کالم

ناروے میں چند روز (آخری قسط)

Share

اوسلو کانفرنس اپنی تمام تر ہنگامہ خیزی کیساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ لب لباب اس علمی اجتماع کا یہ تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا معاملہ مشکلات کا شکار ہے۔دنیا کے مختلف خطوں سے آئے صحافی، پروفیسر اور دیگر احباب اپنے اپنے ملکوں میں صحافت اور صحافیوں کو درپیش مصائب کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ ڈیجیٹل میڈیا (خاص طور پر سوشل میڈیا) کی آمد کے بعد جہاں صحافیوں اور عام شہریوں کے لئے اظہار رائے کے دروازے کھلے ہیں۔ وہاں انکی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گالی گلوچ کرنے والے آن۔لائن جتھے صرف پاکستان میں ہی بروئے کار آتے ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ کچھ دیگر ممالک میں بھی سوشل میڈیائی لشکرموجود ہیں۔ برازیل سے آئے ایک صحافی نے تفصیلا بتایا کہ وہاں بھی ایسے جتھوں کو حکومتی آشیر باد حاصل ہے۔ ڈیوٹی انکی یہ ہے کہ مخالف نکتہ نظر کے حامل صحافیوں کو گالیاں دی جائیں، انہیں ہراساں کیا جائے اور بدنام کر کے انکی ساکھ مجروح کی جائے۔ میں نے اسے بتایا کہ پاکستان میں بھی ہم اس معاملے میں کافی خود کفیل ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ سیاسی جماعتوں نے بطور خاص آن۔لائن لشکر پال رکھے ہیں۔ جو مخالفین کو دن رات گالیوں سے نوازتے ہیں۔ حسب ضرورت کفر کے فتوے عائد کرتے اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے پھرتے ہیں۔ ان لشکروں کی تقلید میں، اس جماعت کے سیاسی پیروکار بھی اسی زبان میں اظہار خیال فرماتے ہیں۔
کانفرنس کے آخری دن میری ملاقات بنگلہ دیشی پروفیسر مبشر سے ہوئی۔ انہیں میرا پیش کردہ تحقیقی مضمون پسند آیا تھا۔ہم دونوں کھانے کے دوران کافی دیر تک پاکستان اور بنگلہ دیش کے میڈیا کے احوال کا تذکرہ کرتے رہے۔ بنگلہ دیشیوں سے ملنا مجھے ہمیشہ عجیب سے احساس سے دوچار کرتا ہے۔ مجھے خیال آتا ہے کہ یہ لوگ کبھی پاکستانی شہری ہوا کرتے تھے۔ آج یہ بنگلہ دیشی کہلاتے ہیں۔ پاکستان کے وجود سے جنم لینے والا (بلکہ نوچے جانے والا) یہ ملک کبھی ہمارا حصہ ہوا کرتا تھا۔ سنتے ہیں کہ آج یہ ملک میرے ملک پاکستان سے آگے نکل چکا ہے۔ اسکی کرنسی، پاکستان کی کرنسی سے ذیادہ قدر کی حامل ہے۔ اسکی مصنوعات دنیا بھر کے مختلف سٹوروں میں رکھی نظر آتی ہیں۔ اسکا سالانہ تعلیمی بجٹ، پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے ذیادہ ہے۔ فیض احمد فیض نے1974 میں ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا اور واپسی پر اپنی مشہور نظم لکھی تھی۔۔۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد۔۔ جب بھی کسی بنگلہ دیشی سے ملاقات ہوتی ہے فیض کی شاعری میرے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے۔ فیض نے لکھا تھا کہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔۔۔۔ وہ دھبے تو خیر کیا دھلتے۔ ہم تو بڑی محنت کیساتھ لہو کی نئی فصلیں بونے اور انکی آبیاری میں مصروف رہے (اور اب بھی ہیں)۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ آمین۔
کانفرنس میں دو فلسطینی پروفیسروں سے مل کر اچھا لگا۔نجانے کیوں فلسطینیوں سے مجھے خاص انسیت محسوس ہوتی ہے۔کچھ برس پہلے تک میرا تاثر تھا کہ فلسطین میں چونکہ دہائیوں سے تحریک آزادی برپا ہے، وہاں شرح خواندگی کافی کم ہوگی۔ کچھ برس پہلے ترکی میں ایک فلسطینی نوجوان پروفیسر عبدالوائیل سے ملاقات ہوئی۔ وہ انگلینڈ کی ایک نامور یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا۔ اس کے توسط سے مجھے معلوم ہوا کہ فلسطین میں شرح خواندگی بہت ذیادہ ہے۔ بیشتر فلسطینی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔فلسطینی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ میرے لئے یہ باتیں نئی تھیں اور حیران کن بھی۔ بہرحال اوسلو میں ملنے والے پروفیسروں سے میں فلسطین کا احوال سنتی رہی۔ یہ سطریں قلمبند کر رہی ہوں تو مجھے اس فلسطینی لڑکی کا خیال آرہا ہے۔ جو ابھی چند دن پہلے مجھے مسجد نبوی ﷺ میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے ملی تھی۔ہم لوگ روضہ مبارک ﷺ کی طرف کا دروازہ کھلنے کے منتظر تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ لڑکی فلسطینی ہے تو میں اس سے باتیں کرنے لگی۔وہ انگریزی کی استاد تھی۔ میں نے عبدلوائیل سے سنی گئی باتوں کی تصدیق چاہی تو اس نے بتایا کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے پاس تعلیم حاصل کر نے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ تعلیم ہمارا ہتھیار ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کا بھی۔ روضہ رسول ﷺ کی طرف چلتے چلتے ہم دونوں نے با آواز بلند دعا کی تھی کہ اللہ پاک کشمیر، فلسطین، شام، برما اور دنیا بھر کے مظلوم و مقہور مسلمانوں پر رحم فرمائے اور انہیں ظالموں سے نجات دے۔ آمین

