منتخب تحریریں

سازش اور سازشی؟

Share

وزیر اعظم عمران خان کا، اس اتوار کا دورۂ لاہور، وزیر اعلیٰ بزدار کے مستقبل کے حوالے سے افواہوں کے خاتمے کے ساتھ، کچھ نئی قیاس آرائیوں کو جنم دینے کا باعث بھی بن گیا۔ پنجاب سے پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم کا دوٹوک اعلان تھا کہ بزدار ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ وزیر اعظم، بزدار کو ”وسیم اکرم پلس‘‘ قرار دیتے رہے ہیں (ظاہر ہے، یہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف اور اعلان تھا۔ نومبر کے اواخر میں، صوبے میں چوتھی بار اعلیٰ سطحی انتظامی ردوبدل کا اعلان کرتے ہوئے جناب وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ بزدار کے انیشی ایٹوز کا جان کر بہت خوش ہوئے ہیں۔ (یہ انیشی ایٹوز جناب وزیر اعظم کو خود بزدار صاحب کی زبانی معلوم ہوئے تھے۔ یہ کاغذوں پر تھے ابھی زمین پر نہیں آئے تھے۔) وزیر اعلیٰ کے لیے ان کی نصیحت تھی کہ وہ ان انیشی ایٹوز کی کچھ پبلسٹی وغیرہ بھی کیا کریں۔
وزیر اعظم نے صوبے میں، نئے چیف سیکرٹری اور نئے آئی جی پولیس سمیت اوپر سے نیچے تک نئے انتظامی ڈھانچے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ بیوروکریسی کے بہترین افسر ہیں، جن کا انتخاب انہوں نے کئی ہفتوں کی مشاورت اور غوروخوض کے بعد کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی چُھپی نہ رہی کہ جناب وزیر اعظم نے (حکومتی) اختیارات چیف سیکرٹری صاحب کو سونپتے ہوئے انہی کو نتائج کی فراہمی کا ذمہ دار بھی قرار دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جناب وزیر اعلیٰ کی حیثیت محض ”نمائشی‘‘ ہو کر رہ گئی۔ پہلے بھی صوبے کے ”امورِ مملکت‘‘ کے حوالے سے ان کا معاملہ ”ناحق ہم مجبوروں پہ تہمت ہے مختاری کی/ چاہیں جو سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا‘‘ والا تھا‘ اور اب تو یہ پردہ بھی اٹھ گیا تھا۔ صوبے کے لاٹ صاحب کو ڈائریکٹوز بنی گالہ سے آتے، اور یہاں سے سمریاں بھی وہیں جاتیں۔
بیوروکریسی کو ”سیاسی اثرورسوخ سے آزاد ”کرنے‘‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی (اور اتحادیوں) کے وزرا اور ارکان اسمبلی ”رُل‘‘ گئے۔ یہاں تک کہ جناب گورنر بھی چیخ اٹھے: گورنر ہائوس سے کسی جائز کام کے لیے بھی فون چلا جائے، تو نہیں ہوتا جبکہ بیوروکریٹ کے کسی دوست یا کولیگ کے فون پر کام اسی وقت ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال گجرات کے چودھریوں (اور ان کی قاف لیگ) کے لیے بھی سخت پریشان کن تھی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں طارق بشیر چیمہ کی عدم شرکت اور ”ملک کے سب سے بڑے صوبے کو ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلایا جا سکتا‘‘ کا ان کا بیان ہی کیا کم تھا کہ رہی سہی کسر قاف لیگ کے ترجمان (اور چودھریوں کے نفسِ ناطقہ) کامل علی آغا نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ صوبے میں جو کام ہزار، بارہ سو میں ہو جاتا تھا، اب اس کے لیے 50 ہزار طلب کئے جاتے ہیں (اور وزیر اعظم کا نام لے کر طلب کئے جاتے ہیں کہ تبدیلی آ گئی ہے) مزید یہ کہ حکومت کی بیڈگورننس (اور کرپشن) پر لوگ تھوتھو کررہے ہیں، ہم حکومتی اتحادی ہونے کے باعث کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ خود پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر فواد چودھری کو اپنے ہی وزیر اعلیٰ کا ٹھٹھہ کرنے میں عار نہ تھی، جس پر پی ٹی آئی ہی کے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان وفاقی وزیر کو پارٹی (اور حکومتی) ڈسپلن کی آخری حد بھی پامال کرنے کا مرتکب قرار دے رہے تھے۔ چوہان صاحب کا کہنا تھا، وہ وزیر موصوف کا لحاظ کر رہے ہیں، ورنہ… اطلاعات کے لیے وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان، بزدار صاحب پر تنقید کو، خود وزیر اعظم پر تنقید قرار دے رہی تھیں۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 20 ارکان پر مشتمل ”ناراض گروپ‘‘ کا قیام، صوبے میں سیاسی ارتعاش کی نئی لہر اٹھانے کا باعث بن گیا تھا؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ سے کوئی گلہ نہیں (انہیں بزدار صاحب کی بے اختیاری کا بخوبی علم تھا) وہ امورِ سرکار میں اپنی بے وقعتی و بے حیثیتی کا رونا روتے ہوئے، وزیر اعلیٰ کو با اختیار بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے؛ چنانچہ لانے والے یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ یہ ”ناراض گروپ‘‘ خود وزیر اعلیٰ صاحب کی اپنی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے۔
