عالمی ادارہ صحت: ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کو عالمی ایمرجنسی قرار دے دیا
چین کے علاوہ دیگر ممالک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر عالمی ادارہِ صحت ڈبلیو ایچ او نے اسے ایک عالمی ایمرجنسی قرار دے دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے چیف ٹیڈروس ایدھینوم کا کہنا تھا ’اس اعلان کی وجہ وہ نہیں جو چین میں ہو رہا ہے بلکہ دیگر ممالک میں ہونے والے واقعات ہیں۔‘
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ وائرس ایسے ممالک میں پھیل سکتا ہے جہاں طبی نظام قدرے کمزور ہیں۔
چین میں اب تک اس وائرس کی وجہ سے 170 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق چین کے باہر اس وائرس کے 98 کیسز سامنے آ چکے ہیں تاہم ابھی تک کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر کیسز ایسے افراد کے ہیں جو کہ چین کے شہر ووہان سے سفر کر کے آئے ہیں جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا۔
مگر ان کے علاوہ جرمنی، جاپان، ویتنام، اور امریکہ میں اس وائرس کے انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ڈاکٹر ٹیڈروس ایدھینوم نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اس وائرس کی وبا ایک بے مثال انداز میں پھیلی اور اس کا پھر ایک بے مثال انداز میں مقابلہ کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے چینی حکام کی اس کی روک تھام کے لیے کی گئی کوششوں کو بہترین قرار دیا۔
انھوں نے کہا ’میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ اعلان چین پر عدم اعتماد کا ووٹ نہیں ہے۔‘
پاکستان کا ووہان سے اپنے شہریوں کو نہ نکالنے کا اعلان
اس سے قبل پاکستان کے وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ چین کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کے تناظر میں پاکستان نے ووہان سے اپنے شہریوں کو نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیر مملکت نے بتایا ’عالمی ادارہ صحت نے تمام صورتحال کے تناظر میں یہ تجویز دی ہے کہ چین سے لوگوں کو باہر نہ نکالا جائے۔ اگر ہم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے وہاں سے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیں تو یہ وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گی۔‘
وزیر مملکت نے واضح کیا ’ہم چین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی صحت کے لیے چین نے جو پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں اس کا احترام کریں اور اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جائیں۔
’اس وقت ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمارے پیاروں کو جو کہ چین میں ہیں ان کے حق میں یہ سب سے بہتر ہے۔ اور خطے، ملک اور دنیا کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ ہم انھیں اس وقت وہاں سے نہ نکالیں۔ یہی عالمی ادارہ صحت بھی کہہ رہا ہے۔ یہی چین کی پالیسی بھی ہے اور یہی ہماری پالیسی بھی ہے، ہم چین کے ساتھ مکمل یگانگت کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
انھوں نے امریکی سفارتکاروں کو ووہان سے نکلنے کی اجازت ملنے پر کہا کہ ویانا کنوینشن کے مطابق یہ سفارتکاروں تک محدود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔
اس موقع پر انھوں نے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے چار پاکستانیوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی صحت بہتر ہے۔
’ان طلبا نے ہم سے خود درخواست کی ہے کہ ہمارے خاندان کے بارے میں میڈیا میں کوئی بات نہ کریں اس لیے میں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کروں گا۔‘
غیر رجسٹرڈ طلبا کو فوری پاکستانی سفارتخانے کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کی ہدایت
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق حکومت نے پاکستانیوں کی سہولت کے لیے چین کے ساتھ مل کر ایک ہائی پاور ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ چین کے سفارتخانے کے ساتھ مل کر پاکستانی طلبا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’چین میں موجود جو پاکستانی طلبا سفارتخانے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں انھیں فوری طور پر رجسٹرڈ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘
نامہ نگار فرحت جاوید کے مطابق اس سوال پر کہ حکومت پاکستان دیگر ممالک کی طرح چینی صوبہ ووہان میں موجود اپنے شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیوں نہیں کر رہی، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ جن ممالک کی جانب سے اپنے شہریوں کو متاثرہ علاقے سے نکالنے کی خبریں آ رہی ہیں وہ ابھی صرف بات چیت کر رہے ہیں، پاکستان بھی اپنے شہریوں کے حق میں بہتر اقدامات کرے گا۔
