اہلِ سیاست میں مسیحا کی تلاش کارِ عبث ہے۔ لکھنے والے کیلئے مگر کوئی راہِ فرار نہیں۔ لوگ اِسی کے خوگر ہیں کہ اہلِ سیاست کے بارے میں سنیں اور پڑھیں۔
خیر خواہ توجہ دلاتے ہیں: ‘سیاست کی گندگی‘ میں کیا پڑا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان میں کیا رکھا ہے؟ انہیں چھوڑیے کہ اہم تر مسائل آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ اُنہیں موضوع بنائیے کہ خلقِ خدا کو راہنمائی کی ضرورت ہے۔ ان گنت سوالات ہیں کہ تشنہ جواب ہیں۔ نکلیے ان پامال موضوعات کے حصار سے کہ کتنے تازہ مضمون ہیں جنہیں کسی نے چھوا تک نہیں۔ یہ آپ ہیں جو سیاست کو کل سمجھے بیٹھے ہیں ورنہ زندگی کی وسعت کا معاملہ یہ ہے کہ ع
ہزار بادہ ناخوردہ در رگِ تاک است
خیر اندیش سچ کہتے ہیں مگر ایسے کتنے ہیں؟ عوام کو تو سیاست کی لت لگ چکی۔ سیاست اُن کے لیے طربیہ بھی ہے اور المیہ بھی۔ تفریح بھی ہے اور رزمیہ بھی۔ اب صحافت، حرف و صوت کی شکل میں ہو کہ رنگ و روپ کی صورت میں، عوامی چاہت سے بے نیاز نہیں ہو سکتی یا ہونا نہیں چاہتی۔ اسے تو مقبولیت کی شاہراہ پر بھاگنا ہے جہاں ایک دوڑ لگی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ فاتح ہو، سب سے آگے نکل جائے۔
گئے دنوں کی بات ہے جب میں ایک ٹی وی پروگرام کا میزبان تھا۔ ایک معروف تجزیہ کار میرے مہمان بنے۔ فرمایا: یہ ہماری کامیابی ہے کہ ہم نے تفریحی پروگراموں کی جگہ لے لی۔ اب ڈراموں سے زیادہ ٹاک شو دیکھے جاتے ہیں۔ ادب سے عرض کیا: لوگ آپ کو مسخروں کا متبادل سمجھتے ہیں۔ یہ کامیابی ہے کہ تنزل؟ ان کا اصرار باقی رہا۔ خیال ہوا‘ یہ میں ہی تھا جو اپنی بات کے ابلاغ پر قادر نہیں تھا یا پھر یہ بات ہی ان کے لیے اجنبی تھی۔
تجربہ کرکے دیکھ لیا۔ سنجیدہ موضوعات کے قاری محدود ہیں۔ وہی کالم بحث کا موضوع بنتا ہے جو نواز شریف صاحب کے بارے میں ہو یا عمران خان صاحب کے حوالے سے۔ مدح یا دشنام، انہی سے وابستہ ہیں۔ کبھی تو دل نچوڑ دیتے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ قربانی رائیگاں گئی۔ کسی نے رک کر یہ بھی پوچھا کہ یہ کس کا دل چاک ہوا ہے؟ یہ لہو کن انگلیوں سے ٹپکا ہے؟
اخبار والے بھی سہمے رہتے ہیں کہ کسی آبگینے کو ٹھیس نہ لگے۔ اب آبگینے بھی اتنے نازک ہیں کہ ان کی حفاظت کرتے کرتے تحریر اپنی تاثیر کھو دیتی ہے۔ صرف نازک ہی نہیں، متعدد بھی۔ یوں موضوعات سمٹ جاتے ہیں۔ اگرکوئی باقی بچتا ہے تو نواز شریف یا عمران خان۔ اب سنا ہے کہ خان صاحب بھی اپنے بارے میں بہت حساس ہو گئے ہیں۔ دھیرے دھیرے تنقیدی موضوعات کے دائرے سے نکل رہے ہیں۔ نواز شریف تو اِس وقت کچھ کر نہیں سکتے۔ ان کے بس میں ہو تو کیا معلوم وہ بھی اپنا نام ان موضوعات کی فہرست میں شامل کرا دیں جن پر قلم اٹھانا ممنوع ہو۔ جہاں ہر کوئی مقدس ہو، وہاں ‘گناہ‘ کا ذکر کیوں؟ ایسے معاشروں میں تنقید اور گناہ مترادف شمار ہوتے ہیں۔
