صدائے کن فیکون
نیویارک ٹائمز میں ایک خاتون کالمسٹ کے مضمون کی سرخی تھی جس کا مطلب تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لئے نعمت خداداد ثابت ہوئے۔
ویسے تو ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اور عمران خان کے جیالوں کی تحریر و تقریر سے دامن بچا کر نکلناہی بہتر ہوتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں خیال آیا کہ امریکہ کے آزاد خیال اخبار میں ان کے سب سے بڑے ناقد کی تعریف کو پڑھ کر تو دیکھا جائے۔
پڑھنے پر پتہ چلا کہ مضمون میں ہماری توقع کے برعکس دلیل یہ دی گئی تھی کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بھیانک کردار الیکشن جیت کر نہ آتا تو نیا ابھرنے والا انسان دوست روشن خیال ایجنڈہ بھی سامنے نہیں آنا تھا۔
پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ میرے علاوہ بھی بہت سے لوگ ان تاریکیوں میں پنہاں اجالوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اور اس پر بھی یقین پختہ ہوا کہ انسانی فکر انفرادی کی بجائے گروہی ہوتی ہے۔
ہم سب معاشرتی رجحانات کے پروردہ ہیں اور دنیا میں یکتائی بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ نیوٹن، آئن اسٹائن، ڈارون، مارکس، شیکسپیر ، غالب اور وارث شاہ صدیوں میں چند ہی ہوتے ہیں۔ باقی تو آپ کے چاہنے والوں کی تعداد دو ملین ہے یا چار ملین ، چند سالوں بعد کسی کوشاید آپ کا نام بھی یاد نہ ہوگا۔ بقول وارث شاہ:
اس خواب جہان سرائے اندر کئی واجڑے گئے وجا میاں
(یہ دنیا خوابوں کی سرائے جیسی ہے جس میں بہت سے اپنا اپنا باجا بجا کر چلے گئے)
حقیقت یہی ہے کہ اس وقت امریکیوں کی اکثریت جس انسان دوست ایجنڈے کی حمایت کر رہی ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی انسان کش پالیسیوں کے بغیر ابھر کر سامنے نہ آتا۔
امریکہ میں رد انقلاب اور عوام دشمن فلسفہ رونلڈ ریگن نے متعارف کروایا تھا اور اس کے بعد دنیا کے پاکستان سمیت سارے سرمایہ داری کے حامی ملکوں نے اس پر عمل شروع کردیا۔
امریکہ میں بل کلنٹن اور باراک اوبامہ جیسے ڈیموکریٹک صدر بھی آئے لیکن وہ بھی ریگن کے معاشی سحر سے باہر نہ آسکے اور انہی کی بنائی عمارت کا رنگ روغن بدلنے تک محدود رہے۔
عوامی مفادات کے حوالے سے بل کلنٹن اور جارج بش کی پالیسیوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ لیکن اب جب ڈونلڈ ٹرمپ اس فلسفے کی بھیانک تہوں کا مجسمہ بن کر سامنے آئے ہیںتو امریکی عوام کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ معیشت کے اعداد و شمار اعلیٰ ترین تصویر پیش کر رہے ہیں لیکن عام شہری کا اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی گزارہ نہیں ہوتا۔
حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 40فیصد امریکیوں کے پاس ایمرجنسی حالات سے نپٹنے کے لئے 400 ڈالر بھی میسر نہیں ہیں۔
اب اسے اتفاق کہیے یا کچھ اور پاکستان کے معاشی حالات بھی ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ معاشی نظام کا خوفناک چہرہ ننگا ہو رہا ہے اور شاید موجودہ حکمرانوں کا انتخاب نعمت خداوندی ہی ثابت ہو۔
ایک تو نظام خود ہی بہت کھوکھلا تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ حکمران سننے اور سمجھنے کی اہلیت سے بے بہرہ۔
پہلے والے ہوشیاری سے لیپا پوتی کے ذریعے برہنگی پر پردہ ڈال لیتے تھے لیکن موجودہ گروہ کو تو یہ کام بھی نہیں آتا۔ اب جب ہمارے اندازے کے مطابق معیشت 10فیصد سالانہ شرح پر سکڑ رہی ہے تو یہ نظام اپنا بھرم کیسے قائم رکھ سکتا ہے؟ اگر سارے نظاموں کی بنیادیں معاشی ہی ہوتی ہیں تو پاکستان کے بارے میں کیا کہیں گے جس کے دیوالیہ ہونے کے سارے عنوانات ظاہر ہو چکے ہیں ۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جعلی طریقوں سے بننے والے کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کو اس کا احساس کم ہو لیکن دس یا پندرہ روپے کی روٹی خریدنے والے عام شہری کو اس کا بخوبی اندازہ ہے اور اسی لئے درمیانے طبقے کی قوت خرید اتنی کم ہو گئی ہے کہ کاروں کی مینوفیکچرنگ میں 60 فیصد کمی آگئی ہے۔
ایک لحاظ سے امریکہ اور پاکستان میں کافی مماثلت ہے کہ ارب پتیوں کا نیا گروہ کسی پیداواری عمل میں حصہ لئے بغیر پیدا ہوا ہے اور دونوں ملکوں میں امیر ٹیکسوں سے مکمل یا جزوی طور پر آزاد ہیں۔ اسی لئے دونوں ملکوں میں ریاستی قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ کی ٹیکسال میں پرنٹ کیا ہوا ڈالر اصلی مانا جاتا ہے اور پاکستانی روپے کو بازار میں اپنی قدروقیمت تسلیم کروانا پڑتی ہے۔ لیکن یہ واضح ہو گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں پیدا ہونے والی امارت دیمک کی طرح معاشی ڈھانچوں کی بنیادیں چاٹ چکی ہے۔ خیر یہ چاٹنے کا عمل تو کافی دیر پہلے ہو چکا تھا ،فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ بھولے بھالے عوام کو بھی نظر آنے لگا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ اس لئے بھی اچھا ہوا ہے کہ اس خرابے سے ایک نئی جہت جنم لے رہی ہے۔ نئی صورتیں اسی لئے پیدا کی جاتی ہیں کہ طرز کہن میں زندگی گزارنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں پچھلے چالیس سالوں میں مختلف دھکوں سے معیشت آگے بڑھ رہی تھی، ہر کسی کے حالات میں تھوڑی بہتری آتی محسوس ہو رہی تھی اور عوام بھی سیاست کو مشغلے کے طور پرہی لیتے تھے۔
اب جب سارے راستے بند ہوتے نظر آرہے ہیں تو امریکی عوام بھی دل و جان سے نئے نظام کی صورت گری کے لئے اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی ہوگا اور دیمک زدہ معاشی عمارت گر کر رہے گی۔ بقول علامہ اقبال کہ ’’آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔‘‘