مزید پڑھئیے:

 ناروے میں چند دن (قسط 1)

 ناروے میں چند دن (قسط 2)

 ترک پروفیسر طیب اردگان کے ذکر پر کیوں ہنسنے لگے؟ (قسط 3)

 ناروے میں نواز شریف یاد آئے۔۔! (قسط 4)

ناروے میں چند روز (قسط 5)

کانفرنس ختم ہوئی تو میں تھون ہوٹل سے سکین ڈیک ہوٹل میں اٹھ آئی۔ یہ ایک پنج ستارہ ہوٹل تھا۔ کمرے کیساتھ ایک بالکونی بھی تھی۔ جس سے اوسلو شہر دکھائی دیتا تھا۔جب بھی میں دروازہ کھول کر بالکونی میں آتی، برفباری جاری ہوتی۔ وہاں پڑی کرسیاں اور میز سفید برف سے ڈھکے رہتے۔ ان کرسیوں پر بیٹھنا میرے نصیب میں نہیں تھا۔ میں گھنٹوں بالکونی میں کھڑی، شہر کا نظارہ کرتی۔ برف مجھ پر گرتی رہتی۔ ہر بار مجھے خدا کی قدرت کا خیال آتا۔ میں سوچتی کہ اس ہوٹل کی بالکونی میں، مجھ پر اوسلو کی برف کا برسنا میرے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔ وگرنہ میں کیونکر یہاں پہنچ سکتی تھی۔
پاکستان روانگی سے ایک دن قبل ثاقب اور حسیب صبح سے رات گئے تک مجھے شہر گھماتے رہے۔ حسیب لاہور کی ایک نجی جامعہ میں زیر تعلیم ہے۔ وہ ایک سمسٹر پڑھنے کے لئے اوسلو میں مقیم تھا۔ دیہاتی پس منظر کا حامل، ذہین اور مودب حسیب پاکستان کی سیاست پر بات کرتا رہا۔ اس دن ہم ایک کشتی (Ferry) میں سوار ہوگئے۔بیشتر سیاح ایک جزیرے پر اترے تو ہم بھی سوچے سمجھے بغیر انکے پیچھے ہو لئے۔ سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہم تینوں نے کئی گھنٹے وہاں گزارے۔ اس دن میں نے سویڈن جانے کی تیاری کر رکھی تھی۔ آخری وقت پر میں نے یہ پروگرام منسوخ کیا تھا۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ثابت ہوا۔ ورنہ میں اس خوبصورت جزیرے کی سیاحت سے محروم رہ جاتی۔ اس جگہ پر ہم نے ڈھیروں تصاویر لیں۔ سچ یہ ہے کہ وہاں گھومتے پھرتے مجھے رب کی قدرت یاد آتی رہی۔ جہاں جہاں میرے قدم پڑتے، مجھے خیال آتا کہ یہاں قدم رکھنا میرے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔ مجھے یہ خیال بھی آتا رہا کہ میرے رب کی قدرت اور اسکی عطا کردہ ایسی خوبصورتی پاکستان میں بھی موجود ہے۔ فرق صرف انتظامی ڈھانچے (Infrastructure)کا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ سڑکیں، شاہراہیں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر ات کو میرے ملک کی سیاست میں گالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے ثاقب اور حسیب سے کہا کہ فقط سہولیات کا فقدان ہے، ورنہ ہمارا ملک پاکستان کسی اوسلو سے کم نہیں۔ حسیب نے اپنے موبائل پر مجھے اپنے گاوں (پیڑہ فتحال، تلہ گنگ) کی تصاویر دکھائیں۔ وہی خوبصورت آسمان، وہی سبزہ، وہی پرسکون موسم، میں نے اسے کہا کہ تمہارا گاوں بھی بالکل اوسلو جیسا معلوم ہوتا ہے۔ میں سوچتی رہی کہ میرے ملک میں جگہ جگہ اوسلو جیسے مقامات ہیں۔ جنہیں ہم نے اپنی غفلت اور نااہلی کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں سیاحت پر توجہ دیں۔ اور سیاسی بغض کا شکار ہو کر شاہراہوں، موٹرویز، اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو گالیاں دینے کے بجائے، ان منصوبوں کا جال ملک بھر میں پھیلا دیں تو نا صرف مقامی لوگ بلکہ دنیا بھر سے سیاح پاکستان کا رخ کرنے لگیں گے۔
ناروے سے واپسی پر بھی میں اپنے ملک کے بارے میں سوچتی رہی۔ مجھے خیال آتا رہا کہ کاش میرا ملک بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرئے۔ کاش میرے ملک کو بھی شعبدہ بازوں سے نجات ملے۔ کاش میرے ملک میں بھی آئین اور جمہوریت کا بول بالا ہو۔ یہی باتیں سوچتے ہوئے، میں اوسلو سے قطر تک آن پہنچی۔ دوحہ ائیر پورٹ پر میں، ا پنی سوچوں میں غلطاں، اگلی فلائیٹ کیلئے لائن میں گھڑی تھی کہ عقب سے سلام کی آواز آئی۔ ایک نوجوان آگے بڑھا اور نہایت ادب سے ملا۔کہنے لگا کہ میں آپکا شاگرد تیمور ہوں۔ میں نے اسے تھپکی دی اور کہا کہ بالکل مجھے یاد ہے۔ ایک بار پھر محسوس ہوا کہ دنیا کچھ ذیادہ ہی سمٹ چکی ہے۔ تیمور اٹلی سے واپس آ رہا تھا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد نہایت پرجوش انداز میں کہنے لگا آپکو اپنی شاگرد اور میری کلاس فیلو (وردہ) یاد ہے؟ پھر موبائیل پر تصاویر دکھا کر کہنے لگا کہ امتحانات کے فوری بعد ہم نے شادی کر لی تھی۔ میں نے اسے مبارکباد دی (اور شاباش بھی)۔ لاہور ائیر پورٹ پر پہنچ کر میں اپنے سامان کا انتظار کر رہی تھی کہ تیمور نے مجھے کال کی کہ وہ اور وردہ باہر گیٹ پر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ سامان لے کر باہر نکلی تو وہ دونوں منتظر تھے۔دونوں کو اکھٹے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ اسکے بعد وہ دونوں رخصت ہوئے اور میں نے بھی گھر کی راہ لی۔ یوں یہ خوبصورت سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