پہلے پہل تو یہ تصاویر دھندلی ہوتی ہیں۔ جب آئس فِن نامی پیلے رنگ کی تیز ریموٹ کنٹرول روبوٹک آبدوز آہستہ آہستہ برف کے نیچے آگے بڑھتی ہے تو کیمرے کے پاس سے مٹی کے ذرات سے آلودہ پانی گزرتا ہے۔
اس کے بعد پانی صاف ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
آئس فِن برف کے نیچے تقریباً نصف میل یا 600 میٹر کی گہرائی پر دنیا کے سب سے تیزی سے بدلنے والے بڑے گلیشیئرز میں سے ایک کے سامنے ہے۔
اچانک اس کے اوپر ایک سایہ لہرانے لگتا ہے۔ یہ مٹی سے ڈھکی برف کی ایک چٹان کے نیچے پہنچ چکی ہے۔
یہ بہت بڑا نہیں لگتا لیکن اس کے باوجود یہ ایک منفرد تصویر ہے۔ یہ ایسی جگہ سے آنے والی دنیا کی پہلی تصاویر ہیں جو ہماری دنیا کو بدل رہا ہے۔
آئس فِن ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سمندر کا نیم گرم پانی تھوئیٹس نامی عظیم الجثہ گلیشیئر کے سامنے برف کی دیوار سے ٹکراتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں برف کا یہ ٹکڑا پگھلنا شروع ہوجاتا ہے۔
’دنیا کا سب سے اہم گلیشیئر‘
گلیشیئرز کے ماہرین نے تھوئیٹس کو دنیا کا ’اہم ترین‘ گلیشیئر، ’خطرناک ترین‘ گلیشیئر اور یہاں تک کہ ’ڈومز ڈے‘ گلیشیئر تک کا نام دیا ہے۔
یہ بہت بڑا ہے اور لگ بھگ برطانیہ کے حجم جتنا ہے۔
یہ اکلوتا گلیشیئر ہی دنیا بھر کی سمندری سطح میں ہونے والے اضافے کے چار فیصد کی وجہ بن چکا ہے جو کہ اکیلے گلیشیئر کے لیے بہت بڑا عدد ہے۔ سیٹلائٹ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔
اس واحد گلیشیئر کے اندر اس قدر پانی موجود ہے کہ یہ دنیا بھر کی سمندری سطح میں نصف میٹر کا اضافہ کر سکتا ہے۔
تھوئیٹس انٹارکٹکا کے اس وسیع و عریض برفانی میدان کے درمیان میں موجود ہے جسے ’ویسٹ انٹارکٹک آئس شیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ برف کی اس چادر میں موجود پانی سے سمندروں کی سطح میں مزید تین میٹر اضافہ ہو سکتا ہے۔
مگر رواں برس تک کسی نے بھی اس گلیشیئر پر بڑے پیمانے پر کسی سائنسی سروے کی کوشش نہیں کی۔
تقریباً 40 دیگر سائنسدانوں کے ساتھ آئس فِن ٹیم ’انٹرنیشنل تھوئیٹس گلیشیئر کلیبوریشن‘ نامی اتحاد کا حصہ ہے۔ یہ اتحاد برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے پانچ کروڑ ڈالر (تین کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ) کی خطیر رقم سے پانچ سال کے عرصے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ یہ گلیشیئر اتنی تیزی سے کیوں تبدیل ہو رہا ہے۔
یہ منصوبہ انٹارکٹکا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے پیچیدہ سائنسی پروگرام ہے۔
آپ کو حیرت ہو گی کہ اس قدر اہم گلیشیئر کے بارے میں ہم اتنا کم کیوں جانتے ہیں۔ کم از کم مجھے تو بہت حیرانی ہوئی تھی جب مجھے اس ٹیم نے اپنے کام کی کوریج کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔
جب میں نے یہاں پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا تو مجھے فوراً معلوم ہوگیا کہ ایسا کیوں ہے۔
برفیلے رن وے پر مزید برف باری کی وجہ سے نیوزی لینڈ سے میک مرڈو تک کی میری پرواز تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ انٹارکٹکا میں امریکہ کا مرکزی تحقیقی سٹیشن ہے۔
