عام آدمی تھانوں کے چکروں میں پڑ جائے تو عموماً تھپڑ پہلے پڑتا ہے سوال بعد میں پوچھا جاتا ہے۔ بیشتر پاکستانیوں کو محکمہ مال سے واسطہ پڑے تو مناسب بخشش کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ بہتّر سال میں پاکستانی قانون اور آئین عوام کی بھاری اکثریت کو حالات کے جبر سے بچا نہیں سکے۔ جمہوریت اگر ملک میں ہے تو ایک عام شہری کو اُس کا کیا فائدہ؟
دیگر ممالک کی تھیوریوں کو چھوڑئیے۔ پاکستان میں ریڑھی بان، ٹھیلے والے، مزدور اور عام کسان کیلئے جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جمہوریت کا سورج طلوع ہو یا ڈھل جائے اس سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے ہاں جمہوریت ایک مڈل کلاسیہ عیاشی ہے۔ جمہوریت کی آزادیاں کچھ طبقات کیلئے معانی رکھتی ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی، آزاد میڈیا اور دیگر ایسے لوازمات کا عام آدمی کی زندگی سے تعلق واجبی سا ہے۔ سوشل میڈیا کے چرچے ضرور ہیں۔ کسی زیادتی کا ارتکاب سوشل میڈیا پہ آ جائے تو کچھ فرق پڑتا ہے لیکن اس کو بھی سیاق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔ نقیب اللہ محسود کا قتل موضوعِ سوشل میڈیا بنا۔ ساہیوال سانحہ بھی سوشل میڈیا پہ آیا لیکن اس سے کتنا فرق پڑا؟ جرم کرنے والوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا اتنا ہی طاقتور ہے تو محکمہ مال کی رشوت اور پولیس سے منسوب مختلف کارنامے ختم ہو جائیں‘ لیکن کیا ایسا ہوا ہے؟ وقتی طور پہ اُبھار ضرور ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ نتائج کم ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ رہی سہی جمہوریت کا بستر گول کیا جائے اورجمہوریت کی ناپختگی کو جمہوریت کے خاتمے کا جواز سمجھا جائے‘ لیکن اتنی بات تو بنتی ہے کہ شخصی آزادیاں محدود ہوں تو جمہوریت کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاں جس جمہوریت کو مڈل کلاسیے روتے ہیں‘ وہ محدود اور سطحی قسم کی جمہوریت ہے۔ اس سے بیشتر آبادی کا لینا دینا نہیں ہوتا‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں محدود شخصی آزادیوں کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ فرسودہ قوانین خاص طور پہ وہ جو جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں نافذ کیے گئے کو ختم کر دیا جائے۔ جو قدغنیں معاشرے پہ تب لگیں وہ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں نہیں ملتیں۔ یہ دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جو اپنے آپ کو جمہوری بھی کہتا ہے اور جہاں شخصی نوعیت کی آزادیاں بھی اتنی محدود ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ایک تو معاشرے میں منافقت کا رواج بہت مضبوط ہو چکا ہے کیونکہ کئی سماجی روشیں جو دیگر معاشروں میں عام یا نارمل سمجھی جاتی ہیں یہاں چھپ چھپا کے یا پردے کے پیچھے کرنا پڑتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ معاشرے کا عمومی مزاج ایک جھجک اور ڈر والا بن گیا ہے۔ بالائی طبقات میں یہ چیز نظر نہیں آئے گی۔ اُن کی زندگیاں مختلف ماحول میں گزرتی ہیں لہٰذا اُن کی عام زندگی میں وہ جھجک نظر نہیں آتی جو پاکستان کے نچلے طبقات کا مزاج ہو چکا ہے۔ اِس بات کو واضح کرنے کیلئے کیا مثال دی جائے؟ ہمارے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جو لوگ کام کرتے ہیں جنہیں ہم ویٹر کہتے ہیں اُن پہ تھوڑا رعب جمایا جا سکتا ہے۔ تھوڑی ڈانٹ بھی وہ کھا لیتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، یورپ حتیٰ کہ مشرقی یورپ کے ممالک میں یہ ناممکن ہے۔ جس لہجے میں یہاں نچلے طبقات سے گفتگو کی جاتی ہے اُن معاشروں میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ فرق اسی لیے ہے کہ ہمارے نچلے طبقات ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔ پولیس سے ڈر، تھانے میں جانا پڑے تو بغیر مناسب سفارش کے تحفظ کا احساس نہیں ہوتا۔ جہاں یہ احساس ہو کہ ہر کام کرانے کیلئے ہتھیلی گرم کرنا پڑتی ہے وہاں عام آدمی جھجکتا جھجکتا ہی رہے گا۔
