سکندر اعظم کے غزہ سے ملنے اور پھر گم ہو جانے والے سکوں کی تلاش
غزہ کی پٹی کے ساحل پر ماہی گیروں کو ایسے نایاب سکوں کا ایک مجموعہ ملا جن میں یونانی بادشاہ سکندر اعظم کے عہد کے اہم سکے بھی شامل ہیں۔
قدیمی سکوں کے ماہر یوٹ وارنٹن برگ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بہت ہی اہم دریافت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایسی سب سے بڑی دریافت ہے جس میں سکندر کے دور کے ڈیکاڈریم بھی ہیں۔‘
یوٹ وارنٹن برگ وہ ماہر ہیں جنھوں نے 2017 کے موسم بہار میں غزہ کے خزانے کی دریافت سے قبل سکندر اعظم کے دور کے تمام سکّوں کا تمام دستاویزی ریکارڈ جمع کیا ہے۔
غزہ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ آثارِ قدیمہ فاضل العتول وہ پہلی شخصیت تھے جنھوں نے 2300 برس قدیم ان سکوں کو پہچانا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے سکوں کو اپنے ہاتھ میں تھاما تو اس وقت میرے احساسات حیرانی اور دھچکے کا مرکب تھے۔‘
سکندر اعظم یونان سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی مقدونیائی سلطنت کا حاکم تھا اور مصر پر حملے کی کوشش کے دوران اس نے ایک خونی محاصرے کے بعد سٹریٹجک اعتبار سے اہم غزہ کے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔
سکے غائب ہو گئے
لیکن فاضل العتول کی جانب سے شناخت کے بعد یہ سکے جلد ہی غائب ہو گئے اور یہی امکان ظاہر کیا گیا کہ یہ فروخت ہو چکے ہیں۔
العتول کا کہنا تھا ’یہ ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ سکے ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں۔ ان کے وجود کی وجہ کیا ہے اور وہ ہمارے ملک کی کیسے نمائندگی کرتے ہیں۔‘
تاہم دریافت کے کچھ ماہ بعد دنیا کے مختلف مقامات پر نیلام گھروں میں اسی قسم کے سکوں کی فروخت شروع ہو گئی۔ ان میں سے ایک لندن کے روم نومسمیٹک نیلام گھر میں ایک لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہوا۔
اگلے دو برس میں ایسے 19 نادر سکے منظرِ عام پر آئے جن میں سے گیارہ اسی نیلام گھر میں ہی فروخت ہوئے اور اس وجہ سے سکندر کے دور کے سامنے آنے والے سکوں کی تعداد غزہ کے خزانے کی دریافت سے قبل کے مقابلے میں دگنی ہو گئی۔
ماخذ
تاہم یہ انتہائی نایاب سکوں کی ملکیت کی تاریخ موجود نہیں تھی جو کرنسی کے شعبے میں ماخذ کے طور پر جانی جاتی ہے تو پھر یہ آئے کہاں سے؟
فاضل العتول سے غزہ کے خزانے کی متعدد تصاویر حاصل کرنے والے پروفیسر تھامس پوزو کا کہنا ہے کہ ’یہ نام نہاد اصلیات چاہے وہ کینیڈا کا گروہ ہو، شمالی امریکہ سے تعلق رکھنے والا ایک خاص گروپ، یا ایک خصوصی یورپی گروپ، میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ آپ ان اثاثوں کی تصدیق کیسے کر سکتے ہیں۔ اب یہ دعویٰ کرنا ہی باقی ہے کہ یہ سکے مریخ کے ایک خاص گروپ کا حصہ تھے۔‘
پروفیسر بوزو پوری دنیا کے نیلام گھروں سے ان سکوں کا پیچھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی کوششیں بےسود رہی ہیں۔
نایاب کرنسی کے میدان میں گمنام سکے فروخت کرنا غیرقانونی یا غیر معمولی نہیں لیکن ان کے ماخذ کی وضاحت کیے بغیر بہت ہی نایاب سکے فروخت کرنے کا واقعہ بہت ہی کم ہوتا ہے کیونکہ ماخذ کے بغیر کوئی بھی فروخت کے لیے دستیاب سکوں کی اصلیت کا تعین نہیں کر سکتا۔
