برطانیہ نے 5G نیٹ ورکس میں چینی کمپنی ہُواوے کو محدود پیمانے پر کام جاری رکھنے کی اجازت دیدی ہے۔ حالانکہ امریکا کی طرف سے دباؤ تھا کہ کمپنی کو اس نظام سے بالکل بلاک یعنی باہر کر دیا جائے۔
جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں نیٹ کے’حساس پرزے’، جو کور کہلاتے ہیں، فراہم نہ کرنا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ کمپنی اس نظام کے بیرونی حصے کے 35 فیصد تک حصے میں کام کرے گی۔ اس میں ریڈیو ماسٹ کہلانے والا حصہ بھی شامل ہے۔
اور کمپنی جوہری اور فوجی تنصیبات کے قریب بھی کام نہیں کر سکے گی۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ہُواوے کے آلات سے جاسوسی کا خطرہ ہے اور یہ کہ ‘ہم ان ملکوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ نہیں کر سکیں گے جو مواصلات کے اہم نظام میں’ اسے مداخلت کی اجازت دیں گے۔
تاہم برطانوی وزیر خارجہ ڈومینِک راب نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے برطانیہ کے امریکا اور دوسرے اتحادیوں کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات کے تبادلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
امریکہ نے ہواوے پر قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہونے کے الزام کے تحت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو بھی ہواوے کمپنی سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ کئی مغربی ممالک نے امریکی مشورے پر عمل کرتے ہوئے چینی کمپنی کو اپنے مواصلات کے نیٹ ورک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
جب واشنگٹن کی جانب سے چین پر ان الزامات کے بعد کہ اس نے ایران پر لگی پابندیوں کی خلاف ورزی اور مغربی حکومتوں کے سسٹمز ہیک کیے ہیں، ہواوے کمپنی پر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکہ کی مارکیٹوں میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
امریکہ اور چین کے مابین اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب کینیڈا میں ہواوے کی چیف فائنینشئل افسر اور کمپنی کے بانی کی بیٹی مینگ وانژاؤ کو اچانک گرفتار کر لیا تھا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ انھیں اس کے حوالے کر دیا جائے اور وہ الزام عائد کرتا ہے کہ ان کی کمپنی کے چینی حکام سے قریبی تعلقات ہیں اور وہ ایران کو ٹیلی کام کی مصنوعات فروخت کر رہی ہے۔ اگر ان پر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو انھیں 30 برس قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہواوے سنہ 2015 سے ٹیلی کام کی مصنوعات اور آلات بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی ہے اور اس نے اپنی حریف کمپنیوں ایرکسن، نوکیا، زیڈ ٹی ای اور سام سنگ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ہواوے کا کہنا ہے کہ اس نے فائیو جی کے 25 کمرشل معاہدے حاصل کر رکھے ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ فائیو جی بیس سٹیشنز وہ مختلف ممالک کو بھجوا چکا ہے۔