واضح رہے کہ جاپان نے 29 جنوری کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعے چین میں پھنسے اپنے 206 شہریوں کو واپس ٹوکیو بلا لیا ہے جبکہ 400 سے زائد مزید شہریوں کو چین کے متاثرہ صوبے ووہان سے نکالنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
جبکہ امریکہ نے بھی چین سے اپنے 201 شہریوں جن میں زیادہ تر سفارتکار اور ان کے اہلخانہ ہیں کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعے امریکی ریاست کیلیفورنیا واپس بلا لیا ہے۔
وزارت خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’چین کے علاقے ارومچی سے ہمیں پروازیں لیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو مشکلات کی اطلاعات ملی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چین میں موجود پاکستانی شہریوں کی فلاح کے لیے جو بھی بہتر اقدامات ہوں گے وہ ہی اٹھائے جائیں گے، اور جہاں خوراک کی قلت سمیت دیگر مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لیے چین سے رابطے میں ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اقدامات کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے متعلق چینی حکومت نے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے ہیں جن کی پاکستان مکمل حمایت کرتا ہے اور اس سلسلے میں چین کو درکار ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ چینی حکومت کے اس وائرس کی روک تھام کی لیے گیے گئے اقدامات پر پوری دنیا ان کی معترف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کا بارڈر معمول کے مطابق اپریل میں کھلے گا۔
’ہر جانب ایک ہی خوف ہے‘
وزارت خارجہ کی جانب سے دیے گئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے دوسری جانب فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی طالب علم میرال جاوید، جو اس وقت چین کے شہر ووہان میں موجود ہیں، نےکہا کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کورونا وائرس کے ایشو پر بات کی ہے اس کی معلومات ان کے پاس پاکستان طلبا کے چیٹ گروپس کے ذریعے پہنچی ہیں لیکن زیادہ تر طلبا ان کے بیانات پر انحصار نہیں کرتے۔‘
چین کی زوہانگ ایگری کلچر یونیورسٹی ووہان میں پڑھنے والی میرال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’پورے ووہان شہر میں ایک ہفتہ سے مکمل ناکہ بندی ہے، ہم باکل بھی باہر نہیں جا سکتے۔ حتٰی کہ یونیورسٹی سے بھی باہر نہیں جا سکتے ہر جانب ایک ہی خوف ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’جب سے چار پاکستانی طلبا میں کروونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اس کے بعد ہم میں خوف اور بھی بڑھ گیا ہے کہ کہیں ہم بھی اس کا شکار نہ ہو جائیں۔‘
میرال جاوید نے بتایا کہ جو صورت حال ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں دکھائی جا رہی ہے، اصل صورت حال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے۔
‘شہر میں کھانے پینے کو کچھ مل نہیں رہا، یہاں تک کہ سڑک پر آپ چل بھی نہیں سکتے۔ صورت حال بہت سنگین ہے۔‘
انھوں نے بتایا ’یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم لوگ اطمینان رکھیں اور باہر نہ جائیں۔ ویسے بھی ہماری یونیورسٹی کے تمام گیٹس پر تالے لگے ہوئے ہیں ہم کہیں باہر نہیں جا سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر پاکستانی طالبعلموں کی تعداد 500 بتائی جا رہی ہے جو درست نہیں۔ ووہان میں پاکستانی سٹوڈنٹ ایک ہزار سے زائد ہیں۔ جن کے گھر والے پاکستان میں مسلسل پریشان ہیں۔
میرال جاوید نے بتایا ’ان کا پاکستان میں اپنے گھر والوں سے مسلسل رابطہ ہے لیکن وہ تمام لوگ بھی اس صورتحال پر پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم جلد از جلد گھر واپس آ جائیں۔ لیکن ہمیں یہ خوف ہے کہ اگر ہم میں سے کسی ایک کو بھی یہ وائرس ہوا تو پاکستان جانے کی صورت میں وائرس منتقل نہ ہو جائے تو وہاں بھی صورت حال خراب ہو جائے گی۔‘
میرال کا کہنا تھا ’ہم پورا پورا دن اپنے کمرہ میں رہتے ہیں اورصرف کھانا پکانے کے لیے کمرے سے باہر جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’پاکستان سفارتخانے کی جانب سے فی الحال کوئی خاص سہولت نہیں دی گئی جب بھی ہم ان سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ اطمینان رکھیں ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔‘
انھوں نے بتایا ’پاکستانی سفارتخانے کے حکام کہتے ہیں کہ ہم بیجنگ میں ہیں اور آپ ووہان میں، ہم آپ کی یونیورسٹی سے رابطہ میں ہیں لیکن وہ یونیورسٹی سے براہ راست بات نہیں کرتے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہماری یونیورسٹی میں 180 پاکستانی طلبا ہیں جو یونیورسٹی انتظامیہ سے خود ہی بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ پہلے کھانے پینے کا مسئلہ تھا مگر اب یونیورسٹی انتظامیہ اور انٹرنیشنل آفس کی جانب سے ہر سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