کبھی ہفت روزے یا ماہنامے ہوا کرتے تھے، جہاں ہم جیسے دل کا غبار نکال لیتے۔ پھر وہ دور بھی ایسا تھا جب شہر میں صرف مقدس لوگ نہیں رہتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کی شخصیات اور افکار زیرِ بحث آ سکتے تھے۔ بحث ان کو بھی پسند نہیں تھی مگر یہ غنیمت تھا کہ گوارا کرتے تھے۔ اگر مولانا مودودی اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے تو کوئی غلام احمد پرویز بھی تھے جو تنقید کیا کرتے۔ جواب آںغزل کا سلسلہ بھی چل نکلتا تھا۔آج بھی کبھی ماضی کا ‘ترجمان القرآن‘، ‘طلوعِ اسلام‘ یا ‘نصرت‘ نظر سے گزرتا ہے تو دل سے ایک آہ سی نکلتی ہے۔ سوچتا ہوں: کیا میں یا کوئی اور آج بھی ان موضوعات پر لکھ سکتا ہے؟ اللہ کا شکر ہے کہ مولانا مودودی، غلام احمد پرویز اور رحمت اللہ طارق جیسے لوگ طبعی موت مرے۔ آج کوئی ویسا لکھ کے اور پھر اپنی موت مر کے دکھائے!
عوامی ذوق کی پراگندگی خود ایک مسئلہ ہے۔ جن پر تنقید کرتے ہیں، ان ہی کو دیکھتے ہیں۔ جن کا مذاق اڑاتے ہیں، ان ہی کو پڑھتے ہیں۔ اب ظاہر ہے، ٹی وی پہ انہی کو آنا ہے جو دیکھے جاتے ہیں۔ اخبار میں وہی چھپیں گے جن کو پڑھا جاتا ہے۔ عوام کا معاملہ عجیب ہے۔ جانتے ہیں سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے لیکن چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ اگر طلب ہو گی تو سگریٹ بنانے والے بھی ہوں گے۔ تمباکو اگانے والے بھی ہوں گے۔ یہ طلب اور رسد کا سادہ اصول ہے۔ رہیں اخلاقیات تو آپ کی حکومت نے سگریٹ کی ڈبیہ پہ لکھ دیا ہے ‘سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے‘ اس کی ذمہ داری تمام ہوئی۔ اب اگر کوئی خود ہی جگر سوزی پہ آمادہ ہو تو حکومت بے چاری کیا کرے؟
دنیا میں کچھ بے نتیجہ نہیں ہوتا۔ ہم جو کرتے ہیں، کسی انجام پہ منتج ہوتا ہے۔ اگر الہلال، کامریڈ اور انقلاب نکلتے تھے تو اس کا ایک نتیجہ نکلا۔ اگر ترجمان القرآن، طلوعِ اسلام، چٹان اور اردو ڈائجسٹ چھپتے تھے تو معاشرے نے ان کے اثرات محسوس کیے۔ اور تو اور ‘سب رنگ ڈائجسٹ‘ کا نوحہ لکھنے والے آج بھی پائے جاتے ہیں۔ جو لکھا گیا، اس نے لوگوں کو متاثر کیا۔ اور جب کچھ نہیں لکھا جا سکتا، تب بھی معاشرہ اثر قبول کرتا ہے۔ عدم کا کہنا ہے کہ جو کچھ نہیں کرتے، وہ بھی کمال کرتے ہیں۔
