Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان تحریکِ انصاف کو درپیش اندرونی خطرات: ’حالات قابو میں ہیں یا کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے؟’

Share

پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو ملک کے کم از کم دو صوبوں میں اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور باقی دو صوبوں میں کہیں اس کے اتحادی ناخوش ہیں اور کہیں آپس ہی میں اختلافات موجود ہیں۔

ان حالات میں پاکستان تحریکِ انصاف ایک طرف اختلافات دور کرنے کے لیے کمیٹیاں قائم کر رہی تو دوسری طرف اس نے ’سازش کرنے والے وزرا کو برطرف کر دیا ہے۔‘

صوبہ خیبرپختونخوا میں تین سینیئر وزرا عاطف خان، شہراہم ترکئی اور شکیل خان کے قریب سمجھے جانے والے اراکینِ اسمبلی کو بھی ’پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر شو کاز نوٹس‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

صوبہ بلوچستان میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بڑوں میں اختلافات سامنے آنے کے بعد ان کے حل کے لیے کمیٹیاں قائم کرنی پڑیں۔

صوبہ پنجاب میں وزیرِاعظم عمران خان کو خود لاہور آنا پڑا۔ حالیہ دورے پر انھوں نے سختی سے اس تاثر کی نفی کرنے کی کوشش کی ہے کہ وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ 20 کے لگ بھگ پاکستان تحریکِ انصاف کے ’ناراض‘ اراکینِ اسمبلی نے حال ہی میں کھل کر حکومتِ پنجاب سے شکایات کا اظہار کیا تھا۔

انھیں شکوہ تھا کہ ان کے حلقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے اور وزیرِاعلٰی پنجاب اس حوالے سے ان کی مدد نہیں کر رہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے وزیرِ اعلٰی پنجاب کو ان اراکینِ اسمبلی اور بیوروکریسی کے درمیان معاملات کو حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ان اقدامات کے بعد حکمراں جماعت کا دعوٰی ہے کہ ‘حالات معمول پر آ چکے ہیں اور سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔‘ تاہم کیا واقعی ایسا ہے یا پھر بظاہر پر سکون نظر آنے والے حالات طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے؟

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ’شکایات اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ ایک وقتی خاموشی ہو سکتی ہے۔‘

’پنجاب میں مسائل تو حل نہیں ہوئے‘

عمران خان کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر مکمل اعتماد ہے

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا استدلال ہے کہ ‘شکایت تو دراصل لوگوں کو یہ ہے کہ حکومتی انتظام ٹھیک نہیں ہو رہا، ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہو رہا، اراکین کے کام نہیں ہو رہے اور نئی کوئی پالیسی نہیں آ رہی۔ ان مسائل کا تو کوئی حل نہیں نکلا ابھی تک۔’

ان کے مطابق ابتدا میں وزیرِاعظم عمران خان نے سیاستدانوں کو اختیارات دیے، وہ ڈلیور نہیں کر پائے۔ اس کے بعد عمران خان نے خود چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو بااختیار بنا کر بھیجا، تو وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کے ساتھ جو سیاسی لوگ ہیں ان میں احساسِ محرومی پیدا ہو گیا۔

’اس احساسِ محرومی کے بدلے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے گروپ بنایا تھا۔‘

’وزیرِاعظم نے پیغام دیا ہے کہ وہ ردِ عمل ظاہر کریں گے‘

اس پس منظر میں سہیل وڑائچ کے خیال میں وقتی طور پر وزیرِاعظم عمران خان نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بلیک میل نہیں ہوں گے۔ انھوں نے اپنے اتحادیوں کو بھی پیغام دیا کہ ’ہم بہت مضبوط ہیں۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق ان کے لاہور کے دورے کا سب سے اہم جزو یہ ہے کہ انھوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ ردِ عمل ظاہر کریں گے۔

ان کے خیال میں وزیرِاعظم عمران خان کو خود بھی یہ پتہ چل چکا ہے کہ وزیرِاعلٰی پنجاب میں صلاحیت نہیں ہے۔

‘وہ چاہتے ہیں کہ چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کارکردگی دکھائیں لیکن سیاسی ملکیت وہ کسی اور کے حوالے نہیں کرنا چاہتے، انھیں عثمان بزدار پر زیادہ اعتماد ہے۔‘

’وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بلیک میل نہیں ہوں گے‘

تاہم سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان کے لیے یہ وقت کارکردگی دکھانے کا ہے۔ اب کوئی اور عذر نہیں چل سکتا، مخالفوں کا یا احتساب کا۔ انھیں اس تاثر کے خلاف بھی لڑنا ہو گا کہ وہ کارکردگی نہیں دکھا پا رہے۔

’اس کے لیے انھیں پنجاب میں اچھا انتظام، پالیسیاں اور حکمرانی چاہیے، جو ابھی تک سامنے نہیں آئیں۔‘

’یوں لگتا ہے کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے‘

صحافی اور تجزیہ نگار فرح ضیا کہ مطابق ’ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فوری نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جا رہے تاہم مسائل وہیں کے وہیں موجود ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم عمران خان جس کے پیچھے کھڑے ہیں ان کی اس وقت پوزیشن کافی کمزور ہے۔