یہ تاخیر اور تعطل کی ایک طویل سیریز میں سے پہلی تاخیر تھی۔ سائنسدانوں کی ٹیموں کو اپنے فیلڈ کیمپوں تک صرف پہنچنے میں ہی کئی ہفتے لگتے ہیں۔
ایک موقع پر تو پورے سیزن کی تحقیق ہی منسوخ کیے جانے کے قریب پہنچ گئی تھی کیونکہ میک مرڈو سے مغربی انٹارکٹکا تک کی تمام پروازیں لگاتار 17 دنوں تک طوفانوں کی وجہ سے منسوخ ہو گئی تھیں۔
تھوئیٹس اس قدر اہم کیوں ہے؟
انٹارکٹکا وہ برِاعظم ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ طوفان آتے ہیں، اور مغربی انٹارکٹکا اس برِاعظم کا وہ حصہ ہے جہاں باقی علاقے سے زیادہ طوفان آتے ہیں۔
تھوئیٹس انٹارکٹکا کے حساب سے بھی نہایت دور دراز ہے۔ یہ قریب ترین تحقیقی مرکز سے 1000 میل (1600 کلومیٹر) سے زیادہ فاصلے پر ہے۔
آج تک اس گلیشیئر کے سامنے صرف چار افراد پہنچے ہیں اور وہ بھی رواں سال کی تحقیق کے لیے جانے والی اولین پارٹی میں تھے۔
مگر مستقبل میں سمندری سطح میں کتنا اضافہ ہو گا، اس کی بالکل درست پیشگوئی کے لیے یہ ضروری ہے کہ سائنسدان یہ جانیں کہ یہاں پر کیا ہو رہا ہے۔
انٹارکٹکا کی برف میں دنیا کا 90 فیصد تازہ پانی مقید ہے، اور اس میں سے 80 فیصد برف اس منجمد برِاعظم کے مشرقی حصے میں ہے۔
مشرقی انٹارکٹکا میں برف کی تہہ موٹی ہے، اوسطاً ایک میل سے بھی زیادہ موٹی۔ مگر یہ بلند میدانوں کے اوپر موجود ہے اور نہایت آہستگی سے سمندر میں جاتی ہے۔
اس میں سے کچھ برف تو لاکھوں کروڑوں سال سے یہاں موجود ہے۔
مگر مغربی انٹارکٹکا کافی مختلف ہے۔ یہ مشرقی حصے سے چھوٹا مگر پھر بھی بہت بڑا ہے اور تبدیلی سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے۔
مشرقی حصے کے برعکس یہ بلند میدانوں پر موجود نہیں ہے۔ درحقیقت تقریباً برف کی یہ پوری تہہ سطحِ سمندر سے کہیں نیچے ہے۔ اور اگر برف نہ ہوتی تو یہ چند جزیروں والا ایک گہرا سمندر ہی ہوتا۔
مجھے انٹارکٹکا میں پانچ ہفتے ہو چکے تھے جس کے بعد مجھے برٹش اینٹارکٹک سروے کے طیارے پر سوار کروا کر گلیشیئر کے سامنے لے جایا گیا۔
میں ٹیم کے ساتھ وہاں کیمپنگ کروں گا جسے گراؤنڈنگ زون کہا جاتا ہے۔
انھوں نے برف کے اوپر اپنا کیمپ وہاں لگایا ہے جہاں گلیشیئر کا سمندر کے پانی سے ملاپ ہوتا ہے۔ اور ان کا کام سب سے مشکل کاموں میں سے ہے۔
یہ تقریباً نصف میل نیچے اس جگہ تک ڈرلنگ کرنا چاہتے ہیں جہاں گلیشیئر پانی پر تیر رہا ہے۔
اس سے قبل کسی نے بھی اتنے بڑے اور اتنے متحرک گلیشیئر کے ساتھ یہ کام نہیں کیا ہے۔
یہ لوگ اس سوراخ سے سمندر کے پانی تک رسائی حاصل کریں گے جو گلیشیئر کو پگھلا رہا ہے۔ یہ جانیں گے کہ یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے اور گلیشیئر پر اتنے خطرناک انداز میں کیوں حملہ آور ہو رہا ہے۔
ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
جتنی تاخیر ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس انٹارکٹک گرمیوں کے کچھ ہی ہفتے باقی بچے ہیں جس کے بعد موسم نہایت خراب ہو جائے گا۔
جب ڈرلنگ ٹیم کے ارکان اپنا ساز و سامان سیٹ کر رہے تھے تو میں گلیشیئر کے نیچے کی تہہ میں زلزلوں کے سروے میں مدد کرواتا ہوں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف اوریگون میں ماہرِ گلیشیئر ڈاکٹر کییا ریورمین سٹین لیس سٹیل کی ایک بڑی سی گھماؤ دار ڈرل بِٹ کے ساتھ ڈرلنگ کرتی ہیں اور تھوڑا تھوڑا دھماکہ خیز مواد سیٹ کر دیتی ہیں۔