جہاں کچھ نہیں لکھا جاتا یا سطحی لکھا جاتا ہے، وہاں فکری بانجھ پن پیدا ہوتا ہے۔ ذہن کی زمین بنجر ہو جائے تو معاشرے ویران ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے پر قحط الرجال کا عذاب اترتا ہے۔ وہی قحط، مختار مسعود نے جسے حیاتِ بے مصرف کا ماتم کہا ہے۔ ہمارے ہاں سے ذہانتیں ہجرت کر رہی ہیں، المیہ مگر یہ ہے کہ کہیں صفِ ماتم نہیں بچھی۔ اگر کچھ ہے تو جشنِ طرب۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
لوگ کہتے ہیں امریکہ زوال کے راستے پر ہے۔ میں کبھی اتفاق نہیں کر پایا۔ جہاں دادِ تحقیق دی جا رہی ہو، آزادیٔ رائے کا چلن ہو اور دنیا بھر کی ذہانتیں، جہاں بسیرا کرنے کی آرزو کریں، وہاں کیسے زوال آ سکتا ہے۔ ہاں، مگر کوئی قوم اٹھے جو اخلاق اور تحقیق میں برتر ہو۔ مجھے تو دور دور تک کسی ایسی قوم کا سراغ نہیں مل سکا۔
یہ معاشرہ ہے جو ریاست کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ اس میں یہ وسعتِ نظر پیدا کرتا ہے کہ وہ اختلاف کا بار اٹھا سکے۔ وہ رنگا رنگی کی حوصلہ افزائی کرتا۔ پھر وہ دیدہ زیب منظر وجود میں آتا ہے جسے مجید امجد نے لفظوں میں مجسم کر دیا:
روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول
جوہڑ میں گلاب نہیں کھلتے، صرف تعفن پیدا ہوتا ہے۔ جمود کا تعفن جہاں گل و لالہ سانس نہیں لے سکتے۔ مرجھا جاتے ہیں یا کسی اور سرزمین پہ جا کھلتے ہیں۔
جہاں سانس لینا دشوار ہو، وہاں کیا لکھنا اور کیا بولنا؟ حیلوں بہانوں سے کچھ لکھ یا بول دیا جائے تو اس کی تفہیم حجاب بن جاتی ہے۔ کالم پر تبصرے پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ وہی سوال دھرائے جاتے ہیں جن کے جواب کے لیے خامہ فرسائی کرتا ہوں۔ کج فہمی پہ غصہ آتا ہے اور کم فہمی پہ ترس۔ یہ کم فہمی کے مظاہر ہیں جن سے آئے دن واسطہ پڑتا ہے۔
قصور پڑھنے والوں کا بھی نہیں۔ وہ ابوالکلام اور اقبال کے دور میں پیدا ہوتے تو ادبی و علمی معرکوں کے ذائقے سے آشنا ہوتے۔ وہ ہمارے دور میں پیدا ہوئے‘ جن کے پاس نواز شریف اور عمران خان کے سوا کوئی مضمون نہیں۔ دوستوں کا شکوہ بجا جو تنوع کا تقاضا کرتے اور پھر مایوس ہوتے ہیں۔ جب ریاست ہی موضوع ہو تو پھر تمام مضامین، اقتدار کی حریفانہ کشمکش سے پھوٹتے ہیں۔ معاشرہ زیر بحث ہو تو موضوعات بدل جاتے ہیں۔ میں پڑھنے والوں کو یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ اپنی استعدادِ مطالعہ بڑھائیں اور دوسری زبانیں سیکھیں۔ انگریزی، فرانسیسی، فارسی یا ان ویب سائٹس کو دیکھیں جو ریاستی و معاشرتی جبر سے آزاد ہیں۔ ہماری صحافت تو اہلِ سیاست میں مسیحا تلاش کرنے میں لگی ہے۔ مجھ سے مطالبہ ہو گا تو اقبال کے الفاظ میں یہی کہہ سکوں گاع
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر