ہیڈلائن

چینی مافیا-سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ، صارفین اور کسانوں کو دھوکا دینے میں ملوث

Share

لاہور: پاکستان میں چینی میٹھا ترین کاروبار ہے اس کے باوجود یہ اکثر منہ کڑوا کردیتا ہے۔

چینی کی تیاری شاید پاکستان کی سب غیر مسابقتی صنعت ہیں جو مستقبل میں ملک کے پانی کے تحفظ پر سنگین نتائج کی حامل ہے۔

پھر بھی اسے سیاست پر اپنے مضبوط اور وسیع اثر ورسوخ سے بہت فائدہ پہنچا ہے جو سیاسی تقسیم اور پارٹی منشور سے بالاتر ہے۔

 رپورٹ کے مطابق چینی کے صنعتکاروں کا جس قدر کنٹرول سیاسی جماعتوں پر ہے، وہ کسی اور شعبے کا نہیں، صنعتی تجزیہ کار چینی کی معیشت اور سیاست کے درمیان مبہم سی فرق کو صنعت کی بے قاعدگی سے تعبیر کرتے ہیں۔

دہائیوں سے مسابقت کو محدود کرنے اور غیر مسابقتی عمل کو فائدہ پہنچانے کی سازگار حکومتی پالیسز کی بدولت چینی کی صنعت نے ملک کے سب سے منافع بخش اور محفوظ کاروبار کی حیثیت سے ترقی کی منازل طے کیں۔

یہ ملک کا شاید وہ واحد بزنس ہے جسے ہر آنے والی حکومت کی جانب سے ہر قدم پر تسلسل کے ساتھ مالیاتی، پالیسی اور سیاسی سپورٹ ملی، اس صورت میں اس صنعتی اشرافیہ کو سیاسی قیادت سے علیحدہ کرنا نہایت مشکل ہے۔

—گراف رمشا جہانگیر

گزشتہ برس چینی کی بڑھتی قیمتوں کے حوالے سے ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے تبصرہ کیا تھا کہ ’ہر سیاسی جماعت میں چینی کی صنعت سے وابستہ گروہ کو اے ٹی ایم مشینز سمجھا جاتا ہے‘۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سیاستدان چینی کی مارکیٹ کے 50 فیصد سے زائد حصے اور چینی کی 89 ملز میں تقریباً 40 ملز کے مالک یا شریک مالک ہیں۔

ملک میں چینی کی صنعت اور سیاست سے براہ راست وابستہ بڑے کھلاڑیوں میں جہانگیر ترین بھی ہیں، جو جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں وزیر صنعت تھے اور اب وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی، جن کا مجموعی مارکیٹ میں سب سے بڑا یعنی 14 سے 16 فیصد حصہ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری مبینہ طور پر سندھ میں اومنی گروپ کے تحت چلنے والی 9 ملز میں حصص رکھتے ہیں جبکہ بین الاصوبائی تعاون کی وزیر فہمیدہ مرزا کے شوہر ذوالفقار مرزا بھی صوبے میں چینی کے کاروبار کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔

اسی طرح وزیر تحفظ خوراک خسرو بختیار، ان کے بھائی اور پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جوان بخت کے علاوہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز میں چینی کی صنعت سے وابستہ کرداروں میں سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان، ان کے بھائی سینیٹر ہارون اختر شامل ہیں جو سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر ریونیو بھی تھے۔

چینی کی صنعت اور سیاست

پنجاب میں نواز شریف کے اہلِ خانہ اور دیگر رشتہ دار بھی متعدد شوگر ملز کے مالک ہیں، اس حوالے سے یہ خاندان 2 ملز کو جنوبی پنجاب منتقل کرنے کے تنازع میں بھی گھرا کہ جب سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے خاندانی کاروبار کو فائدہ پہنچانے کے لیے نئی ملز لگانے اور پہلے سے موجود ملز کو منتقل کرنے پر ایک دہائی سے عائد پابندی کا خاتمہ کیا تھا۔

—گراف:ڈان اخبار

شوگر ملز کے مالکان یا شریک ملکیت رکھنے والے دیگر سیاستدانوں میں گجرات کے چوہدری، ذکا اشرف، سردار نصراللہ دریشک، مخدوم احمد محمود اور میاں محمد اظہر شامل ہیں۔

ان کے علاوہ صوبہ خیبرپختونخوا میں مشرف دور میں وفاقی وزیر رہنے والے عباس سرفراز خان 5 شوگر ملز کے مالک ہیں۔

