کالم

دوستی کا جال

Share

جنوری کا پہلا ہفتہ موسم سرما اپنے جوبن پر سورج دیوتا بادلوں کے اُس پار گہری نیند سو گیا تھا مسلسل ابر آلود موسم برفیلی ہوا ئیں پہاڑی علاقوں میں مسلسل برف باری کی وجہ سے پورا ملک برفیلی ہواؤں کی وجہ سے ٹھنڈا ٹھار یخ برفشاں بن چکا تھا‘شہر لاہور بھی مسلسل بارشوں اور برفیلی ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے منفی سینٹی گریڈ کے قریب آگیا‘شام ڈھلتے ہی انسان چرند پرند جانور گھروں کو نوں کدروں میں دبک جاتے تاکہ منفی درجہ حرارت کی جان لیوا ٹھنڈ سے بچ سکیں پہلے لوگ موسم سرما دسمبر کا انتظار کر تے تھے لیکن اِس بار کی سردی تو جان لیوا ہو گئی تھی اتنی شدید سردی انجوائے کر نے والی نہیں بلکہ جان بچانے والی تھی میں بھی حسب معمول شام ڈھلنے سے پہلے ٹھنڈ ے ٹھار لاہور کی کینال سڑک پر گھر کی طرف گامزن تھا‘ بوندا باندی آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تیزٹھنڈی ہوائیں آرام د ہ گاڑی میں حرارت آمیز ہیٹر آن تھا جس کی گرما گرم ہوا ہمارے جسموں کو زندگی بخش حرارت کا فیض بانٹ رہی تھی شدید سردی سے بچاؤ کے لیے میں اور میرے دوست نے راستے سے گرما گرم کافی کے مگ بھی پکڑ لئے تھے اب ہم ہاتھوں میں مزے دار گرما گرم تلخ و شیریں کا فی کے سیب لیتے ہو ئے آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کاحرارت آمیز ماحول اور حلق اُترتی گرما گرم مزے دار کافی نے اچھا ماحول بنا دیا تھا ہمارے جسم اب سردی کا اچھے طریقے سے مقابلہ کرتے نظر آرہے تھے کافی کے گرما گرم چند گھونٹ لینے کے بعد اعصاب عضلات نارمل ہو گئے تھے اب میں اچھے موڈ میں اطراف کی گاڑیوں کو دیکھنا آگے بڑھ رہا تھا جیسے ہی ہم انڈر پاس سے نکلے تو راستہ کشادہ ہوا تو کسی امیر زادے کی پراڈو پیچھے گن مینوں کا ڈالا گزر ا امیر زادے کی رفتار اور انداز بتا رہے تھے کہ وہ اِس شہر اور سڑک کا اکلوتا مالک ہے جیسے ہی پراڈو میرے پاس سے گزری تو فرنٹ سیٹ پر نسوانی جوان چہرہ دیکھ کر میرے بدن میں تو شاید آگ ہی لگ گئی جوان لڑکی کا خوبصورت چہرہ آتش فشاں کے گو لے کی طرح پھٹا اور میرے تن بدن میں آگ لگ گئی لڑکی اور میری آنکھوں کا ایک لمحے کے لیے ٹکراؤ ہوا مجھے دیکھتے ہی اُس کے چہرے پر حیرت پریشانی پھر شرمندگی کے گہرے رنگ پھیلتے چلے گئے مُجھ سے نظریں چار ہو نے سے پہلے اُس کے چہرے پر قہقہوں کی موسلا دھار بارش برس رہی تھی لیکن مجھے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی تھی اِسی دوران پراڈواور گن مینوں کا ڈالا تیزی سے آگے نکل گیا گاڑیاں تو گزر گئیں لیکن میں اپنی سیٹ کے کو نے پر آکر اُنہیں دور جاتا دیکھتا رہا میرا یہ ری ایکشن میرے دوست کے لیے حیران کن تھا وہ حیران پریشان نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا وہ سمجھ رہا تھا شاید امیر زادہ بد تمیزی سے گزرا ہے اِس لیے میں پریشان ہو گیا ہوں جب سچ گاڑیاں نہیں بلکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی لڑکی تھی لڑکیاں تو ہر دوسری گاڑی میں ہو تی ہیں لیکن یہ تو ناز تھی (فرضی نام) اور میں ناز کو جانتا تھا جو مُجھ سے ملنے بھی آتی رہی تھی۔ جب میرے پاس آتی تھی تو بہت سادہ اور شریفانہ لباس میں اِس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ بلا کی حسین تھی لیکن آج تو اُس کا انداز ہی بدلا ہو اتھا آ ج اُس نے اپنے بالوں کو سنہرا کلر کروا کر ڈیزائن دار بنایا ہوا تھا آنکھوں میں گرین لینز اور چہرے پر تیز میک اپ اور ہونٹوں پر شوخ لپ اسٹک نے اُس کے حسن میں آگ بھر دی تھی حسن کی اِس آگ کو وہ بطور ہتھیار استعمال کر رہی تھی نا ز کو دیکھ کر میں غصے کی آگ میں جھلسنے لگا لیکن پھر یہ آگ مدہم پڑتی گئی اب غصے کی جگہ پچھتاوا اور شرمندگی میری رگوں میں ڈورنے لگی اب میں غصے اور شرمندگی کے جھولے جھولتا گھرآگیا کھانا کھایا نئی کتاب پڑھنا شروع کی اپنی شروع کی ہو ئی کتاب لکھنے کی کو شش کی لیکن اعصاب دماغ بو جھل تھے کو ئی بھی کام کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا اب میری شرمندگی اور پچھتاوا احساس ندامت میں بد ل گیا تھا کہ ناز آج اگر اِس مقام پر ہے تو اِس میں میرا بھی پورا قصور ہے کیونکہ وہ مدد مدد پکارتی میرے پاس بھی آئی تھی جب میں نے بھی اُس کی مدد نہ کی تو مجبورا اُسے یہ راستہ اختیار کر نا پڑا ندامت کی آنچ میری ہڈیوں کے گودے تک پہنچنے لگی تو میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اُس ملاقات کو یاد کر نے لگا جب ناز پہلی بار میرے پاس میرے آفس آئی تھی وہ سر کاری محکمے میں گریڈ 11کی ملازم تھی اُس کا باس اُس سے کسی بات پر ناراض ہو گیا تھا اُس نے غصے میں آکر تبادلہ پنجاب کے دور دراز علا قے میں کر دیا تھا اب وہ بیچاری اپنی ٹرانسفر کینسل کرانے کے چکر میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتی ہو ئی میرے پاس آگئی تھی کہ کو ئی وظیفہ بتائیں کہ اُس کا تبادلہ رک جائے میں نے وظیفہ بتا دیا اِس سلسلے میں وہ تین چار بار میرے پاس آئی آخری ملاقات میں اُس نے ایسی بات کر دی کہ میں نے اُسے اپنے پاس آنے سے منع کر دیا کہ دوبارہ زندگی میں کبھی میرے پاس نہ آئے مجھے آج بھی آخری ملاقات یاد ہے جب وہ آئی اور کہنے لگی سر آج میں نے تنہائی میں آپ سے ملنا ہے اور پھر تنہائی میں جب اُس نے کہا سر آپ مجھ سے دوستی کر لیں مجھے اپنی keepبنا لیں اِس کے بدلے میں میری مدد کر دیں اُس کی بات سن کر مجھے لگا اُس نے میرے منہ پر تیزاب پھینک دیا ہو میری رگوں میں بچھو دوڑنے لگے میں اُس کی جرات اور بے باکی پر حیران تھا اُس کو خوب ڈانٹا اور کہا چلی جاؤں جاتے جاتے وہ کہہ گئی سر اِس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے کسی طاقت ور انسان کا دست شفقت چاہیے ہو تا ہے ورنہ بھیڑیوں کا یہ معاشرہ میرے جیسی بے آسرا بچیوں