وزیر اعظم کی لاہور آمد سے پہلے، ”ناراض‘‘ ارکانِ اسمبلی سے وزیر اعلیٰ کی ملاقات کامیاب رہی تھی۔ وزیر اعلیٰ کو ان کے مطالبات سے اتفاق تھا۔ ”ناراض‘‘ گروپ کے لیڈر سردار شہاب الدین کے بقول، وزیر اعلیٰ نے ناراض گروپ کے ہر رکن سے اس کے حلقے میں 10 سے 15 کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا وعدہ کر لیا تھا (لیکن اس کا اطلاق نئے مالی سال سے ہوگا)۔
وزیر اعظم سے ملاقات میں بعض ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو دل کی بات زبان پر لانے میں کوئی عار نہ تھی۔ خان کی قیادت پر اعتماد اور پارٹی سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بیوروکریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ منتخب نمائندوں کی بات سنی جاتی ہے، نہ ان کے جائز کام ہوتے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی یاد دلا رہے تھے کہ وہ جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے پر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی (وزیر اعظم نے اس پر کسی حرفِ آخر کی بجائے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اس پر کام ہو رہاہے) ملتان سے قومی اسمبلی کے رکن احمد حسن، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر علاقے کے تمام فنڈز اپنے حلقے میں لے جانے کا الزام لگا رہے تھے۔ احمد حسن کو ملتان کے سجادہ نشین کا کوئی لحاظ نہ تھا لیکن جناب وزیر اعظم کی موجودگی کے باعث شاہ محمود قریشی کو پاسِ ادب تھا؛ چنانچہ انہوں نے دھیمے لہجے میں شکایت کنندہ کو یاددہانی کرائی کہ قومی اسمبلی کیلئے اسے پارٹی ٹکٹ خود قریشی صاحب کے طفیل ملا تھا۔
جناب وزیر اعظم کا یہ اعلان ”لائوڈ اینڈ کلیئر‘‘ تھا کہ بزدار صاحب کہیں نہیں جا رہے، صوبے کی وزارتِ اعلیٰ پر وہی متمکن رہیں گے۔ یہاں انہوں نے یہ دلچسپ بات بھی کہی کہ ان کی جگہ کسی اور کو لے آئوں تو وہ بیس دن بھی نہیں چل سکے گا۔ (ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ”سیاسی استحکام‘‘ کے لیے بزدار ناگزیر ہو گئے تھے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟) وزیر اعظم نے (آئین کے مطابق) وزیر اعلیٰ کو صوبے کا چیف ایگزیکٹو قرار دیتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس ان کی ٹیم کا حصہ ہیں (تو کیا دوماہ قبل نومبر میں صوبے کو چلانے کے لیے وضع کی گئی حکمت عملی واقعی اختتام کو پہنچی؟)
وزیر اعظم نے اس موقع پر ”منظم مافیا‘‘ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا،جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکومت کے خلاف منفی تاثر پھیلارہا ہے۔ (لیکن یہ ”منظم مافیا‘‘ کہاں ہے؟ اس میں کون کون ہیں؟ لال حویلی والے شیخ رشید بھی مافیا کی بات کررہے ہیں۔ ان میں ایک مافیا اتنا طاقتور ہے کہ دورہ چین کے موقع پر بیجنگ میں اسے شیخ کو دھمکیاں دینے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ کیا شیخ صاحب نے جناب وزیر اعظم کو بتایا کہ اس مافیا میں کون تھے، جنہیں شیخ جیسے اہم وزیر کو دھمکیاں دینے سے بھی گریز نہ تھا۔ اور ان دھمکیوں کی نوعیت کیا تھی؟) میڈیا سے گفتگو میں شیخ نے صرف ایک دھمکی کا ذکر کیا تھا۔ یہ پنڈی سے شیخ کو آئندہ الیکشن نہ جیتنے دینے کی دھمکی تھی۔
جناب وزیر اعظم کا کہناتھا، مجھے پتہ ہے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے سازشیں کون کررہا ہے اور کہاں سے کررہاہے؟ اس حوالے سے وزیر اعظم کا اشارہ گورنر صاحب اور گورنر ہائوس کی طرف تو نہیں ہوسکتا۔ (اگرچہ جناب وزیر اعظم نے اس بار اپنے دورۂ لاہور میں گورنر صاحب سے بے رخی کا مظاہرہ کیا) علیم خان بھی شاید کانوں کو ہاتھ لگا چکے، تو کیا ان کا اشارہ چودھری پرویز الٰہی کی طرف تھا؟ گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں گجرات کے چھوٹے چودھری کے لہجے میں اور چہرے پر رنج کے گہرے سائے تھے، جب وہ کہہ رہے تھے: بجائے اس کے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے (آزای مارچ) کو ختم کرانے میں جو کردار ادا کیا، اسے Appreciate کیا جاتا‘ وزیر اعظم صاحب شکوک وشبہات کا شکار ہوگئے۔ کچھ لوگ اپنے مفادات کے لیے وزیر اعظم کو بدگمان کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے اتحادیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور سنی سنائی پر اعتماد کرنے کی بجائے تصدیق کر لیا کریں۔