نوادرات کے ماخذ کا کھوج لگانے والے ماہر جیمز ریتکلف نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’اگر میں یہ سکے خریدنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو میں (فروخت کنندگان) تاجر کی شناخت، خریداری کے مقام اور وقت کے بارے میں اور ساتھ ہی خریداری کے وقت ان نوادرات کے منبع کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کے بارے میں بھی پوچھوں گا۔‘
فروخت کے قوانین
ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ اور زیادہ تر یورپی ممالک میں نوادرات کی فروخت کے معاملے میں سخت قوانین موجود ہیں اور وہاں ایسی کسی بھی نادر چیز کی فروخت یا نیلامی پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس کے بارے میں علم یا ذرا سا شبہ بھی ہو کہ وہ حال ہی میں دریافت ہوئی ہے یا اس کا دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔
1973 کے بعد سے کہیں بھی سکندر اعظم کے دور کے چاندی کے سکوں کے نئے خزانے کی دریافت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
تاہم یہ سکے ان گروپوں کا حصہ ہو سکتے ہیں جن کا ماضی میں دستاویزی ریکارڈ نہیں رکھا گیا یعنی یہ موجودہ قوانین کے نافذالعمل ہونے سے پہلے کے ہو سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انھیں موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر خریدا اور فروخت کیا جا سکتا ہے۔
ایک لاکھ پاؤنڈ میں سکے کی فروخت یا کسی نئے خزانے کی دریافت کے بارے میں افواہوں نے شاید انھیں جمع کرنے والوں کو اپنے قانونی سکے بازار میں لانے کی ترغیب دی ہو۔
بی بی سی نے روما نومسمیٹکس کے علاوہ سات ایسے دیگر نیلام گھروں سے بھی ان سکوں کے بارے میں دریافت جہاں انھیں فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا لیکن ان میں کوئی بھی ہمیں اس فرد کا نام فراہم نہیں کر سکا جو یہ سکے فروخت کے لیے ان تک لایا تھا۔ نیلام گھروں کا کہنا ہے کہ وہ صرف وہی معلومات فراہم کر سکتے ہیں جس کی انھی اجازت دی گئی ہو۔
شناخت شدہ ذرائع
تاہم ہماری تحقیقات کے نتیجے میں سکندر کے دور کے ان 19 ڈیکاڈریم میں سے چھ کے ماخذ کا انکشاف ہوا جو 2017 سے فروخت کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
ہمیں انسٹاگرام اور فیس بک پر ’طارق ہانی گروپ‘ کے نام سے دو صفحات ملے جو اس فلسطینی خاندان کی ملکیت ہیں جو سکے جمع کرنے کے لیے مشہور ہے۔
ان صفحات پر ہمیں ان ایسے ڈیکاڈریم کی تصاویر بھی ملیں جو ہمارے ماہرین نے پہلے نہیں دیکھے تھے۔
ان سوشل میڈیا صفحات پر طارق ہانی کلیکشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حال ہی میں نیلام ہونے والے سکوں میں سے پانچ ان کے تھے جنھیں کلاسیکل نمیسمیٹک گروپ، نیوسمیٹک نومان نیمس اور ہیریٹیج کے ذریعے نیلام کیا گیا تھا۔
اس خاندان نے بی بی سی عربی کو ایک دستاویز بھی دی جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ پانچوں سکے جو فروخت ہوئے اور اس کے علاوہ ستمبر 2019 میں ایرا اور لیری گولڈ برگ نیلام گھر کے ذریعے میں فروخت ہونے والا چھٹا سکہ بھی ان کی کلیکشن کا حصہ تھا۔
آرتھوڈوکس چرچ
بی بی سی کو حاصل کردہ دستاویزات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزہ میں آرتھوڈوکس چرچ نے 1967 سے سکوں کو ایک تجوری میں رکھا ہوا تھا۔
