’’میرے پاس تم ہو‘‘ بدستور زیر بحث
’’جنگ ‘‘ اخبار کے سینئر ترین رپورٹر صالح ظافر صاحب عمر میں مجھ سے کچھ بڑے ہیں۔1985میں جب ہمارے ملک میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ’’جمہوریت کی بحالی‘‘ کا سماں باندھا گیا تو ہم دونوں رات گئے تک خبروں کی تلاش میں خجل خوار ہوا کرتے تھے۔ ’’بازی لے جانے‘‘ کامجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ہم دونوں کے مابین مگر اکثر ’’اصل خبر‘‘ ڈھونڈنے کے معرکے برپا ہوجاتے۔ہمارے تعلقات میں تلخی بھی آئی۔ بالآخر دونوں نے طے کرلیا کہ ایک ہی تالاب میں رہنا ہے۔بھائی چارہ ہم دونوں کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔
ظافر اس کالم کے باقاعدہ قاری ہیں۔اکثر اسے پڑھ کر اپنی رائے سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔پیر کی صبح جو کالم چھپا اس سے مگر بہت مایوس ہوئے۔ان کی مایوسی کا ادراک مجھے پیر کی سہ پہر سینٹ کا اجلاس دیکھتے ہوئے پارلیمان کے پریس لائونج میں بیٹھے ہوا۔ وہ اپنے مخصوص خراماں خراماں انداز میں چلتے ہوئے وہاں تشریف لائے تو سیدھا اس صوفے کی طرف لپکے جو عموماََ میرے قبضے میں ہوتا ہے۔وہاں بیٹھتے ہی انہوں نے میری ’’مذمت‘‘ کے ارادے کا اظہار کیا۔بعدازاں نہایت سنجیدگی اور خلوص سے مجھے سمجھانا چاہا کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ جیسے ڈراموں کے بارے میں تبصرہ آرائی کرتے ہوئے میں نے اپنے قارئین کی خواہشات کو نظرانداز کردیا۔ظافر صاحب کا اصرار تھا کہ میرے قاری مجھ سے ’’سنجیدہ‘‘ معاملات پر تبصرہ آرائی کی توقع رکھتے ہیں۔’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی بابت لکھتے ہوئے میں اپنے نام نہاد ’’مقام‘‘ سے گرتا ہوا نظر آیا۔ایک ’’فضول‘‘ موضوع پر لکھتے ہوئے ڈنگ ٹپانے کی کوشش کی۔ظافر بھائی کے خلوص کی شدت کو دیکھتے ہوئے مجھے پھکڑپن کاحوصلہ بھی نہ ہوا۔ظافر صاحب کو یہ بتانے کی توفیق نہیں ہوئی کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے بارے میں لکھا کالم جب سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو اسے قارئین کی ایک بھاری بھر کم تعداد نے Shareاور Likeکیا۔اس کی بے تحاشہ پذیرائی ہوئی۔آج کی صحافت Clicksکی غلام ہے۔ Sharesاور Likesکالم نگاروں کے مقدر کو بگاڑتے اور سنوارتے ہیں۔ٹویٹر اور فیس بک کے علاوہ مجھے اس کالم کا بے پناہ Feed Backان پیغامات کے ذریعے بھی ملاجو ای میل کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔میرے ای میل اکائونٹ پر جو پیغامات موصول ہوئے ان میں سے ایک صا حب نے انتہائی دُکھ سے یہ گلہ بھی کیا کہ میں نے مذکورہ ڈرامے کے مصنف کے بارے میں ’’چلتر‘‘ کے الفاظ استعمال کئے۔انہیں ’’پراپرٹی ڈیلر‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ ’’حقیقت‘‘ فراموش کرگیا کہ موصوف بہرحال ایک ’’ادیب‘‘ ہیں اور ’’ادب تخلیق‘‘ کرنے والے ادب کے مستحق ہوتے ہیں۔یہ پیغام پڑھتے ہوئے مجھے نجانے کیوں ’’مولاجٹ‘‘ نامی فلم یاد آگئی۔ 1980کی دہائی میں اس نے ریکارڈ توڑ رش لیا تھا۔ اس فلم کے ’’نواں آیاں ایں سوہنیاں‘‘ جیسے مکالمے روزمرہّ کا حصہ بن گئے۔ اس فلم کی شہرت نے مجھے بھی سینما جاکر اسے دیکھنے کو مجبور کیا تھا۔اس فلم کے مصنف کا نام ناصر ادیب تھا۔ یہ فلم ہٹ ہونے سے کئی برس قبل میںان سے لاہور کے لکشمی چوک کے چائے خانوں میں ملاکرتا تھا۔غالباََ پہلی ہی ملاقات میں تعارف ہونے کے بعد فوراََ انہیں کہا کہ آپ کے والدین نے یقینا آپ کے نام کے ساتھ ’’ادیب‘‘ نہیں لگایا ہوگا۔ یہ لاحقہ آپ کی لگائی اضافت محسوس ہوتی ہے۔شاید آپ خود کو ’’ادیب‘‘ ہونے کا یقین دلانا چاہ رہے ہیں۔میرے پھکڑپن نے اگرچہ ان کی مقبولیت کی راہ نہ روکی۔ مسلسل کئی کامیاب فلمیں لکھتے ہوئے مشہور ہوتے چلے گئے۔ عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے مصنف کی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی کلپ دیکھتے ہوئے موصوف کی وگ اور اندازِ گفتگو نے مجھے ناصر ادیب صاحب کی یاددلادی۔ایک سابقہ ڈرامہ نگار ہوتے ہوئے پیر کے روز چھپے کالم میں اس گماںکا اظہار کیا تھا کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی کھڑکی توڑ کامیابی کے بعد اس کا Sequelتیار کرنے کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔سوشل میڈیا کی ایک سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے مصنف اس کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔خود کو سابقہ ’’ڈرامہ نگار‘‘ لکھتے ہوئے اب خوف آتا ہے۔میری بدنصیبی کہ مجھ سے وہ کالم مس ہوگیا۔حامد میر اور فاروق اقدس کے ذریعے جو ملاقاتوں کے دوران میرا ’’توا لگانے‘‘ کو متحد ہوجاتے ہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ ہمارے ایک بہت ہی سینئر جناب مسعود اشعر صاحب نے متانت بھری خفگی سے یہ سوال اٹھایا کہ میں خود کو ’’ڈرامہ نگار‘‘ کیوں کہتا ہوں۔ ٹی وی ڈرامہ لکھنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا۔ ’’ڈرامہ نگار‘‘ تو چیخوف یا شیکسپیئر جیسے لوگ ہوتے ہیں جن کے لکھے ڈرامے محض دیکھے ہی نہیں جاتے ادب کے سنجیدہ طالب علموں کے لئے پڑھنا بھی ضروری ہوتے ہیں۔اشعر صاحب نے درست فرمایا تھا۔پیر کے روز چھپے کالم میں اگرچہ یاد دلایا تھا کہ ٹی وی پر سوپ اوپرا جیسے جو کھیل لکھے جاتے ہیں۔دانشور کی نظر میں وہ Kitchشمار ہوتے ہیں۔ میں نے اس کا ترجمہ ’’کچرا‘‘ کیا۔ اس ترجمے کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود کو سابقہ ’’ڈرامہ نگار‘‘ کے بجائے ’’کچرا فروش‘‘ لکھا کروں گا۔’’میرے پاس تم ہو‘‘ سے وابستہ ’’کچرا فروشی‘‘ نے لیکن مجھے متاثر وحیران اس لئے کیا کہ اس نے سوشل میڈیا پر ایک گرم جوش مباحثے کی بنیاد فراہم کی۔روشن خیال خواتین اس کیخلاف ڈٹ کرکھڑی ہوگئیں۔’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے مصنف کو عورتوں کی توہین کا مجرم قراردیا۔ مجھے مزید حیرانی یہ جان کر ہوئی کہ مبینہ طورپر عورتوں کی توہین کرنے والے اس ڈرامے کی آخری قسط کو راولپنڈی اور اسلام آباد کی کافی متمول اور پڑھی لکھی خواتین کی ایک مؤثر تعداد نے سینما میں جاکر دیکھا۔ٹی وی سکرینوں پر کوئی چیز چلے۔اس کے بارے میں گرم جوش مباحثے شروع ہوجائیں۔