ایک بار پھر بہت شدت سے یہ خیال ستاناشروع ہوگیاہے کہ انٹرنیٹ علم کو فروغ دینے کے بجائے Fake Newsکے ذریعے ہیجان پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ اس کی بدولت علم کے خزانوں تک جو رسائی میسر ہے اس سے استفادہ کرنے کی زحمت محض چند لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔ ٹویٹر اور فیس بک کے ذریعے ’’دوست‘‘ بنانے کے جو ذرائع موجود ہیں انہیں ہم اپنے دلوں میں موجود تعصبات کا اثبات کرنے والے افراد کی تلاش پرمرکوز رکھتے ہیں۔ہماری رائے سے برعکس سوچ پر دھیان سے غور کرنے کا حوصلہ موجود نہیں رہا۔
دُنیا بھر میں ان دنوں چین پر نازل ہوئے ’’کوروناوائرس‘‘ کی وجہ سے بے پناہ خوف پھیلا ہوا ہے۔کوئی بھی وائرس جو ممکنہ طورپر جان لیوا ہو اور جس کا مؤثر علاج بھی دریافت نہ ہوپایا ہو منطقی بنیادوں پر ہر صورت ہمارے دلوں میں خوف کو اجاگرکرنے کا باعث ہونا چاہیے۔ اس وائرس کے مریض سے ہاتھ ملانے یا کسی اور نوعیت کا رابطہ رکھنے کی بنا پر پھیلائو کے ٹھوس امکانات مزید خوفزدہ کردیتے ہیں۔اس ضمن میں تشویش برحق ہے۔
دلوں میں اُبلتے وسوسوں سے بالاتر ہوکر لیکن ذرا غور کریں تو یہ حقیقت بھی ذہن میںرکھنا ہوگی کہ چین آبادی کے اعتبار سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔اس کی آبادی ڈیڑھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے ۔یہ کالم لکھنے تک مگر کورونا وائرس کی وجہ سے 259ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں۔12ہزار کے قریب افراد اس کا شکار بتائے گئے ہیں۔ان میں سے ایک ہزار سات سو پچانوے افراد کی کیفیت تشویش ناک بتائی گئی۔ اپنے سمارٹ فون میںموجود Calculatorکو کھولیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار کو ڈیڑھ ارب کی تعداد کے تناظر میں رکھ کر فی کس یا فی صد کا عدد نکالیں تو وہ یقینا انتہائی پریشان کن دکھائی نہیں دے گا۔
یہ عددنکالنے کا تردد مگر اس لئے نہیں ہورہا کیونکہ مذکورہ وائرس کا علاج مہیا نہیں۔اس کے ’’متعدی‘‘ ہونے کے امکانات بے پناہ ہیں۔وباپھیلنے کا خوف ذہنوں کو مفلوج کرچکا ہے۔یہ خوف بنیادی طورپر اس وجہ سے بھی پھیلا ہے کہ چین کا سیاسی نظام معلومات پر مکمل کنٹرول پر بضد رہتا ہے۔ریاست اپنے بنائے Narrativeپر سوالات اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ خلقِ خدا کی اکثریت لہذا یہ فرض کرلینے کو حق بجانب ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی ’’اصل تعداد‘‘ جان بوجھ کر کم بتائی جارہی ہے۔ریاست کے فراہم کردہ ا عدادوشمار پرکوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
اعتبار کے اس فقدان کا چین مخالف عالمی میڈیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔چین کے کئی بڑے شہروں میں پھیلے خوف کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا گیا۔ گماں یہ ہورہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے چینی اپنے گھروں میں محصور ہوچکے ہیں۔ کاروباری زندگی مفلوج ہے۔ کئی محلوں میں گھر گھر جاکر یہ معلوم کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ وہاں کوئی ایسا شخص تو موجود نہیں جو حال ہی میں دوہان شہر گیا ہو جہاں سے یہ وبا ابھری۔
انٹرنیٹ پر دنیا بھر میں فقط 20بڑی کمپنیوں کا اجارہ ہے۔ان میں سے دس امریکی ہیں۔ایک کینیڈا میں ہے جبکہ نو چینی ہیں۔اس تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ بآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ چین انٹرنیٹ کے حتمی اجارہ داروں میں برابر کا شریک ہے۔اس اجارہ کو حاصل کرنے کے باوجود مگر وہ کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلے ہیجان کا مؤثر توڑ ڈھونڈ نہیںپایا۔ بنیادی طورپر اعتماد کا بحران ہے۔معلومات تک مکمل رسائی بہم نہ پہنچانے کا شاخسانہ۔ ریاست کے مرتب کردہ بیانیے کی ’’حقانیت‘‘ پر جنونی اصرار کا نتیجہ۔
یہ جنون مگر چین تک ہی محدود نہیں ہے۔چین کے بارے میںاس کے جاپان،کوریا اور ویت نام جیسے ہمسایوں میں ’’تاریخی یا دداشت‘‘ بھی ہے۔ ’’تاریخ‘‘ سے اگرچہ اس کا خاص تعلق نہیں۔اصل حقیقت نسلوں سے چینیوں کے بارے میں موجود اس کا خاص تعلق نہیں۔اصل حقیقت نسلوں سے چینیوں کے بارے میں موجود تعصبات ہیں۔ان تعصبات کی بدولت فرض کرلیا گیا ہے کہ ہر چینی ممکنہ طورپر کورونا وائرس کا ’’Carrier‘‘ ہوسکتا ہے۔ ان تینوں ممالک کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک گزشتہ کئی برسوں سے چین کے ساتھ تجارتی روابط میں ہیں۔ان روابط نے مارکیٹ میں چین کی بالادستی کو مستحکم کیا۔ مذکورہ بالادستی نے ان ممالک میں بے روزگاری پھیلائی۔ ان کی معیشت کو منجمد کردیا۔چینی سیاحوں کی حیران کن تعداد ان ممالک کے ’’تاریخی مقامات‘‘ اور عجائب گھر دیکھنے آتی ہے تو سیاحت سے وابستہ بے پناہ کاروبار پُررونق ہوجاتے ہیں۔
کورونا وائرس کی بدولت فرانس جیسے ’’مہذب‘‘ شمار ہوتے ممالک میں لیکن کئی مقبول اخبارات اب’’پیلے(Yellow)رنگ‘‘ کو تباہی کی علامت دکھارہے ہیں۔لگی لپٹی رکھے بغیر گویا ہر چینی کو ’’موت کا پیغامبر‘‘ بتایا جارہا ہے۔نسل پرستی کی اس سے زیادہ خوفناک مثال حالیہ تاریخ میں ڈھونڈنا ناممکن ہے۔
آسٹریلیا میں بھی چینیوں کی کثیر تعداد کئی نسلوں سے آباد ہے۔وہاں کے میڈیا میں بھی ان کے خلاف تضحیک آمیز مضامین شائع ہورہے ہیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ تعصبات کو فروغ دینے والے اخبارات اور نشریاتی ادارے اسی Rupert Murdochکی ملکیت میں ہیں جس نے برطانیہ اور بعدازاں امریکہ میں ابلاغ سے متعلقہ دھندے کو نسل پرستی کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔بے تحاشہ منافع کماتے ہوئے برطانیہ کو Brexitکی طرف دھکیلا۔ امریکہ میں ٹرمپ کے وائٹ ہائوس پہنچنے کے راستے بنائے۔
کورونا وائرس تک محدود حقائق پر توجہ نہیں دی جارہی۔ درحقیقت ایک ’’ثقافتی جنگ‘‘ لڑی جارہی ہے جو ہر چینی شہری کو موذی وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرارہی ہے۔چین کو اپنی شناخت پر لگائے اس دھبے کو مٹانے کے لئے کئی برس درکار ہوں گے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا ہے کہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی کئی دنوں سے چین میں مقیم ہمارے طلباء کو وطن واپس لانے کے مطالبے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے کئی اراکین نے مجھے گزشتہ ہفتے وہ کلپس دکھائیں جو ان کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی جانب سے اس ضمن میں انہیں مسلسل موصول ہورہی ہیں۔ کوئی پتھردل ہی چین میں مقیم طلباء اور پاکستان میں موجود ان کے والدین وعزیز واقارب کی پریشانی سے لاتعلق رہ سکتا ہے۔
ہماری حکومت کی جانب سے چین میں خود کو محصور وبے بس ولاچار محسوس کرتے طلباء کی ہنگامی بنیادوں پرواپسی سے گریز اس وجہ سے بھی دوگنا زیادہ بے حس محسوس ہورہا ہے کیونکہ بنگلہ دیش ،اردن اور مراکش جیسے ہم سے مبینہ طورپر ’’کمزور‘‘ تصور ہوتے ممالک نے اپنے طلباء کو ہنگامی بنیادوں پر وہاں سے واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ ہفتے کے روز سے بھارتی حکومت نے بھی اپنے طلباء کو واپس بلانے کے لئے طیارے بھیجنا شروع کردئیے۔ بھارت کے متحرک صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی حکومت کی اس ضمن میں پیش قدمی کو سراہنے کے بعد اپنے ٹویٹر اکائونٹس کے ذریعے چین میں دہائی مچاتے پاکستانی طلبہ کی کلپس کو وائرل کررہے ہیں۔’’شریکوں‘‘ کے طعنوں کی طرح یہ کلپس جی کو یقینا بہت تکلیف پہنچارہی ہیں۔
حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی یا سینٹ میں چین میں موجود پاکستانی طلبہ کا دکھڑا بیان کرتی دھواں دھار تقاریر کے بعدچند اراکین نے مجھ سے اور میرے کئی ساتھیوں سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ اس خدشے کا اعتراف کیا کہ پاکستانی طلبہ کی چین سے ہنگامی بنیادوں پر واپسی وطن عزیز میں کورونا وائرس کو مزید شدت سے پھیلانے کا باعث ہوسکتی ہے۔چین میں وبائوں سے نبردآزما ہونے والا نظام پاکستان سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔کورونا وائرس کی زد میں آئے پاکستانی طلبہ کی طبی دیکھ بھال چین ہی میں زیادہ بہترانداز میں یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
میں ’’اپنے نمائندوں‘‘ کے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بتائے خدشات سے اتفاق کرنے کو آمادہ ہوں۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان خدشات کا برملا اظہار کرنے سے کیوں گھبرایا جارہا ہے۔چین میں تعینات ہمارے سفارت کار آج کے Digitalزمانے میں وہاں موجود پاکستانی طلبہ کے بارے میں ہر پل کی اطلاع چینی حکومت کے تعاون سے ہمہ وقت حاصل کرسکتے ہیں۔یہ اطلاعات ہمارے طلبہ کے فکرمند والدین سے Shareکرنے کا بندوبست بھی ممکن ہے۔
عمران خان صاحب کو اپنی سوشل میڈیا ٹیم پر بہت ناز ہے۔ وہ اس ٹیم کو چین میں موجود طلبہ کے بارے میں ان کے والدین کو ہمہ وقت آگاہ کرنے کا مشن بھی سونپ سکتے ہیں۔کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلے ہیجان کا تدارک حقائق تک مکمل رسائی اور انہیں مسلسل دہرانے ہی سے ممکن ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ موجود نہیں ہے۔