فواد حسن:ایک بار جس کا دل میں نے بھی دکھایا تھا
اگر آپ کا کوئی دوست یا عزیز پولیس میں ہے اور ایک دن وہ اپنی وردی اور سرکاری گاڑی میں آپ سے ملنے آپ کے گھر آتا ہے تو نوٹ کیجئے گا کہ محلے داروں کی کتنی مشکوک نگاہیں آپ کے گھر کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ ہم نے طے کیا ہوا ہے کہ جس دروازے پر پولیس موجود ہوگی وہاں یقیناً کوئی نہ کوئی جرم ہوا ہوگا۔ یہ معاملہ اگر پولیس سے بڑھ کر ایف آئی اے یا اس سے بھی آگے نیب کا ہو تو شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد بھلے ملزم کی ضمانت ہو جائے، بےگناہ قرار پا جائے، معاشرہ اسے قبول کرنے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کا شکار رہتا ہے۔ اسی صورتحال کے بارے میں فلموں کا وہ مشہور ڈائیلاگ یاد آتا ہے جس میں پانچ سال بعد ملزم کو بےگناہ قرار دینے کے بعد جب رہا کیا جاتا ہے تو وہ انتہائی دُکھی دل کے ساتھ پوچھتا ہے ’جج صاحب میرے پانچ سال کون واپس کرے گا‘۔ فواد حسن فواد کی اگرچہ صرف ضمانت ہوئی ہے لیکن اس شاعر صفت شخص کو دورانِ حراست جس اذیت اور جملے بازیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے بعد کیا وہ زندگی بھر سکون سے سو سکے گا؟ کبھی یہ مشہور کرایا گیا کہ وہ روز روتا ہے اور تفتیش کاروں کے پاؤں پڑتا ہے۔ کبھی بتایا گیا کہ وہ وعدہ معاف گواہ بننے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ کبھی یہ بریکنگ نیوز چلوائی گئی کہ اس سے مزید کروڑوں برآمد کر لیے گئے ہیں اور پھر یہ خبر اخباروں کی ہیڈنگ بنی کہ لاہور ہائیکورٹ نے فواد حسن فواد پر چاروں الزامات مسترد کردیے، ناجائز اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس محمد طارق عباسی اور جسٹس چوہدری مشتاق احمد پر مشتمل بنچ نے اپنے تفصیلی حکم نامے میں کہا کہ نیب نے فواد حسن فواد کی جائیداد کی قیمت 50کروڑ بتائی لیکن ریفرنس میں مالیت 7کروڑ 85لاکھ روپے نکلی۔ الزام تھا کہ فواد حسن فواد کی اہلیہ رباب حسن، بھائی وقار حسن اور سالی انجم حسن، فہمیدہ یعقوب وغیرہ جو کنسٹرکشن کمپنی FYCکے مالکان ہیں، کی ملکیت ’دی مال‘ راولپنڈی کی مالیت 5ارب روپے ہے جس کے ساتھ فواد حسن فواد کا گٹھ جوڑ ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ پھر فواد حسن فواد پر یہ الزام بھی تھا کہ ان کے 14بینک اکاؤنٹس ہیں لیکن ریفرنس میں اس حوالے سے بھی خاموشی طاری ہے۔ خبر کے مطابق عدالت نے کہا کہ نیب اپنے الزام کے حق میں کوئی ثبوت دینے میں ناکام رہا۔ ججز کے مطابق ایک طرف تو حقائق اور حالات یہ ہیں اور دوسری طرف فواد حسن فواد کو کیس میں کسی پیشرفت کے بغیر 19ماہ قید بھگتنا پڑی حتیٰ کہ فواد حسن اور شریک ملزم پر فردِ جرم بھی عائد نہیں ہوئی۔
فواد حسن کی ضمانت تو ہو گئی لیکن کیا یہ اتنا ہی آسان ہے کہ کسی کو بغیر ٹھوس ثبوت 19ماہ کیلئے اذیت خانے میں ڈال دیا جائے۔ جو لوگ فواد حسن فواد کو جانتے ہیں ان کے علم میں ہوگا کہ یہ کتنا شفاف مزاج رکھتا ہے۔ نظمیں، غزلیں کہنا اس کا شوق تھا جسے سرکاری ملازمت کھا گئی تھی لیکن قید وبند کی صعوبتوں نے اس کے اندر کے شاعر کو بیدار کردیا۔ اس کی شاعری کے حوالے سے برادرم عرفان صدیقی پہلے سے کالم لکھ چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک روشن اور متحرک دماغ سرکاری افسر کے 19مہینے ملیامیٹ کرنے کا مدعا کس کے سر ڈالا جائے؟ یہ 19ماہ اُس کے اہلِ خانہ پر کیسے گزرے، اولاد کس کرب سے گزری، خود وہ کس بھونچال میں رہا…کوئی نہیں جانتا۔ یہاں الزام لگانا سب سے آسان کام ہے۔ چٹکیوں میں کسی کی عزت کا کباڑا کیا جا سکتا ہے۔ ذلت کا ایک ڈائنامائٹ لگا کر کسی بھی دشمن کو تہ ِ تیغ کیا جا سکتا ہے لیکن دوبارہ سے پہلے والی شکل نہیں دی جا سکتی۔ ہم لوگ جو اپنے ایک ایک پل کا حساب رکھتے ہیں، ہر لمحے سے مقصد کشید کرنا چاہتے ہیں۔ ہر دن کی پلاننگ کرتے ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ ہماری زندگیوں سے بلاوجہ چند روز نکال دیے جائیں جن پر بھرپور اختیار کے باوجود ہمارا کوئی اختیار نہ ہو۔ ذرا سوچیے کہ ہمیں 19ماہ کیلئے جیل میں نہ سہی، اپنے گھرمیں ہی نظر بند کردیا جائے تو کیسا محسوس ہوگا؟ صرف یہی نہیں بلکہ باہر کی دنیا میں ہمارے بارے میں ڈھیروں جھوٹ پھیلائے جا رہے ہوں جن کے بارے میں ہمیں سچ جاننے کے باوجود کچھ بولنے کی اجازت نہ ہو۔ یہ سب کچھ فواد حسن فواد جیسے بہادر شخص نے برداشت کیا ہے۔ ہارے ہوئے لشکر کا یہ بہادر شخص آج بھی چٹان کی طرح اپنے موقف پر قائم ہے۔ اگرچہ ابھی اس کی صرف ضمانت ہوئی ہے لیکن اس ضمانت سے بھی آگے کا روشن منظر نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ بدترین میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرائل، رسوائی آمیز سلوک اور بےتحاشا ذہنی اذیت ملنے کے باوجود اگر کوئی شخص نہایت حوصلے کے ساتھ اس مقام پر پہنچتا ہے کہ جہاں وہ سچائی کی طاقت سے بھاری بھرکم دشمن کو بھی زچ ہونے پر مجبور کردیا ہے تو مان لیجئے کہ ایک طاقت اور بھی ہے جو کمزور اور بےبس کے ساتھ آن کھڑی ہوتی ہے اور پھر دُنیا کی ساری چالیں، ساری مکاریاں، ساری عیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت فواد حسن فواد کے 19ماہ واپس نہیں کرسکتی لیکن میری دعا ہے کہ اِس عرصے کا کرب اُس کی باقی زندگی میں ایسا شہد گھولے کہ لوگ اس کی مثال دیا کریں۔