یہ نوادرات کی فروخت کو باقاعدہ بنانے کے موجودہ قوانین کے نفاذ سے پہلے کی بات ہے جس کا مطلب ہے کہ آج کے دور میں ان کی تجارت قانونی ہے۔
اس طرح اب 13 نایاب سکے بچے ہیں جو 2017 کے موسم بہار کے بعد پوری دنیا کے نیلام گھروں میں فروخت ہو چکے ہیں اور نہ ہی ان کے ماخذ کا علم ہے اور نہ ہی ان کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔
سو وہ 11 سکندری ڈیکاڈریم کہاں سے آئے جنھیں روما نومسمیٹک میں نیلام کیا گیا؟
ایک لاکھ پاؤنڈ کا سکہ
ہم نے روما نیوسمسٹک کے مینیجر رچرڈ بیل سے ملاقات کی تاکہ 2017 میں ایک لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہونے والے سکے کے بارے میں مزید جا سکیں۔
دستاویزات کے مطابق یہ سکہ کینیڈا میں ایک نجی کلیکشن سے آیا تھا رچرڈ بیل نے کیمرے پر بات کرنے سے گریز کیا اور جب ہم ان سے ملے تو وہ ہمیں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکے جو نیلام گھر کی کیٹلاگ میں درج تھا۔
نیلام گھروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی سکے کی اصلیت کے بارے میں تصدیق کے لیے ضروری اقدامات کریں لیکن وہ سکوں کے ذرائع طے کرنے کے لیے بھروسہ مند مرسلین کے الفاظ پر بھی بھروسہ کر سکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں روما نومسمیٹک کے جاری کردہ ہر انڈیکس میں ’شکریہ کے ساتھ‘ کے عنوان سے ایک حصہ شامل رہا ہے جس میں ہم نے ایک مانوس نام سالم الشديفات کا نام پایا ہے۔
سالم الشدیفات کا نام غزہ کے ساحل پر بھی سامنے آیا تھا۔
ماہی گیروں کا رابطہ کار
وہاں ماہی گیروں نے بی بی سی کو بتایا کہ الشدیفات سکوں کی تجارت کرنے والے ایک ایسے تاجر سے رابطے میں ان کے مددگار ہیں جو ان سے اردن میں سکے خریدتے ہیں۔
انھوں نے ہمارے پروڈیوسر کو فیس بک پر ان کی تصویر بھی دکھائی تاہم بی بی سی کو ان کے اور غزہ کے خزانے کے مابین کوئی تعلق نہیں ملا۔
سالم الشدیفات روما نومسمیٹک کے لیے کام نہیں کرتے لیکن روما کے ڈائریکٹر رچرڈ بیل ان کی کمپنی ایتھینا نومسمیٹک کے شریک ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔
سالم کے فیس بک اکاؤنٹ پر ہمیں ایک سکندری ڈیکاڈریم کی تصویر ملی جسے 26 ستمبر 2018 کو روما نومسمیٹکس نے 40 ہزار ڈالر میں فروخت کیا۔ اس تصویر کے نیچے سالم الشدیفات کا یہ تبصرہ بھی موجود تھا: ’اپنے شراکت دار یعنی روما کے ساتھ چھ ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد ہم پہلی بار آپ کے لیے نایاب یونانی نوادرات پیش کرتے ہیں۔‘
ہم نے سالم الشدیفات سے دریافت کیا کہ کیا ایک لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہونے والے سکے کے لین دین یا ستمبر 2017 سے بعد روما نومسمیٹک کی جانب سے فروخت کے لیے پیش کیے جانے والے سکندری دور کے کسی بھی ڈیکاڈریم کی خرید و فروخت میں ان کا کوئی کردار تھا۔
سالم الشدیفات نے ہمیں بتایا کہ سکندری دور کے کسی بھی ڈیکاڈریم کے سودے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
انھوں نے مزید کہا ’میرے پاس دو سکندری ڈیکاڈریم ہیں جنھیں میں نے سکوں کے تاجر سے خریدا تھا اور میرے پاس رقم کی منتقلی کی رسیدیں اور ثبوت موجود ہیں۔ ان دونوں سکوں کا غزہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
نیلام گھروں کا ردعمل