کو ادھیڑدیتا ہے اِن بھیڑیوں سے بچنے کے لیے کسی طاقت ور کی نو کری کر نا پڑتی ہے آپ کے پاس میں نے معاشرے کے بااثر منسٹر بیوروکریٹ دیکھے تو اِس لیے آپ کو دوستی کی آفر کی کہ آپ میری مدد کردیا کریں گے ورنہ خونخوار درندے مجھے اِس معاشرے میں جینے نہیں دے رہے جہاں نو کری کر تی ہوں وہاں میرا باس اپنی ناجائز خواہش کی تکمیل کے لیے تنگ کر تا رہا جب میں نے بات نہیں مانی اُس نے میری ٹرانسفر کر دی اب وہ پیغام بھیجتا ہے میرے بستر تک آجاؤ تبادلہ بھی رک جائے گا اور دوبارہ کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا نوکری بھی تم شہزادیوں کی طرح کرو گی بھٹی صاحب میں نے شریفانہ زندگی کو ترجیح دی تو اُس نے میرا تبادلہ کرا دیا میں اور میرے جیسی بے آسرا لڑکیاں اِن سرکاری دفتروں میں جب تک جنسی کھلونہ نہیں بنتیں آرام سے نوکری نہیں کر سکتیں میرے ماں باپ مر چکے ہیں میں اور میری دو بہنیں زندہ ہیں جن کی کفالت میں کر تی ہوں محلے میں بھی اوباش لڑکے بے آسرا سمجھ کر تنگ کر تے ہیں پاکستان کے سارے شہروں میں مُجھ جیسی لڑکیاں ہر موڑ محلے گلی میں مدد مدد پکارتی ہیں لیکن سارے کو فی بن چکے ہیں جہاں زینب کی پکار کو ئی بھی سننے والا نہیں ہمارے شہر موہنجودڑو ہڑپہ بن چکے ہیں جہاں موت بے حسی کا راج ہے جہاں پر اور بے آسرا لڑکیاں نازک پھولوں کی طرح کچلی جاتی ہیں کو ئی ہماری آواز سننے والا نہیں ہے مدد کا ہر دروازہ کھڑکی بند ہے کو ئی بھی ہماری آواز نہیں سنتا آپ کو نیک انسان سمجھ کر مدد کی بھیک مانگی آپ بھی عام انسانوں جیسے نکلے پھر ناز چلی گئی اور جاکر کسی طاقت ور کی keepبن گئی تاکہ درندوں کے اِس معاشرے میں زندہ رہ سکے میری رگ رگ پور پور ندامت کی آگ میں جھلس رہی تھی پھر میں نے ایک فیصلہ کیا او ر سو گیا اگلے دن میں ناز کو مسیج کیا کہ بیٹا ایک بار آکر مل جاؤ مجھے تم سے بات کر تی ہے تو اگلے دن وہ میرے سامنے بیٹھی تھی وہ شرمندہ شرمندہ سی تھی اُس کی مدد کے لیے میں اپنے بڑے بیوروکریٹ سے بھی مستقل مدد کر وعدہ لے چکا تھا کہ اب میں بولا ناز تم نے جو آفر کی تھی میں آج وہ قبول کر تا ہوں لیکن رشتہ میں طے کروں گا آج سے تم میری بیٹی ہو میں اپنی بیٹی کی طرح تمہاری دیکھ بھال کروں گا اور اِس مددمیں فلاں سرکاری آفسر بھی شامل ہے اب تمہیں جب بھی ضرورت ہو گی ہم دونوں باپ بن کر تمھاری مدد کریں گے میری بات سن کر ناز حیران ہوئی پھر اُس کے چہرے پر خوشی کے قوس قزاح کے رنگ بھکرتے چلے گئے اور آنکھوں میں تشکر کے موتی جھلملانے لگی ناز شکریہ کر کے چلی گئی کہ تو بہ کبھی غلط راستے پر جاؤں لیکن اُس کے جانے کے بعد بھی میرا سانس گھٹ رہاتھا کہ پتہ نہیں آج بھی ناز جیسی کتنی لڑکیاں اپنی بقا کے لیے کسی طاقتور کے سامنے دوستی کی آفر کر رہی ہو گی پتہ نہیں کب و ہ عادلانہ نظام آئے گا جہاں ایسی بے کس لڑکیوں کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