یہ صرف امارت اور غربت کی بات نہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں کے لوگ سیاہ فام ہیں۔ ان میں بہت سے ممالک میں حد درجہ کی غربت ہے۔ لیکن اُن لوگوں کی چال ڈھال میں ایک مستی سی نظر آتی ہے۔ اُن کے کلچر میں ایک آزاد پن ہے۔ ہمارے ہاں ایک زمانے میں شاید ایسا آزاد پن ہوتا ہو‘ لیکن اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا نہیں۔ اور تو اور آپ تھوڑا دور جائیں اور انڈیا کا بارڈر عبور کریں تو آپ کو یکدم ایک اور ماحول ملے گا۔ لوگ ہم ایک جیسے ہیں۔ ہماری رنگ و نسل تقریباً ایک جیسی ہے۔ زبان ہماری ملتی ہے، شکلوں میں زیادہ فرق نہیں لیکن عمومی مزاج میں فرق ہے۔ غربت وہاں بھی بہت ہے، پولیس کا مزاج بھی ہماری پولیس جیسا ہے لیکن پھر بھی تھوڑا مستی کا عالم وہاں کچھ نظر آتا ہے۔ ہم نے اپنے اوپر پتہ نہیں کون سا خول ڈال رکھا ہے۔ پتہ نہیں کس وجہ سے جھجک ہمارے رویوں کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ بات غور طلب نہیں کہ انگریز کے دور میں جب ہم ایک محکوم قوم تھے تو سیاسی آزادیاں جیسی بھی تھیں، سماجی آزادیاں آج کی نسبت سے کہیں زیادہ تھیں۔ انگریز کے دور میں مذہب کی مکمل آزادی تھی۔ جہاں مرضی ہے آپ جائیں، مسجد، مندر یا گردوارے میں۔ فرقہ واریت نہ ہونے کے برابر تھی۔ جو قوانین بتدریج آزاد پاکستان میں متعارف ہوئے وہ انگریز کے ہندوستان میں بالکل نہیں تھے۔ ماضی میں کچھ ایسے قوانین نافذ کیے گئے جن کا تصور بھی انگریز دور میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ہندوستان فلم انڈسٹری کی شروعات اور پھر ارتقاء انگریز دور میں ہوا۔ کندن لعل سہگل کے سارے گانے انگریز دور کے ہیں۔ یہ تو ایک مثال دی‘ نہیں تو اُس زمانے کے تمام بڑے نام کانن بالا‘ خورشید، ثریا، شمشاد بیگم وغیرہ وغیرہ‘ ان سب نے مکمل سماجی آزادی میں اپنا کام کیا۔ سعاد ت حسن منٹو پہ فحاشی کے زمرے میں پاکستان میں مقدمات بنے لیکن انگریز دور میں تو ایسا کچھ نہ ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد اُستاد بڑے غلام علی خان یا قراۃ العین حیدر یا ساحر لدھیانوی کو فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ یہاں رہیں یا ہندوستان جائیں۔ لیکن تقسیم ہند سے پہلے اُنہیں کوئی ایسی مجبوری نہ بنی۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انگریز کا دور کسی قسم کا سنہرا دور تھا‘ لیکن اتنا تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ سماجی آزادی انگریز محکومیت میں آزادی کے دور سے زیادہ تھی۔ تب بھی برصغیر میں اسلام تھا، مسلمان تھے، دین کے فرائض میں مکمل آزادی تھی، حج ادا کرنے پہ کوئی پابندی نہ تھی لیکن بہت سارے رسوم و رواج اور قوانین‘ جو ہم نے اپنے اوپر بعد میں ڈالے‘ وہ تب نہ تھے۔ مندجہ بالا سطور میں لفظ ‘مستی‘ بہ امر مجبوری استعمال کیا گیا ہے کیونکہ مجھے انگریزی کے لفظ ‘joy‘ کا صحیح متبادل نہیں ملا۔ کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ غربت اور امارت سے ہٹ کے جو ایک joy چہروں پہ ہونا چاہیے، جو چال ڈھال میں نظر آنا چاہیے، وہ یہاں نہیں ہے۔ اشرافیہ اور مڈل کلاس کو چھوڑ کے معاشرہ دَبا دَبا سا لگتا ہے۔ اس جمہوریت کا پھر کتنا فائدہ؟ صحیح معنوں میں جمہوری معاشرہ ہوتا تو عمومی رویوں میں یہ جھجک نہ ہوتی۔
اس صورتحال کا حل کیا ہے۔ ماحول کو تھوڑا آزاد کریں۔ جنرل ضیاء الحق کو گئے دہائیاں ہو گئی ہیں۔ ان کے بنائے گئے قوانین کو اب کہیں دفنا دینا چاہیے۔ ایک دم تبدیلی نہیں آئے گی لیکن بیشتر پاکستانی تھوڑی زیادہ آزادی سے سانس لے سکیں گے۔ چھوٹی اور بے معنی قدغنوں سے پریشان نہیں ہوں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پورے معاشرے کے ماحول میں فرق پڑے گا۔ تنگ اور محدود سوچیں تھوڑی کھل جائیں گی۔ چہروں کی رونق ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ ماحول تھوڑا کم جھجک والا ہو جائے تو چہروں سے بھی جھجک آہستہ آہستہ ڈھلنے لگے گی۔
لیکن سوال وہی پرانا کہ یہ کرے گا کون؟ ہمارے نصیب میں ایسے ایسے کمزور اور نکھٹو حکمران آئے ہیں، جو اپنے سایوں سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے اور کیا کرنا ہے۔ کسی میں تھوڑی سی ہمت ہوتی تو ماضی کے مخصوص قوانین کب کے ختم ہو چکے ہوتے۔ لیکن جہاں پاکستان کے نچلے طبقات اپنے حالات کے نیچے دَبے ہوئے ہیں ہمارے حکمران انجانے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔ اسی لیے ماتم جتنا بھی کیا جائے کاروانِ حیات بس ویسے ہی چلتا رہتا ہے۔