اس کی آخری قسط کو سینمائوں میں دکھانے کا اعلان ہو اور وہاں ہائوس فل ہوجائے تو مجھ جیسے روزانہ کی بنیاد پر کالم لکھنے والوں کو اس کی مقبولیت کا لکھ کر اعتراف کرنا چاہیے۔مقبولیت کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہوئے آپ کو مختلف سماجی سوالات کے بارے میں عمومی سوچ کا بھی تھوڑا اندازہ ہوجاتا ہے۔ظافر صاحب جیسے مخلص دوست مگر بضد ہیں کہ مجھ جیسے لوگ سیاست پر ہی لکھتے رہیں۔ ’’حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘ ۔ کئی دنوں سے لیکن صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں تو فوراََ ذہن میں ایسے موضوعات کی فہرست اُمڈ آتی ہے جن کے بارے میں میری جو ذاتی سوچ ہے اسے کھل کر بیان ہی نہیں کرسکتا۔’’سیف سیف‘‘ کھیلنا پڑتا ہے تاکہ اخبار والوں کو چھاپنے میں دشواری محسوس نہ ہو۔میرا رزق بھی چلتا رہے۔ملکی سیاست کے بارے میں جو بنیادی سوالات ہیںانہیں اٹھانے کی جرأت اور ہنر سے عرصہ ہواکم از کم مجھ جیسے بے ہنر لوگ محروم ہوچکے ہیں۔ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کو اُٹھاکر ڈنگ ٹپارہے ہیں۔’’سیاست‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دو ہفتوں سے تقریباََ ایک ہی سوال اُٹھ رہا تھا اور وہ یہ کہ عثمان بزدار صاحب کی ’’فراغت‘‘ کب ہورہی ہے۔میں اس’’فراغت‘‘ کا کبھی منتظر ہی نہیں تھا۔ اسی باعث دوسرے موضوعات کی جانب توجہ دیتا رہا۔بزدار صاحب اب بھی اپنی جگہ قائم ودائم ہیں۔خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے البتہ عاطف خان کو اپنی کابینہ سے فارغ کردیا ہے۔مردان سے اُٹھے یہ گھنے بالوں والے ’’ہیرو‘‘ دِکھتے عاطف خان صاحب کئی برسوں سے عمران خان صاحب کے قریب ترین افراد میں شمار ہوتے تھے۔اسلام آباد کے F-6/3سیکٹر کی ’’کوہسار‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی مارکیٹ میں جو چائے خانے ہیں وہاں ٹی وی سکرینوں پر رونمائی کے ذریعے حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والی قوت کے حامل اینکر خواتین وحضرات کی کثیر تعداد بھی موجود ہوتی ہے۔عاطف خان صاحب ان میں بھی بہت مقبول تھے۔عاطف خان صاحب کا ’’حتمی‘‘ جرم عمرچیمہ کی دی ہوئی ایک خبر کے مطابق ایک ’’ریٹائرڈ‘‘ افسر سے ملاقات تھی جو ان دنوں بہت Influentialشمار ہوتے ہیں۔عاطف خان صاحب کی مبینہ ملاقات کا بعدازاں ٹی وی سکرینوں پر بھی بہت چرچا ہوا۔ جس Influentialشخصیت سے وہ مبینہ طورپر ملے ان کا نام مگر کوئی لے نہ سکا۔عاطف خان کی فراغت سیاسی ا عتبار سے یقینا ایک اہم خبر ہے۔اس خبر کی ’’تفصیلات‘‘ بیان کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے جب میرے چندبہت ہی جی دار اور عوام میں بے پناہ مقبول رپورٹروں اور اینکروں میں ایک نام لینے کی ہمت بھی مفقودنظر آئے تو میں کس برتے پر فقط ’’سیاسی‘‘ موضوعات پر حقیقی معنوں میں ’’سب کچھ‘‘ بیان کرنے کا ناٹک رچائوں۔ مجھے اپنی دوکان چلانے کے لئے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ جیسے ڈرامے درکار ہیں۔ کالم بھی چھپ جاتا ہے اور اسے بے تحاشہ Likesاور Sharesبھی نصیب ہوجاتے ہیں۔