اس حوالے سے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ایک سابق رکن نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ چینی کی صنعت میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے کسانوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے نام پر اس صنعت اور سیاست میں شرکت داری کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کسی کاروبار میں بے انتہا بے قاعدگیاں ہوں گی تو قدرتی بات ہے کہ صنعتکار پالیسی میکرز تک رسائی رکھنے کے لیے براہ راست سیاسی تعلقات قائم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں اور سیاستدانوں کا اتحاد، عوام کی بہتری کی قیمت پر، مفادات کا واضح تصادم ہے، آپ کس طرح ایک ایسے شخص سے جو سرکاری عہدہ رکھتا ہو اس بات کی توقع کریں گے کہ وہ اپنے مفادات نظر انداز کردے گا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی اس صنعت کو ضرورت سے زیادہ کنٹرول کرنے کی پالیسی کا نتیجہ اس کھلے اتحاد کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ ہی شوگر کارٹلز بننے کی وجہ ہے۔

تکنیکی طور پر حکومت اس صنعت کو کسانوں اور صارفین کے فائدے کے نام پر کنٹرول کرتی ہے کیوں کہ چینی خوراک کا ایک انتہائی اہم جز ہے۔

تاہم عملی طور پر یہ کنٹرول صنعتی اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے کیوں کہ حکومت کسانوں کے ملز کے لیے کافی مقدار میں خام مال اگانے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے گنے کی قیمت سالانہ مقرر کرتی ہے، گنے کی بڑی مقدار کی خریداری یا سرپلس پیداوار کے سالوں میں برآمدات پر سبسڈی دیتی ہے، قلت کی صورت میں درآمدات کو کوٹہ مقرر کرتی ہے اور جب شوگر کارٹلز کسانوں کی ادائیگی میں تاخیر کرتے یا انہیں روک لیتے ہیں تو غیر ملکی پیداوار مسابقت سے بچانے کے لیے نظریں پھیر لیتی ہے۔

ایس ای سی پی کے سابق رکن نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کے مفادات کا دعوٰی اس وقت بے نقاب ہوجاتا ہے جب ملز مالکان فصلوں کی کٹائی نومبر کے اوائل سے دسمبر کے وسط تک ملتوی اور گنے کے سپلائیرز کی ادائیگی مہینوں بلکہ بعض اوقات سالوں تک روک کے رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’لہٰذا گنے کی سپورٹ قیمت میں اضافے نے 2014 میں زیر کاشت رقبے کو 1.17 ملین ہیکٹرز تک بڑھا دیا تھا جس کا اثر کپاس کی اہم فصل کم ہونے کی صورت میں نکلا تاہم کسانوں کو ادائیگیوں میں تاخیر اس رجحان کو تبدیل کررہی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح صنعت کے دباؤ پر چینی کی قیمت بڑھتی ہے اس سے بھی حکام کی جانب سے صارفین کے مفادات کے تحفظ کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

سال 2009 میں مسابقتی کمیشن پاکستان کی، کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن شوگر کارٹل کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے پلیٹ فارم سے سازشی رویے کی حوصلہ افزائی کرنے میں ملوث تھی جس کے تحت کرشنگ سیز کے آغاز کی تاریخ، صنعت کی پیداوار اور ریٹیل قیمتیں مقرر کی جاتی تھی تا کہ مارکیٹ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ چینی کی ریٹیل قیمت مقرر کر کے حکومت بھی غیر مسابقتی افعال کی حوصلہ افزائی میں ملوث تھی۔

پالیسی نوٹ

مئی 2018 کو جاری کردہ پالیسی نوٹ میں مسابقتی کمیشن پاکستان نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ چینی کے کاروبار سے باہر نکل آئے اور طلب و رسد کی مارکیٹ قوتوں کو اس ہی کی روزانہ ریٹیل قیمتیں مقرر کرنے دی جائیں۔

سی سی پی کے مطابق حکومت کا عمل دخل غیر مسابقتی پریکٹسز اور ملز مالکان کے کارٹلز بنانے کو فروغ دینے اور صنعت کو مسابقتی اور موثر بننے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔

2009 میں ان تحقیقات کا حکم دینے والے سی سی پی چیئرمین راحت کنین نے کہا تھا کہ ’کس طرح 89 چینی تیار کرنے والے، جن کی پیداواری لاگت ہر صوبے اور ہر مل کے اعتبار سے مختلف ہے، ایک قیمت پر چینی فروخت کرتے ہیں، مسابقت کہاں ہے؟

انہوں نے کہا تھا کہ ’ایک صنعت جو حکومتی تعاون اور مارکیٹ میں عمل دخل کے لیے اس کی مداخلت پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہے ہمیشہ اپنے کاروبار کے فروغ کی خاطر حکومتی پالیسز پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے سیاسی اثر رسوخ کو استعمال اور اس میں اضافہ کرے گی‘۔

بزنس سے سیاست کو علیحدہ کرنا آسان نہیں لیکن مارکیٹ سے حکومتی کنٹرول کم کرنے سے اس قسم کے گٹھ طور کر کمزور کرنے اور صنعت کو اپنے بل بوتے پر قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