بغاوت کا الزام:گرفتار 23 افراد کی ضمانت منظور، ‘آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کرسکتے ہیں؟’
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے کارکنان کو ضمانت بعد از گرفتاری دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پشتون تحفظ موومنٹ اور عوامی عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) سے تعلق رکھنے والے 23 کارکنان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی عدالت میں غیرحاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئی جی کہاں ہیں انہیں بلایا تھا، جس پر ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ سے اور موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی، کیا آپ نے ایف آئی آر پڑھی ہے، دہشت گردی کی دفعات کس قانون کےتحت لگائی گئی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے جس میں دہشت گردی کی تعریب بیان کی گئی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ریاست کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کر سکتے ہیں؟
سماعت کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آئینی عدالتیں اس معاملے پر آنکھیں بند کردیں گی، اس مقدمے کی تح تک جائیں گئے، اگر حکومت نے کچھ غلط کیا ہے تو اسے مانیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی سی آپ اور آئی جی ایک ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھیں، ایک ہفتے کا وقت دے رہا ہوں اس معاملے کو دیکھ کر رپورٹ جمع کروائیں۔
جس کے ساتھ ہی عدالت نے تمام ملزمان کی ضمانت بعداز گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے تمام افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
اس سے قبل ہفتے کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مظاہرین کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں کیپیٹل پولیس اور ضلعی انتظامیہ سے وضاحت طلب کرلی تھی۔
عدالت عالیہ نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور پولس سربراہ کو پیش ہونے کا کہتے ہوئے 3 فروری یعنی آج گرفتار افراد سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرلیا تھا۔
درخواست گزاروں کے وکیل عمار راشد اور دیگر نے چیف جسٹس کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ ‘درخواست گزاروں کے خلاف بدنیتی پر مبنی مقدمہ دائر کیا گیا’۔
یاد رہے کہ 30 جنوری کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سہیل نے زیر حراست کارکنوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ دہشت گردی کا مقدمہ ہے کیونکہ دوران احتجاج مظاہرین نے حکومت اور فوج مخالف نعرے بازی کی۔
واضح رہے کہ منگل 28 جنوری کو کو اسلام آباد پولیس نے پی ٹی ایم رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم اور اے ڈبلیو پی کے متعدد کارکنان کو نیشنل پریس کلب کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے گروپ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
یہاں یہ یاد رہے کہ منظور پشتین کو 27 جنوری کی علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر شہر کی سینٹرل جیل بھیج دیا تھا۔