گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کورونا وائرس پر افواہوں کی روک تھام کیلئے سرگرم
گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر نے کورونا وائرس کے حوالے سے غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کی روک تھام کے ساتھ صارفین کو مددگار اور مستند ذرائع سے تفصیلات کی فراہم کے لیے مختلف اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں۔
جمعے کو فیس بک کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے غلط معلومات کو فلیگ اور سائٹ سے ہٹانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے، گوگل کی جانب سے کورونا وائرس سرچز کے لیے ایک ایس او ایس الرٹ بنایا گیا جبکہ ٹوئٹر نے بدھ کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے سرچ کرنے والے افراد کو بیماری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے آفیشل چینیلز کی جانے لے کر جائے گی۔
فیس بک اس کے لیے تھرڈ پارٹی چیکرز کی مدد سے وائرس سے متعلق مواد کو ریویو کرے گی اور اگر اس مواد میں کچھ غلط ہوا تو فیس بک کی جانب سے صارفین تک اس کی رسائی کو محدود کردیا جائے گا۔
اسی طرح فیس بک کی جانب سے ان افراد کو ایک نوٹیفکیشن بھیجا جائے گا جنہوں نے اسے شیئر کیا ہوگا یا شیئر کرنے کی کوشش کریں گے۔
فیس بک کی جانب سے ایسے مواد کو ڈیلیٹ کیا جائے گا جن کو عالمی طبی اداروں کی جانب سے سازشی خیالات یا غلط بیانات جیسے جعلی علاج وغیرہ کے باعث فلیگ کیا جائے گا۔
فیس بک کی زیرملکیت انسٹاگرام میں بھی اس طرح کے مواد کو محدود کیا جائے گا اور ایسے ہیش ٹیگز کو بلاک کیا جائے گا جو غلط معلومات پھیلانے کا باعث بن سکیں۔
گوگل کی جانب سے ایس ایس الرٹ میں سرچ رزلٹس کو دوبارہ مرتب کرتے ہوئے اہم نیوز اسٹوریز، متعلقہ مقامی نتائج، قابل اعتماد اداروں کی جانب سے مددگار معلومات اور مصدقہ حفاظتی نکات سے آگاہ کیا جائے گا۔
ایس او ایس الرٹ کے ذریعے گوگل صارفین کو غلط یا جعلی خبروں کی بجائے قابل اعتماد تفصیلات تک رسائی میں مدد دینے کا خواہشمند ہے۔
گوگل کی زیرملکیت ویڈیو شیئرنگ سائٹ یوٹیوب نے بھی کہا ہے کہ وہ اس وائرس پر سرچ کرنے والے افراد کے سامنے قابل اعتبار ذرائع کی ویڈیوز کو پروموٹ کرے گی۔
ٹوئٹر کی جانب سے 15 ممالک میں مہم شروع کی جارہی ہے جن میں امریکا، برطانیہ، ہانگ کانگ، سنگاپور اور آسٹریلیا دیگر ممالک شامل ہیں اور اس میں مزید ممالک کو بھی جلد شامل کیا جائے گا۔
ٹوئٹر کے مطابق 4 ہفتوں کے دوران ڈیڑھ کروڑ سے زائد ٹوئٹس کورونا وائرس پر ہوچکی ہیں اور یہ رجحان آگے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ ووہان اس نئے کورونا وائرس کی وبا کا مرکز ہے اور مانا جارہا ہے کہ یہ وائرس اس شہر کی ایک سی فوڈ مارکیٹ میں موجود کسی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
یہ وائرس گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں سامنے آیا تھا اور اب تک اس کے نتیجے میں 213 اموات ہوئی ہیں، جن میں سے 159 ہلاکتیں صرف ووہان میں ہی ہوئی ہیں اور چین سمیت 21 ممالک میں 10 ہزار مصدقہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
دیگر ممالک میں اس پھیلاﺅ کے بعد 30 جنوری کو عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا ہے۔