منتخب تحریریں

سرسوں کا کھیت اور پیلے رنگ کی حشر سامانی

Share

پیلے رنگ کا خیال ذہن میں آئے تو کوئی خاص تاثر سا آپ کو شاید محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن یہ صرف تب تک ہے جب تک آپ کی نظروں سے پھولی ہوئی سرسوں کا کھیت نہیں گزرتا۔ ممکن ہے آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں کہ ہر شخص کی محسوس کرنے کی حس مختلف بھی ہے اور اس میں تنوع بھی ہے؛ تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ پیلے رنگ کی حشر سامانی اور آب و تاب دیکھنی ہو تو جنوری اور فروری میں سرسوں کا کھیت دیکھیں ۔ تب سرسوں پوری طرح پھولی ہوتی ہے۔ خوشی‘ ٹھنڈک‘ مٹھاس اور طمانیت کا جو احساس اس پیلے کھیت کو دیکھ کر ہوتا ہے اس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے حرف و قلم سے اس کا اظہار نا ممکنات میں سے ہے۔ اس کا مزہ لینے کے لیے سرسوں کے کھیت کے کنارے کھڑا ہونا بھی شاید ضروری نہیں۔ چلتے چلتے نظر ڈالنا بھی ایک ایسی کیفیت سے روشناس کراتا ہے کہ لطف آ جاتا ہے۔ یہ صرف اور صرف پیلے رنگ کا کمال ہے اور پیلا رنگ بھی پھولی ہوئی سرسوں کا۔
جنوری اور فروری میں جب میں پھولی ہوئی سرسوں کے کھیتوں کے بیچ سے گزرتا ہوں‘ درمیان میں کھڑے ہو کر پھولوں پر گری شبنم کو ہاتھوں سے محسوس کرتا ہوں اور سڑک پر تیزی سے گزرتے ہوئے دور و نزدیک سرسوں کے کھیتوں کے پہلو میں سے گزرتا ہوں تو ایک ایسے لطف سے سرشار ہوتا ہوں کہ بیان کرنا کم از کم میرے لیے تو کسی طور ممکن نہیں۔ خوشی کے ساتھ ساتھ ایک ملال۔ سرسوں کے آخری دنوں میں پیلے رنگ کی جو بہار اس کھیت پر کھلتی ہے وہ اس بات کا اشارہ ہوتی ہے کہ اب سرسوں کا موسم دم آخر پر ہے اور ساگ اب بیج میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ اب سرسوں کا ساگ اگلے سیزن میں نصیب ہوگا۔
سرسوں کا ساگ اگر کسی پکانے والے نے پکایا ہو تو اس سے شاندار شے کا تصور بھی محال ہے لیکن اگر بیکار پکا ہو تو اس سے فالتو شے کا تصور بھی ممکن نہیں۔ سرسوں کے ساگ کے ساتھ باجرے کی روٹی کا اپنا ہی مزہ ہے لیکن یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کہ باجرے کی روٹی کا مزہ صرف اور صرف اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے کہ باجرہ ادھر چکی سے پس کر نکلے اور ادھر گوندھ کر آٹا بنائیں اور روٹی توے پر ڈال لیں۔ اب بھلا ایسا کہاں ممکن رہا ہے؟ وہ عورتیں تو اب خواب و خیال ہو گئیں جو باجرہ ہاتھ والی چکی پر پیستی تھیں‘ آٹا گوندھ کر توے پر ڈال دیتی تھیں اور پھر تازہ باجرے کی روٹی پر چلو بھر گھی ڈال کر آپ کے سامنے رکھ دیتی تھیں۔ دُلم میں دو بار باجرے کی روٹی اور سرسوں کے ساگ کا لطف لیا۔ قریب چار‘ ساڑھے چار عشرے گزر گئے‘ لیکن زبان پر ابھی تک اس کھانے کا مزہ محسوس کر سکتا ہوں۔
