چین میں کورونا وائرس سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 81 ہو گئی ہے اور اب تک کم از کم تین ہزار افراد میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ چین کے ہوبائی صوبے کا دارالحکومت ووہان کورونا وائرس کا مرکز ہے۔
تاہم چین میں مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں کا بی بی سی سے گفتگو میں کہنا ہے کہ وہ حفاظت کے پیشِ نظر صحت اور سفر کے حوالے سے بالعموم انھی ہدایات کے پابند ہیں جو وہاں تمام عوام اور طلبا کے لیے ہیں البتہ کچھ مسائل کا انھیں خصوصی طور پر سامنا ہے۔
کورونا وائرس: کیا چین میں مقیم پاکستانی طلبا پاکستان واپس آرہے ہیں؟
پاکستانی طلبا نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی یونیورسٹیز میں نئے سال کے موقعے پر یوں بھی تعطیلات تھیں اور وہ سرما کی چھٹیوں کے لیے پاکستان آ نے کا سوچ رہے تھے۔
وائرس کی وبا سامنے آنے کے بعد ان کا یہ ارادہ اور بھی پختہ ہوا لیکن اب سفر اتنا آسان ثابت نہیں ہو رہا۔
بیجنگ میں کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا کے طالب علم جمال افضل کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان کے لیے ٹکٹ بک کروا لی ہے لیکن انھیں خدشہ ہے کہ ان کی فلائٹ کینسل نہ ہو جائے۔ ان کے مطابق پاکستان کے لیے قومی ائر لائن پی آئی اے کچھ پروازیں بھی منسوخ ہوئی ہیں جبکہ اس وقت دستیاب پروازوں کی ٹکٹ بہت مہنگی ہے۔
متاثرہ شہر ووہان میں موجود ایک طالبہ فرح( فرضی نام) ڈگری مکمل ہونے پر اب پاکستان جا رہی تھیں لیکن 29 جنوری تاریخ کے لیے ان کی فلائٹ کینسل کی جا چکی ہے۔ فرح نےالبتہ یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت کسی بھی طرح پاکستان کے سفر کو محفوظ تصور نہیں کرتیں۔
‘مجھے علم نہیں ہے۔۔ اس وائرس کی تشخیص میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔۔۔ تو مجھے علم نہیں ہے کہ میں خدانخواستہ اس وقت وائرس سے متاثرہ ہو سکتی ہوں یا مشتبہ طور پر اسے اپنے ساتھ پاکستان لے جاسکتی ہوں۔۔ ایسی صورت میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گی۔‘
فرح کا مزید کہنا تھا کہ چین میں وہ خود کو اس لحاظ سے زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں کہ یہاں علامات ظاہر ہونے کی صورت میں سرکاری سطح پر تشخیص اور طبی امداد کے لیے تیاری کی گئی ہے جبکہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ان کے مطابق ائیر پورٹ پرصرف تھرما میٹر سے بخار چیک کیا جا رہا ہے جو انتہائی ناکافی ہے۔
تحریم عظیم بیجنگ میں کمیونیکیشن یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، انھوں نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں پڑھائی کا نیا سال کچھ دیر سے شروع کرنے کے اعلان کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دوسرے ممالک کے طلبا سے کہا گیا ہے کہ وہ چھٹیاں بڑھنے کے بعد اپنے ملکوں میں ہی موجود رہیں۔ تحریم کے مطابق ان کی یونیورسٹی میں سے زیادہ تر پاکستانی طلبا پاکستان جا چکے ہیں جبکہ چھ سات یہاں موجود ہیں اور واپسی کا ہی سوچ رہے ہیں۔