’عمران خان کے علاوہ وہ کسی اور کو مطمئن نہیں کر پائے کہ انھوں نے اگے آ کر خود کو منوایا ہے۔ کئی دفعہ تو آپ اخبار پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی حقیقی وزیرِ اعلٰی ہیں۔‘

فرح ضیا کے خیال میں ق لیگ کا کردار پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے میں اہم تھا اور آئندہ بھی ہو گا۔ ’ان کو مطمئن کرنا آسان نہیں ہو گا، مگر یہ ضروری بھی ہے۔‘

’خیبر پختونخوا میں سیاسی چال چلی جا رہی ہے‘

خیبر پختونخوا میں تین انتہائی اہم وزراء کو وزارت سے برطرف کرنے کے بعد ان اراکینِ اسمبلی کو شو کاز نوٹسز جاری کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ان کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔

یہ اراکین چند روز قبل پشاور کے حیات آباد کے علاقے میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شریک تھے۔ پاکستان تحریک انصاف ذرائع کا کہنا ہے کہ آٹھ سے نو اراکین ایسے ہیں جو ان تین برطرف وزراء کے حامی ہیں۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے پیر کو اپنی جماعت کے تمام اراکین کو عشائیے پر مدعو کیا جس میں وزرا کی برطرفی کے حوالے سے انھیں اعتماد میں لیا گیا۔

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعظم عمران خان کی طرف سے سوچ سمجھ کر ایک سیاسی چال چلی گئی ہے۔

‘انھوں نے تین وزیروں کو برطرف کر دیا جو کہ سیاسی طور پر ایک کافی دلیرانہ قدم تھا۔ یہ وزیر کافی تگڑے تھے، ان میں سے ایک کو وہ خود وزیرِ اعلٰی بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح انھوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ جو کوئی بھی مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کرے گا تو میں اس کا ردِ عمل دوں گا۔‘

وزرا کو کیوں برطرف کیا گیا؟

وزیر اعلی کی جانب سے صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے تین وزراء کو برطرف کرنے کی وجوہات بیان کی ہیں۔

ان کے مطابق ‘عاطف خان نے محمود خان کو کبھی وزیر اعلی نہیں سمجھا اور مسلسل حکومت کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ یہ تینوں اراکین محمود خان کی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔’

دوسری جانب برطرف وزراء کی جانب سے اب تک کوئی باقاعدہ رد عمل نہیں آیا ہے ۔ عاطف خان کا موبائل نمبر مسلسل بند آ رہا ہے جبکہ شہرام ترکئی کا کہنا ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کو ان وزرا سے کیا خطرہ ہو سکتا تھا؟

شہرام ترکئی صوابی کی سطح پر اپنی ہی سیاسی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے بعد اپنی جماعت کو اس میں ضم کر دیا تھا۔ سابقہ عوامی جمہوری اتحاد کے ایک رکن قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلی میں ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قدر چھوٹی تعداد سے حکمران جماعت کو صوبے یا وفاق کی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا تھا۔

دوسرا بڑا نام عاطف خان کا ہے۔ وہ موجودہ صوبائی حکومت میں وزارتِ اعلی کے امیدوار تھے تاہم اس میں ناکام ہوئے۔ عاطف خان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ سابق دورِ حکومت میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے کافی کام کیا۔

تجزیہ نگار اس جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں سیاسی طلاطم میں وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ صوبے کے وزیرِاعلٰی بننا چاہتے تھے اور عاطف خان کے وزیرِاعلٰی نہ بننے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔

بلوچستان میں مسئلہ کیا ہے؟

سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلٰی جام کمال کے درمیان اختلافات کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں

سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلٰی جام کمال کے درمیان اختلافات کا معاملہ سنگین ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسلام آباد پہنچ گیا ہے جہاں اختلافات دور کرنے کے لیے دو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔

ایک کمیٹی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے بعض اراکین پر جبکہ دوسری بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیئر رہنماؤں پر مشتمل ہوگی۔

اسلام آباد میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی سپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کے ساتھ ان اختلافات پر بات چیت ہوئی۔

اس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے صادق سنجرانی نے بتایا کہ ‘سپیکر اور وزیرِاعلٰی میں تمام اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور جام کمال بدستور وزیرِاعلٰی رہیں گے۔’

یاد رہے کہ اس ملاقات سے قبل سپیکر قدوس بزنجو نے کہا تھا کہ ’بلوچستان میں اب تک جتنی حکومتیں آئی ہیں، جام کمال کی موجودہ حکومت ان کے مقابلے میں بدترین ہے۔ وزیر اعلٰی جام کمال نہ بلوچستان عوامی پارٹی کو چلا سکے اور نہ ہی حکومت کو۔‘

تحریکِ انصاف کا اس میں کیا مفاد ہے؟

یاد رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت ہے جبکہ پی ٹی آئی بلوچستان اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت اور صوبائی حکومت میں بی اے پی کی اتحادی ہے۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ چیئرمین سینٹ اور تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرے گی جن کا اظہار سپیکر بلوچستان اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر سردار سرفراز چاکر ڈومکی وزیر اعلی جام کمال سے کر چکے ہیں۔

دوسری طرف بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیئر رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی اراکین بلوچستان اسمبلی سے فرداً فرداً ملاقات کرے گی اور ان کے صوبائی حکومت سے جو تحفظات ہیں ان کو سننے کے علاوہ ان کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔

Exit mobile version