روما نمسمیٹکس کے ڈائریکٹر رچرڈ بیل نے بی بی سی کو بتایا ’سکے بھیجنے والوں کے بارے میں ہمارا علم اور ان کی طویل اور پیشہ ورانہ تاریخ اور اعتماد ہمارے لیے کافی تھا۔ اس کے علاوہ ہم نے نامعلوم ماخذ ملک سے برطانیہ میں کرنسیوں کے داخلے کو ثابت کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں۔‘
بیل نے مزید کہا کہ سکے بھیجنے والوں نے انھیں یقین دلایا کہ ان کے پاس غیرقانونی کھدائی کے نتیجے میں سکے کی دریافت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ہم نے بیل سے پوچھا کہ یہ سکے کہاں اور کب دریافت ہوئے۔ ان کا جواب تھا کہ وہ اس سے لاعلم ہیں اور نیلامی کے کاروبار میں یہ غیرمعمولی نہیں۔
نومبر 2018 میں کلاسیک نومسمیٹک گروپ کی ملکیت تبدیل ہو گئی۔ کمپنی کے نئے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ان دو سودوں کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کے بارے میں یا اصل مرسل کے بارے میں جانتا ہوں۔‘
نیلام گھر ہیس دیوو نے اپنے سکے کی فروخت کے بارے میں کہا کہ ’اگر ہمیں صحیح طریقے سے یاد ہے تو مرسل نوادرات جمع کرنے والی ایک معزز برطانوی شخصیت تھی۔‘
نوموس نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں سکہ ہیس دیوو میں فروخت نہ ہو سکنے کے بعد ملا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انھیں ہیس دیوو آمد سے قبل سکے کے ماخذ کا علم نہیں اور نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ اسے کس نے بھیجا تھا۔ اصولاً اگر یہ کسی دوسرے نیلام گھر سے نہ آیا ہو تو ہم ایسے سکے قبول نہیں کرتے۔‘
ہیریٹج کا کہنا ہے کہ اس کے سکے اس کاروبار سے وابستہ جانے پہچانے افراد کے ذریعے آئے اور ان کے پاس ان پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
نومسمیٹک نومان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ثبوت ہے کہ یہ سکہ دہائیوں سے ایک کلیکشن کا حصہ تھا۔‘
ان کے علاوہ ایرا اینڈ لیری گولڈ برگ اور شلمان بی وی نے بی بی سی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ماہرین یا مورخین میں سے کوئی بھی ماہی گیروں کے ذریعے ڈھونڈے گئے سکّوں کی تصاویر کو سکندری دور کے ڈیکاڈریم سے نہیں ملا سکا جو دنیا بھر کے نیلام گھروں میں فروخت کے لیے پیش کیے گئے تھے۔
سکوں کی دنیا میں جس طرح موجودہ قوانین اور ضوابط موجود ہیں ان کی وجہ سے سکوں کی تاریخ اور قدیم دور میں ان کی اہمیت کا کھوج لگانا آسان نہیں۔
گم گشتہ تاریخ
نئے قوانین کے نفاذ کے مطالبات کے باوجود نیلام گھر اور وہاں نیلامی کے لیے چیزیں بھیجنے والے دونوں ان سکوں کی اصلیت بتانے کے پابند نہیں ہیں۔ درحقیقت ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین انھیں یہ معلومات فراہم کرنے سے بھی روکتے ہیں۔
ہماری تحقیقات سے صرف ان چند سکوں کے ماخذ کا علم ہو سکا جو حال ہی میں نیلام ہوئے۔ ہم شاید یہ کبھی نہ جان سکیں کہ غزہ سے ملنے والا سکندری سکوں کا خزانہ کہاں گیا۔
یوٹ وارٹنبرگ کا کہنا ہے کہ غزہ سے ان کی برآمدگی انھیں زیادہ دلچسپ بناتی ہے کیونکہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں یہ دفینہ ملا وہیں سے سکندر کی فوج گزری ہو گی۔ شاندار بات ہو گی کہ وہاں باقاعدہ کھدائی کی جائے نہ کہ ہم اس کے سارا تاریخی پس منظر بھلا دیں۔‘