کیا طلبا کا سفری ریکارڈ چیک کیا جا رہا ہے؟
پاکستانی طلبا کا کہنا ہے کہ اس وقت سفری شرائط ان کے لیے بھی وہی ہیں جو باقی طلبا کے لیے ہیں۔ بیجنگ میں داخلہ اور شہر سے نکلنے پر پابندی ہے۔ جبکہ یوینورسٹی کی جانب سے فارمز میں تفصیل پوچھی جا رہی ہے کہ گزشتہ پندرہ دن کے اندر کہاں سفر کیا اور ووہان کا سفر کیا یا نہیں۔
تحریم عظیم کا کہنا ہے کہ ان کی یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبا کے لیے دو ہاسٹلز ہیں۔ ان کے کچھ پاکستانی ساتھی دوسرے ہاسٹل میں ہیں لیکن انھیں وہاں جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ اور سب کو اپنے ہی ہاسٹل میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ کسی بھی مہمان کی آمد پر بھی پابندی ہے۔
کیا پاکستانی سفارت خانہ طالب علموں سے رابطے میں ہے؟
طلبا کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایمبیسی کی جانب سے پاکستانیوں کو یہی تجویز دی گئی ہے کہ وہ چینی حکومت کے ہدایت نامہ پر عمل کریں اور ان سے تعاون کریں۔
اس کے علاوہ ووہان میں طالب علموں کے لیے سفارت خانے کی ویب سائیٹ پر رجسٹریشن کے لیے کہا گیا ہے اور بہت سے طلبا نے ایسا کیا ہے۔
تحریم کا البتہ کہنا ہے کہ طالب علموں کو ماضی میں ایمبیسی کے روئیے کے بعد ان سے توقعات کم ہیں۔
ان کے مطابق ایمبیسی کی مسجد میں بہت سے پاکستانی نماز کے لیے جاتے رہے ہیں جس پر اب پابندی ہے۔ صرف ایمبیسی کے اندر کے لوگ ہی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں۔
طالب علم جمال افضل نے تصدیق کی کہ وہ جمعے کی نماز مسجد میں ادا نہیں کر سکے۔
طالبہ تحریم نے اپنے فیس بک سٹیٹس میں چینی حکام کے متعلق لکھا ہے کہ ‘یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ وائرس پر بھی قابو پا لیں گے۔’
‘کورونا سے زیادہ فیک نیوز پھیلی ہوئی ہیں’
چین میں مقیم پاکستانی طلبا ایک دوسرے سے سوشل میڈیا پر رابطے میں ہیں۔ ان گروپس پر وہ ایک دوسرے کی خبر رکھ رہے ہیں لیکن کچھ طلبا کا کہنا ہے کہ یہاں فیک نیوز بھی پھیلائی جا رہی ہیں جس کے بعد طلبا کی پریشانی غیر ضروری طور پر بڑھی ہے۔
کیمپسز میں خوراک نہ ملنے کی خبر کے حوالے سے ووہان میں پڑھنے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ یونیورسٹی کے قریب ہی کھانا پینا دستیاب ہے، والمارٹ جیسے سٹورز بھی کھلے ہیں جبکہ حکومت نے بھی کھانے کے پیکٹ طالب علموں کے لیے بھیجے ہیں۔
تحریم کا کہنا ہے کہ نئے سال کی تعطیلات کے باعث ویسے بھی بیجنگ میں ان دنوں میں زیادہ تر کاروباری مراکز بند ہوتے ہیں، تو کھانے پینے کا سامان انھوں نے جمع کر رکھا تھا اور پاکستانی طلبا ویسے بھی بہت سا راشن پاکستان سے ساتھ ہی لے آتے ہیں۔
طلبا کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ محدود مالی وسائل کے پیش نظرماسک اور بنیادی نوعیت کی ادویات بھی پاکستان سے ساتھ ہی لائے ہیں جن میں سے ماسک خاص طور پر اب ان کے کام آرہا ہے۔
پاکستانی طلبا کا کہنا ہے کہ وائرس کی خبر کے بعد پاکستان میں ان کے عزیز و اقارب کو تشویش ہوئی اور انہوں نے واپسی پر اصرار کیا لیکن وہ کسی حد تک انہیں تسلی دینے میں کامیاب رہے ہیں۔