ایمانداری کی بات ہے کہ کبھی کبھی تو میں عمران خان کے نئے نئے آئیڈیاز کی تخلیقی صلاحیت پر دنگ رہ جاتا ہوں۔ ایسا زرخیز ذہن اللہ رب العزت کسی کسی کو ہی بخشتا ہے۔ یوٹرن لینے کے لیے کیا نئے نئے میدان تلاش کرتے ہیں اور ہفتہ وار یوٹرن کا لگا بندھا فریضہ کسی طرح بلاناغہ سر انجام دیتے ہیں۔ میں ان کی جگہ ہوتا تو چار دن میں ہاتھ کھڑے کر دیتا۔
چوہدری بھکن کا خیال ہے کہ یہ ” کلے بندے دا کم نئیں‘‘ (اکیلے آدمی کا کام نہیں)۔ وزارت عظمیٰ سے پہلے والی تقریروں‘ بیانات اور گفتگو میں جو کچھ بھی کہا اس پر تو خیر سے یوٹرن لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ اپوزیشن اور حکومت کے کام‘ ترجیحات اور معاملات ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور الٹ ہوتے ہیں اس لیے بطور اپوزیشن لیڈر دیئے گئے بیانات سے بعد ازاں حکومت میں آ کر مکر جانا‘ عمل نہ کرنا اور دائیں بائیں ہو جانا معمول کی بات ہے اور پہلے حکمران بھی تقریباً یہی کچھ کرتے رہے ہیں‘ لیکن اپنے عمران خان سے ان کا موازنہ اور مقابلہ کرنا احمقانہ حرکت ہے کہ عمران خان صاحب نے اس فن کو اس کے معراج پر پہنچایا اور وہ نام کمایا کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں بھی بعض لوگوں نے اس فن میں نام کمانے کے لیے کافی محنت کی مگر بقول انشاء اللہ خان انشا: ؎
ہزار شیخ نے ڈاڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
کوئی ایک آدھ یوٹرن لیا جاتا تو یہ عاجز بیان بھی کرتا‘ لیکن ان کی ہفتہ ریلیز کی تعداد اور رفتار اتنی زیادہ ہے کہ یہ عاجز اب اس عمر میں ان کو یاد رکھنے سے قاصر ہے۔ یوٹرن پر یوٹرن۔ بعض یوٹرن تو ایسے کہ اسے آپ ”یوٹرن برائے یوٹرن‘‘ کہہ لیں۔ صرف یوٹرن لینے کی غرض سے ایک بیان یا حکمنامہ جاری کیا اور پھر دوسرے ہی دن اس سے یوٹرن لے لیا۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں‘ شیشے کا گلاس توڑا… دس روپے!
اب آپ خود دیکھیں کہ اگست 2019ء میں حکومت نے بیٹھے بٹھائے GIDC کے دو سو اسی ارب روپے کے لگ بھگ ٹیکس اپنے ہی خیر خواہ کاروباری اور صنعتکار دوستوں کو معاف کر دیا۔ یہ ”گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس‘‘ کی وہ رقم تھی جو صنعتکار اپنی اپنی مصنوعات پر عوام کی جیب سے نکال کر اپنے ”کھیسے‘‘ میں ڈال چکے تھے۔ حالانکہ یہ رقم انہیں گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کروانی تھی کہ یہ سرکار کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس تھا اور گیس کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے خرچ ہونا تھا‘ مگر ہوا یہ کہ سرمایہ دار مافیا نے اس جمع شدہ رقم کو آگے سرکار کو دینے کے بجائے گول کر لیا اور اس کی ادائیگی کے اصرار پر عدالت سے حکم ِامتناعی حاصل کر لیا۔ ابھی کیس عدالت میں زیر سماعت ہی تھا کہ سرکار نے یہ 280 ارب روپے صنعتکاروں کو معاف کر دیئے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں کچھ چندہ دینے والے تھے اور کچھ پیارے تھے۔ خیر اس پر ہاہاکار مچ گئی۔ دو دن بعد یہ آرڈیننس واپس لے لیا گیا۔ یعنی ہوا کچھ نہیں صرف بدنامی ہوئی اور ایک عدد یوٹرن لے کر یوٹرنز کے ریکارڈ کو مزید بہتر کیا گیا۔ حاصل وصول کچھ نہیں ہوا تھا‘ لیکن حرف بہ حرف ”یوٹرن برائے یوٹرن‘‘ والا معاملہ تھا اور عمران خان اپنے اس کام میں سرخرو ٹھہرے۔ معاملہ وہی تھا؛کھایا پیا کچھ نہیں‘ شیشے کا گلاس توڑا… دس روپے!
اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی یوٹرنز کا ایک انبار ہے۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ یوں سمجھیں کہ یوٹرونز کا جمعہ بازار لگا ہوا۔ بیشتر ایسے کہ بالکل ہی ”گناہ بے لذت‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایک دن ایک بات کا اعلان کیا‘ اگلے روز تردید فرما دی‘ ایک دن حکمنامہ جاری کیا‘ اگلے دن واپس لے لیا۔ نہ حکمنامہ جاری کرنے سے پہلے کوئی غور و فکر کیا اور نہ ہی حکمنامہ واپس لیتے ہوئے لمحہ بھر سوچا۔ بلا سوچے سمجھے آرڈر کر دیا اور ایک جھٹکا برداشت کیے بغیر اپنا آرڈر کینسل کر دیا۔ تازہ ترین مثال ہائی ویز اور موٹر وے پر جرمانوں کی رقم میں اضافے والا نوٹیفکیشن ہے۔ پہلے کسی عوامی رد عمل کی پروا کیے بغیر اور ٹرانسپورٹرز کی طرف سے مزاحمت کے کسی امکان کو مد نظر رکھے بنا ٹریفک خلاف ورزیوں پر پہلے سے عائد شدہ جرمانوں کو یکدم کئی گنا بڑھا دیا اور صرف ایک دن کی ہڑتال پر فوراً ہی گھٹنے ٹیک دیئے اور نوٹیفکیشن اس طرح واپس لیا کہ ایک گھسا پٹا مصرعہ یاد آ گیا: ع
حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
سب سے زیادہ دکھ اور صدمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسے احکامات کو واپس لیتے ہوئے بھی ایک منٹ نہیں لگتا اور اخبار میں خبر آ جاتی ہے کہ ٹرانسپورٹروں سے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور ہڑتال ختم ہو گئی ہے۔ اب بندہ پوچھے آپ نے سارے کا سارا نوٹیفکیشن الف سے لیکر ”ی‘‘ تک واپس لے لیا تو اس کے بعد مذاکرات کی ناکامی کا باقی چانس ہی کیا بچتا ہے ؟ہوٹلوں اور رستورانوں سے عوام کی جیب سے وصول کردہ ٹیکس کی تفصیلات مانگی گئیں۔ ریستورانز وغیرہ نے ہڑتال کر دی۔ کامیاب مذاکرات کے بعد ریسٹورنٹ مالکان نے ہڑتال کی کال واپس لے لی کیونکہ حکومت نے ریستورانز سے ٹیکس وغیرہ کی وصولی کی تفصیلات اور کھاتے چیک کرنے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا‘ لہٰذا مذاکرات کی ناکامی کا کیا تُک بنتا تھا۔ سو مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ امید ہے کہ اگر انہی شرائط پر مذاکرات ہوتے رہے تو آئندہ بھی سو فیصد کامیاب رہیں گے۔
ابھی تازہ تازہ یوٹرن ایسا عجیب و غریب اور ناقابلِ یقین ہے کہ عقل چکرا گئی ہے۔ عمران خان کی ساری کی ساری جدوجہد کا بیانیہ کرپشن کے خلاف جنگ‘ کرپٹ لوگوں کو نشانِ عبرت بنانے اور کرپشن کے خاتمے کے نام پر تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ کرپشن کے خلاف جنگ کے لیے جس ہمت‘ جرأت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے وہ صرف عمران خان ہی کی ذات سے ممکن ہے اور انہوں نے صرف اسی ایک نکتے پر عمران خان پر اعتماد کیا اور اسے برسوں ‘بلکہ عشروں تک پاکستانی سیاست میں موجود بہت سی سیاسی پارٹیوں پر ترجیح دے کر 2018ء کے انتخابات میں کامیاب کروایا لیکن عملاً ہوا کیا؟ عمران خان کی کرپشن کے خلاف ساری جنگ کا سارا ملبہ نواز شریف اور زرداری اینڈ کمپنی پر آن گرا۔ چار سو سے زائد لوگوں کا پانامہ لیکس میں نام سامنے آیا‘ مگر سزا صرف میاں نواز شریف کو ہوئی اور باقی سب لوگوں کو سزا تو ایک طرف‘ کسی نے پوچھا تک نہیں۔ چلیں یہ تو زور آور اور تگڑے لوگ ہوں گے۔ عمران خان کا حوصلہ تو گریڈ سترہ سے اکیس گریڈ کے افسروں کے سامنے جواب دے گیا ہے۔شہباز شریف صاحب جب زرداری کی مخالفت میں سرگرم تھے تب انہوں نے ایک شہرہ آفاق تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ برسر اقتدار آ کر زرداری کا پیٹ پھاڑ کر اس میں سے کرپشن کی دولت نکالیں گے اور انہیں لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ خیر انہوں نے کیا پیٹ پھاڑنا تھا اور کیا سڑکوں پر گھسیٹنا تھا‘ لیکن ان کی اس تقریر نے انہیں کافی شرمندہ کیا۔ چلیں زرداری صاحب تو تگڑے آدمی تھے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے۔ سابق صدر تھے۔ سابقہ وزیراعظم کے شوہر تھے۔ سندھ کے بڑے لینڈ لارڈ اور صنعتکار تھے۔ ان کا پیٹ پھاڑنا اور سڑکوں پر گھسیٹنا شہباز شریف کیلئے ممکن نہ تھا لیکن یہ اپنے عمران خان تو بالکل نکلے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وظیفوں سے مستفید ہونے والے ہزاروں سرکاری افسروں کے نام بتانے کا اعلان کر کے یوٹرن لے گئے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اتنے معمولی لوگوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنے سے بھی پیچھے ہٹ جانے والا بڑے مگر مچھوں کا کیا کر لے گا؟
جو شخص غریبوں اور مستحقوں کی امانت میں خیانت کرنیوالے نہایت ہی گھٹیا اور قابلِ شرم قسم کے کرپٹ لوگوں کا نام بھی عام کرنے میں اگر خوف یا جھجک محسوس کرتا ہے تو اس سے کرپشن کیخلاف کسی بڑے قدم اٹھانے کی امید رکھنا حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کرپشن کیخلاف جاری نام نہاد جنگ پر فاتحہ پڑھ لیں۔ دل کو کسی طور تو چین آ جائے گا۔