ہے تو بزدار صاحب کے مستقبل کے بارے میں زائچہ فروشی کو نظرانداز کریں۔FATFپر نگاہ رکھیں۔زلمے خلیل زاد کی آنیوں جانیوں پر توجہ دیں اور یہ حقیقت ہرگز فراموش نہ کریں کہ IMFکا تیار کردہ نسخہ ہمیں ستمبر2022تک استعمال کرنا ہے۔اس نسخے کے تحت بزدار صاحب کی جگہ کوئی ’’دیدہ ور‘‘نمودار ہو بھی گیا تو ہمارے بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ بدستور جاری رہے گا۔کاروبار میں کسادبازاری اور ’’دل کی وہی ‘‘ تنہائی جاری رہے گی۔