منتخب تحریریں

چِت بھی میری‘ پَٹ بھی میری

Share

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں بزدار صاحب کو دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اس امدادی کارروائی کے باوجود پنجاب میں حالات دگرگوں ہی نظر آتے ہیں۔ حکومت کو چھوڑیں‘ پنجاب کے عوام کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ حکومت نالائق ہو تو اس کا فرق حکمرانوں کو نہیں عوام کو پڑتا ہے۔ حکمرانوں کا تو موج میلہ لگا رہتا ہے‘ خواہ عوام کا فالودہ بن جائے۔ فی الحال یہی صورتحال ہے۔ عوام کا برا حال ہے۔ ترقیاتی کام ڈیرہ غازی خان سے شروع ہوتے ہیں اور گھوم پھر کر ڈیرہ غازی خان میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے عزیزواقارب کے مزے لگے ہوئے ہیں۔ ایک نہایت ہی شاندار اور بے داغ سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی۔اس سے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بات ہوئی تو وہ کہنے لگا: منتخب نمائندے بہرحال عوام کے آگے جوابدہی کے خوف سے عوامی بہبود اور مفادِ عامہ کے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ‘لیکن پنجاب کے موجودہ نظامِ حکومت میں ایسی کسی جوابدہی کا خوف ہی ختم ہو گیا ہے‘ بیوروکریسی اپنے حساب سے کام چلا رہی ہے اور یہ صرف اور صرف حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے‘ ورنہ جمہوری نظامِ حکومت میں کس طرح ممکن ہے کہ سارا صوبہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس چلا رہے ہوں۔ یہ لوگ تو احکامات کے مطابق معاملات چلانے کے لیے ہوتے ہیں اور ان کی ساری تربیت اسی حساب سے کی گئی ہوتی ہے۔ انہیں صوبے کا مختارِ کل بنانے کے جو نقصانات ہیں‘ آپ لوگ ان سے ابھی آگاہ نہیں۔ بیوروکریسی کو اختیارات دیئے بغیر اس سے فرائض بارے پوچھ تاچھ ناانصافی ہے‘ لیکن اسے حد سے زیادہ اختیارات دینا بھی تباہ کن ہو سکتا ہے اور پنجاب میں غالباً یہی ہو رہا ہے۔
وہ سرکاری افسر کہنے لگا کہ اس کے ایک دوست سرکاری افسر کی دو تین بار عمران خان سے ون آن ون ملاقات ہوئی تو عمران خان نے اس سے عثمان بزدار کی کارکردگی کے بارے پوچھا۔ میرے دوست نے بتایا کہ ان میں صوبہ چلانے کی صلاحیت سرے سے موجود نہیں۔ عمران خان کہنے لگے کہ انہوں نے عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اس لیے دی کہ وہ ایک ایماندار آدمی ہے۔ اس پر اس افسر نے عمران خان سے کہا کہ آپ کو یہ غلط فہمی ہے۔ عمران خان نے حیرانی سے پوچھا: واقعی؟ تو اس افسر نے کہا کہ آپ اس بارے میں کسی بھی ایجنسی سے رپورٹ منگوا کر خود چیک کر لیں۔ عمران خان اس پر خاموش ہو گئے۔ نہ کہیں سے رپورٹ لی گئی اور نہ کچھ اور کیا گیا۔ اگر رپورٹ لی بھی گئی تو اسے شاید پھاڑ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔اب اس ساری صورتحال کے تناظر میں ہر طرف چوہدری پرویز الٰہی کی متوقع وزارت اعلیٰ کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ میں نے عرصہ پہلے اسی طرف نشاندہی کی تھی۔ تب یہ بات اس طرح عام نہیں ہوئی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی متوقع لاٹری کے امکانات‘ جو دن بدن روشن ہو رہے ہیں‘ پیدا ہونے کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ حکومت کی نااہلی اور نالائقی کا ہے‘ باقی سب چیزیں ثانوی ہیں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میں چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں اپنے دل میں ایک خاص کدّ رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کروائیں گے۔ باوجود اس کے کہ چوہدری پرویز الٰہی میں درجنوں خوبیاں ہیں‘ میرے دل میں ان کے لیے صرف اس جملے کی وجہ سے جو گرہ پڑی ہے‘ وہ کھلنے میں نہیں آ رہی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ میں بطور ایک طالب علم یہ سمجھتا ہوں کہ پنجاب پر بہترین حکمرانی کی اگر درجہ بندی کی جائے تو چوہدری پرویز الٰہی کا دورِ حکومت پہلے نمبر پر آئے گا کہ اس دور میں پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں بہت ترقیاتی کام ہوئے۔ کئی شاندار ادارے ترتیب پائے اور سیاست میں انتقامی کارروائیوں کا باب بند ہوا۔میرے تجزیے کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی اوسط درجے کے آئی کیو کے مالک ہونے کے باوجود ایک بہترین وزیر اعلیٰ کے طور پر سامنے آئے۔ ان کا خیال آتے ہی مجھے اپنے سکول کا کلاس فیلو شریف یاد آ جاتا ہے۔ بالکل درمیانے درجے کا طالب علم‘ بلکہ کسی حد تک نالائقوں میں شمار ہونے والا سٹوڈنٹ۔ بمشکل پاس ہوتا تھا‘ لیکن حساب میں ہمیشہ کلاس میں اول آتا۔ شاید ہی کبھی سو میں سے سو سے کم نمبر لیے ہوں۔ اردو جیسے آسان مضمون میں بھی کبھی چالیس سے اوپر نمبر نہ لیتا تھا‘ مگر حساب میں‘ کلاس میں اول آنے والے مقصود لالہ سے زیادہ نمبر لیتا تھا۔ بعض خوبیاں خدا داد ہوتی ہیں اور ان کا آپ کی مجموعی دانش اور ذہانت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ یہی حال چوہدری پرویز الٰہی کا ہے۔ تحمل‘ بردباری‘ مروت اور مہمانداری تو شاید چوہدری ظہور الٰہی کے گھر سے جڑی ہوئی روایات کا حصہ ہے‘ لیکن سیاسی مستقبل بینی‘ دور رس منصوبہ بندی‘ گروپ سازی اور مناسب وقت تک انتظار کرنا اور صبر سے موقع کی تلاش میں رہنا چوہدری پرویز الٰہی اینڈ کمپنی کی وہ خوبیاں ہیں جو انہیں سیاست میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی ذات میں وہ کرشمہ سرے سے موجود نہیں جو انہیں عوامی سطح پر مقبول لیڈر بنا دے اور عوام انہیں قومی سطح پر کسی سیاسی لیڈر کے طور پر قبول کر لیں۔ وہ میاں نواز شریف‘ بلاول بھٹو یا عمران خان کی طرح کوئی مقبول یا کرشماتی لیڈر نہ تو فی الوقت ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسا امکان ہے۔ وہ عام آدمی کے لیڈر نہیں‘ تاہم منتخب نمائندوں کو اکٹھا کرنے‘ گھیرنے اور گروپ بنانے میں یقینا یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اور ان کی پاکستانی سیاست میں مستقل موجودگی انہی اوصاف کے باعث ہے۔
اگر انہیں ”اوپر‘‘ سے نامزد کر دیا جائے تو اکثریتی ووٹ اکٹھے کرنے کے فن سے ایسے آگاہ ہیں کہ بہت کم لوگ ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ بلکہ فی الوقت اگر پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ کسی اور کو نامزد کر دیا جائے تو اسے مطلوبہ ووٹ ملنا ممکن ہی نہیں۔ اس وقت جناب عثمان بزدار کو پنجاب اسمبلی کی تین سو اکہتر نشستوں میں سے ق لیگ کی دس اور چار آزاد نشستیں ملا کر کل 195 ارکان کی حمایت حاصل ہے‘ یعنی نصف سے محض نو ووٹ زیادہ ہیں۔ اگر ق لیگ کے دس ووٹ نکل جائیں تو پنجاب حکومت کا ویسے ہی دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ صرف چوہدری پرویز الٰہی ہی ایسے نامزد امیدوار ہو سکتے ہیں‘ جنہیں نہ صرف یہ کہ یہ والے 191 ووٹ مل سکتے ہیں‘ بلکہ وہ مسلم لیگ ن میں ”سیندھ‘‘ لگا کر اور اپنی روایتی ملنساری اور دوست نوازی کا کارڈ استعمال کرکے دس بارہ ووٹ مزید بھی توڑ سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر وہ بے شک زیادہ ووٹ نہ لے سکیں‘ لیکن منتخب ارکان کو ”بول بچن‘‘ لگا کر سمیٹنے میں وہ جہاز نہ ہونے کے باوجود جہانگیر ترین والی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔
یہ پنجاب اسمبلی کے پی ٹی آئی کے بیس ارکان والے فارورڈ گروپ کا کیا معاملہ تھا؟ یہ دراصل عثمان بزدار کے سلب شدہ اختیارات کی بحالی کیلئے بنایا گیا پریشر گروپ تھا‘ جسے یہ گلہ تھا کہ بیوروکریسی ان کے کام نہیں کر رہی۔ اس بیوروکریسی سے مراد اختیارات کے حامل چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب ہی ہو سکتے ہیں۔ اس گروپ کے پیچھے پنجاب کے سینئر وزیر کا دماغ کام کر رہا تھا۔ پی ٹی آئی کے سارے ارکانِ صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز مل چکے ہیں اور ان فنڈز کا مطالبہ قطعاً غیر ضروری تھا‘ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ اب وہ سارے ”کھانچے‘‘ بند ہو گئے تھے‘ جو وزیر اعلیٰ کی چھتری تلے لگائے جا رہے تھے‘ اور ان بیس ارکان کے پریشر گروپ کے ذریعے وزیر اعظم کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اگر صوبے کے معاملات دوبارہ وزیر اعلیٰ کے حوالے نہ کیے گئے تو حکومت کو خطرہ ہے۔ یہ گروپ دراصل عثمان بزدار بحالی پروگرام کے تحت قائم ہوا تھا اور فی الحال اپنے مقاصد میں کسی حد تک کامیاب ہے۔ چوہدریوں کو بھی فی الحال بزدار وارے کھا رہے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے چوہدری صاحب کی بیوروکریسی پر مکمل گرفت ہے کہ تعلقات نبھانا چوہدریوں پر ختم ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے چوہدری پرویز الٰہی کا راستہ مزید صاف ہو رہا ہے اور اگر کوئی تبدیلی آتی یا لائی جاتی ہے تو مطلوبہ ووٹ چوہدری صاحب کے علاوہ اور کوئی اکٹھے نہیں کر سکتا۔ سو‘ یوں سمجھیں ”چِت‘‘ بھی چوہدری کی ہے اور ”پَٹ‘‘ بھی؛ بشرطیکہ چوہدری نثار علی خان کا سکائی لیب اچانک نہ آ گرے۔