مہنگائی پر نظر رکھنے کی پالیسیوں کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے، حکومت
اسلام آباد: حکومت کا کہنا ہے کہ وہ وظفیوں کی رقم اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھا رہی ہے جبکہ مہنگائی کو کم کرنے کی پالیسیوں اور کوششوں کے نتائج ‘آئندہ دنوں’ میں سامنے آئیں گے۔
رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مسلسل بڑھنے والی مہنگائی کی شرح پر وضاحت دینے کی کوشش کی گئی۔
واضح رہے کہ جنوری کے مہینے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایک دہائی کی سب سے زیادہ 14.6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جس پر عوام کی جانب سے حکومت پر شدید تنقید بھی کی جارہی ہے۔
تاہم اس معاملے پر جاری مذکورہ بیان میں آمدن میں تعاون اور دیگر سبسڈیز سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھانے پر بھی بات کی گئی۔
کوئی ٹائم لائن دیے بغیر وزارت کا کہنا تھا کہ موسم کے منفی حالات اور رسد میں خلل کے خاتمے کے بعد مہنگائی کم ہوگی اور معیشت آئندہ دنوں میں پیداوار اور ترقی کی جانب بڑھے گی۔
وزارت کا کہنا تھا کہ ان اقدامات سے جہاں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے وہیں حکومت نے مہنگائی سے متاثرہ افراد کے تحفظ کے لیے ریلیف کے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو 5 بنیادی اشیا پر سبسڈی دینا ہے، جس کے لیے 7 ارب روپے وزارت صنعت و پیداوار کو منتقل کردیے گئے ہیں جبکہ 300 یونٹس سے کم ماہانہ بجلی استعمال کرنے والوں کو 226 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی مختص کرنا شامل ہے۔
وزارت نے نشاندہی کی کہ وزیر اعظم کے احساس پروگرام کے لیے بھی 100 ارب کی جگہ مجموعی طور پر 190 ارب مختص کیے گئے ہیں، گیس پر 24 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے اور حکومت نے اگست 2019 میں 51 لاکھ خاندانوں میں خصوصی ٹرانسفر کے تحت ایک ہزار روپے فی خاندان مہیا کیا ہے۔
ساتھ ہی وزارت نے امید ظاہر کی کہ استحکام کی پالیسیوں، زراعت کے شعبے کی مداخلت، وفاقی و صوبائی سطح پر مسلسل نگرانی اور موسم کی بہتر صورتحال سے مہنگائی کم کرنے میں مثبت نتائج ملیں گے۔
علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ دسمبر 2019 میں 43 لاکھ خاندانوں کو 5 ہزار روپے کی سہ ماہی ادائیگی بھی کردی گئی ہے جبکہ 2 ہزار روپے کے ماہانہ کفالت وظیفے کا آغاز یکم فروری سے کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ مزید 10 لاکھ نئے افراد کو آئندہ 5 ماہ میں اس پروگرام میں شامل کرلیا جائے گا۔
دریں اثنا یونیورسٹی کی فیس و دیگر اخراجات کے لیے 50 ہزار ضرورت مند طالب علموں کو انڈر گریجویٹ اسکالر شپس دی جارہی ہے جبکہ انضمام شدہ فاٹا کے اضلاع کے لیے مختص 152 ارب روپے کے علاوہ 30 لاکھ بچوں (پرائمری اسکول جانے والوں) میں 750 روپے لڑکوں اور 1000 روپے لڑکیوں کو دیے جارہے ہیں۔
ادھر بیان میں وزارت نے غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ مون سون کی بارش سے گندم کی فضل پر پڑنے والے منفی اثرات، سخت سردی اور دھند کی وجہ سے ضروری اشیا کی رسد میں خلل، فصلوں کی کاشت اور اس کے مارکیٹ میں آنے میں تاخیر اور سبزیوں کی پیداوار میں کمی کو ٹھہرایا۔
تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ ‘موسم کے بدلنے سے آلو، ٹماٹر اور پیاز کی رسد بہتر ہوگی جس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی آئے گی’۔
مزید برآں فنانس ڈویژن نے نشاندہی کی کہ مہنگائی میں اضافے کی ایک اور وجہ عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں کے اثرات بھی ہیں اور پام آئل کی قیمتوں میں 43.9 فیصد، سویا بین تیل کی قیمت 12.8 فیصد، خام تیل کی قیمت 16.6 فیصد وغیرہ بڑھی ہیں۔