اب لے دے کر سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی رہ گئی ہے۔ مکئی کے لیے خدا خوش رکھے برادر عزیز صغیر قمر کو۔ جب کبھی فرمائش کروں آزاد کشمیر کے کسی دور افتادہ گائوں کے کنارے بہتی ندی پر چلنے والی جندر (خراس) پر پسا ہوا سفید مکئی کا آٹا ملتان بھجوا دیتا ہے‘ لیکن عام حالات میں شوکت گجر (جس کا اصرار ہے کہ اسے شوکت علی انجم کے نام سے لکھا اور پکارا جائے) بشام سے اسی سفید مکئی کا آٹا منگوا دیتا ہے۔ ساگ رانا شفیق کے گھر سے آ جاتا ہے اور سردیاں ایسے کیف میں گزرتی ہیں کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ساگ بنانا بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ یہ آلو گوشت نہیں کہ ہر تیسری خاتون کو پکانا آتا ہو۔ (تین میں سے دو خواتین کو تو آلو گوشت بھی ٹھیک طرح سے پکانا نہیں آتا) یہ ایک فن ہے‘ جو کسی کسی ہاتھ میں ہے۔ ذائقہ بھی تو کسی کسی ہاتھ میں ہوتا ہے۔
ابا جی مرحوم کو ساگ کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس زمانے میںگھر میں وہی پکتا تھا ‘جو گھر کے سربراہ کو پسند ہوتا تھا اور جو اسے پسند نہیں ہوتا تھا‘ وہ گھر میں مشکل ہی پکتا تھا۔ سو‘ ہمارے گھر میں ساگ کبھی کبھار ہی پکتا تھا اور مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ماں جی کو ساگ پکانے میں کچھ مہارت بھی نہیں تھی۔ وجہ یہی تھی کہ جب ساگ گھر کی کسی ترجیح میں ہی نہیں تھا تو ماں جی اچھا ساگ پکانے کا تردد کس لیے کرتیں؟ سو ‘جب کبھی ساگ پکتا تھا‘ تو بس گزارے لائق۔ میری اہلیہ نے سارا کھانا پکانا ماں جی سے سیکھا تھا‘ اس لیے ساگ بھی ویسا ہی سیکھا جیسا ”استاد‘‘ نے سکھایا۔ ماں جی کو تو کبھی کہنے کی جرأت نہ ہوئی تھی کہ آپ کو ساگ پکانا نہیں آتا لہٰذا نہ پکائیں‘ لیکن اپنی اہلیہ کے ہاتھوں کا پکا ساگ ایک بار کھانے کے بعد ہی اسے کہہ دیا کہ وہ یہ تردد نہ کیا کرے‘ یہ اس کے بس کا کام نہیں۔ خدا بھلا کرے ہمارے گھر کے سامنے رہنے والی میری اہلیہ کی سہیلی کا۔ کمالیہ سے اپنے شوہر کی نوکری کے سلسلے میں ملتان آنے والی وہ خاتون ساگ پکانے میں مہارت تامہ رکھتی تھی۔ ساری سردیاںاس کے گھر سے آنے والے ساگ پر مزے لوٹے جاتے اور سیزن کے آخر میں ایک بڑا سا دیگچہ ساگ بنا کر گھر بھجوا دیتی۔ اسے پیکٹوں میں بند کر کے فریز کر لیا جاتا اور ”آف سیزن‘‘ میں موج میلہ کیا جاتا۔
میری ساگ سے رغبت سب دوستوں پر عیاں تھی۔ ساری سردیاں کبھی میاں یٰسین کے گھر سے ساگ آتا اور کبھی کبھار میں ڈاکٹر ظہور صاحب کے گھر سے ساگ اینٹھ لاتا۔ کبھی سورج مغرب سے طلوع ہوتا تو شوکت علی انجم بھی کہیں سے مال غنیمت میں لائے ہوئے ساگ میں سے کچھ حصہ عطا کر دیتا۔ عثمان آباد سے گھر تبدیل کیا تو سامنے والے ساگ سے محرومی دیکھنا پڑی‘ لیکن اس کی وجہ صرف گھر کی تبدیلی نہ تھی‘ بلکہ وہ خاتون واپس کمالیہ چلی گئیں اور ساگ کی سپلائی بند ہو گئی تھی۔ میری اہلیہ بھی چلی گئی اور اس کے حوالے سے آنے والا ساگ بھی۔ میاں یٰسین سرگودھا چلا گیا اور ڈاکٹر ظہور لاہور شفٹ ہو گئے۔ اب صرف لے دے کر رانا شفیق کے گھر سے ساگ آ جاتا ہے اور سردیاں گزر جاتی ہیں۔ ہاں یاد آیا‘ میری منجھلی بیٹی کی ساس جیسا ساگ بنانا بس اسی پر ختم تھا۔ ایسا لذیذ کہ سب دوستوں کے سپلائی شدہ ساگ پر بھاری۔ دو چار سال ان کے ساگ پر گلچھرے اڑائے‘ پھر بیٹی آسٹریلیا چلی گئی اور اس کی ساس لاہور۔ سیزن کے شروع میں انہوں نے اپنی بہو (میری بیٹی) کے لیے کافی سارا ساگ بنایا اور اسے لاہور سے میرے بتائے ہوئے پتے سے ٹین کے ڈبوں میں پیک کروا کر میرے ہاتھ امریکہ بھجوایا‘ جہاں میری منجھلی بیٹی آسٹریلیا سے اپنی بڑی بہن کو ملنے آ رہی تھی۔ تقریباً بارہ تیرہ ڈبے امریکہ جانے والے سامان میں شامل ہو گئے۔ پہلے سے اتنے ہی ڈبے ہریسے کے بھی سامان میں تھے۔ وزن زیادہ ہو جانے کے باعث اس ساگ کے تین ڈبے نکالنے پڑے۔ جہاں ان کے نہ لے جانے کا افسوس ہوا‘ وہیں دل اندر سے خوش ہوا کہ اب میں ان ڈبوں سے مزے اڑاؤں گا۔ انسان اندر سے بڑا خود غرض ہے۔
ہریسہ ‘ ساگ اور باقر خانیاں۔ یہ سردیوں کی سوغاتیں ہیں۔ ناشتے کے لیے کشمیری چائے اور لاہور سے آمدہ باقر خانیاں‘ اور لاہور سے ہی آنے والا ہریسہ۔ حاجی سراجدین کا نسبت روڈ سے لایا جانے والا ہریسہ۔ پھر آغا نثار نے خود اپنے ہاتھوں سے ہریسہ پکا کر اور ٹن پیک کروا کر ملتان بھجوایا۔ گزشتہ دنوں گھر والوں کی دعوت کی تو اس میں دل پر پتھر رکھ کر ہریسہ اور ساگ کے ڈبے کھول کر مہمانداری کے لیے پیش کر دیئے۔ جب تک دونوں چیزیں میز پر موجود رہیں کسی نے بھی دیگر لوازمات کی طرف نظر نہ کی۔ مکئی کی روٹی نے اپنی بہار دکھائی۔ پن چکی پر پسی ہوئی سفید مکئی کے آٹے سے بنی ہوئی روٹی کی لذت بتانے کی نہیں محسوس کرنے والی شے ہے۔
گوالمنڈی والی باقرخانیوں میں اب پہلے جیسی بات نہیں۔ تنور والے اب میدے میں خود خمیر اٹھانے کے بجائے پہلے سے خمیر شدہ میدے کے پیک ڈبے سے باقرخانیاں بنا رہے ہیں۔ پرانی یادوں کے سہارے اس بار لوہاری دروازے (لاہور) کے اندر پرانے تنور سے باقرخانیاں منگوائی ہیں ‘جو قدرے بہتر ہیں۔ ایک دوست نے لاہور کی ایک اور دُکان کا بتایا کہ وہاں کی باقر خانیاں کمال کی ہیں۔ میں نے کہا مجھے بھی اس دُکان کا پتا ہے لیکن ڈیڑھ سو روپے کی ایک باقر خانی کھانا اسراف کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ سردیاں رخصت ہونے کے قریب ہیں اور سرسوں کا ساگ بھی۔
ملتان سے اسلام آباد جاتے ہوئے اچانک پہلوان کی ریوڑیوں کا خیال آیا اور پھر گاڑی بلکسر سے چکوال کی طرف موڑ لی۔ پہلوان کی ریوڑیوں کے کئی ڈبے گاڑی میں رکھ کر جب مندرہ کی طرف روانہ ہوا تو دونوں طرف سرسوں کے کھیت تھے اور سرسوں ایسی پھولی ہوئی تھی کہ ملتان سے لاہور کے سفر کے دوران سرسوں کے کھیتوں کی دلکشی کو کہیں پیچھے چھوڑ گئی۔ ملتان سے لاہور کے سفر سے یاد آیا کہ درمیان میں صرف ایک سروس ایریا نیم آپریشنل ہوا ہے لیکن وہاں کے باتھ رومز؟ خدا کی پناہ۔ اب ان پر کیا لکھوں؟ یہ حکومت بھلا ہم جیسوں کا لکھا کہاں پڑھتی ہے؟ ہاں اگر میں کوئی پوپٹ سی ا داکارہ ہوتا تو میرا ایک ٹویٹ ہی کافی تھا‘ لیکن اب تو میرا کالم لکھنا اور کسی ایکشن کی امید رکھنا کار لا حاصل ہے کہ سرکاری توجہ اور مہربانیوں کا رخ ہم جیسے ”کھڑوسوں‘‘ کی طرف نہیں ہے اور بقول چوہدری بھکن کے ہونا بھی نہیں چاہیے۔