ہم میں سے باقی لوگ برف میں ‘جیو فون’ یا ‘جیو راڈ’ لگانے کے لیے سوراخ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ برقی کان ہوتے ہیں جو دھماکے سے ہونے والی آواز کی بازگشت کو سننے میں مدد دیتے ہیں جو پانی اور برف کی لہروں سے ہو کر آتی ہے۔
تھوئیٹس سمندر کی تہہ پر کھڑا ہے
سائنسدان تھوئیٹس کے بارے میں اس قدر فکرمند اس لیے ہیں کیونکہ جیسے جیسے آپ زمین کی جانب جائیں تو گلیشیئر پہلے سے زیادہ موٹا ہوتا جاتا ہے۔
اپنے گہرے ترین مقام پر گلیشیئر کی بنیاد سطحِ سمندر کے ایک میل سے زیادہ نیچے ہے اور اس کے اوپر ایک میل اونچی برف کی تہہ ہے۔
بظاہر سمندروں کا گہرا نیم گرم پانی ساحل تک بہہ کر آ رہا ہے جس سے گلیشیئر پگھل رہا ہے۔
اور جیسے جیسے گلیشیئر پگھلتا ہے، اور زیادہ برف پانی کے سامنے آتی جاتی ہے۔
یہ ایسا ہے جیسے آپ پنیر کے تکونے ٹکڑے کے باریک حصے سے سلائس کاٹنے شروع کریں۔
ہر سلائس کا سائز بڑا ہوتا جائے گا جس سے پگھلانے کے لیے پانی کو پہلے سے زیادہ برف ملے گی۔
اور صرف یہی وہ واحد اثر نہیں ہے۔
کششِ ثقل کا مطلب ہے کہ برف ہمیشہ ہموار رہنا چاہے گی۔ اور جیسے جیسے گلیشیئر کا سامنے کا حصہ پگھلے گا، تو اس سے پیچھے برف کے بڑے ذخیرے کا وزن اسے آگے دھکیلے گا۔
ڈاکٹر ریورمین سمجھاتی ہیں کہ یہ گلیشیئر آگے دھکیلنا چاہتا ہے۔ برف کی دیوار جتنی زیادہ اونچی ہوگی، گلیشیئر اتنا ہی آگے آئے گا۔
اور گلیشیئر جتنا زیادہ پگھلے گا، اس میں موجود برف کے بہنے کا اتنا ہی زیادہ امکان ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’خوف یہ ہے کہ یہ سب چیزیں تیز تر ہوتی جائیں گی۔ یہ ایک خوفناک چکر ہے۔‘
اس قدر سخت ماحول میں اتنے بڑے پیمانے پر سائنسی تحقیق کرنا اتنا آسان نہیں کہ کچھ سائنسدانوں کو بس اڑا کر کسی دور دراز جگہ پہنچا دیا جائے۔
انھیں ٹنوں کے حساب سے خصوصی سامان، بیسیوں ہزار لیٹر ایندھن، خیمے، کیمپنگ کا دیگر سامان اور خوراک درکار ہوتی ہے۔
میں نے برف پر ایک ماہ گزارا، ان میں سے چند سائنسدان مجھ سے بھی زیادہ عرصہ یعنی دو ماہ یا اس سے زیادہ وہاں پر گزاریں گے۔
امریکہ کے انٹارکٹک پروگرام کے برفانی علاقوں کے لیے خصوصی ہرکولیس کارگو طیاروں نے تقریباً ایک درجن پروازوں کے ذریعے سائنسدانوں اور ان کے کچھ سامان کو مغربی اینٹارکٹیکا کی برفانی چادر کے وسط میں پروجیکٹ کی مرکزی پوسٹ تک پہنچایا۔
اس کے بعد ایک پرانے ڈکوٹا اور دو ٹوئن اوٹر طیاروں نے لوگوں اور ان کے سامان کو فیلڈ کیمپس تک پہنچایا جو کہ یہاں سے سینکڑوں میل دور گلیشیئر میں سمندر کے پاس ہیں۔
یہ فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ انھیں گلیشیئر سے نصف فاصلے پر ایک اور کیمپ قائم کرنا پڑا تاکہ طیاروں میں دوبارہ ایندھن بھرا جا سکے۔
برٹش انٹارکٹک سروے کا اس میں تعاون ایک زبردست زمینی سفر کے طور پر تھا، جس میں سینکڑوں ٹن ایندھن اور کارگو لایا گیا۔
انٹارکٹیکا کی گذشتہ گرمیوں کے دوران جزیرہ نما اینٹارکٹیکا کے کنارے پر ایک برفانی چٹان کے ساتھ دو خصوصی بحری جہاز لنگر انداز ہوئے۔
اس کے بعد خصوصی برفانی گاڑیوں میں سوار ڈرائیورز کی ایک ٹیم نے انھیں زمین کے سب سے مشکل موسم اور زمینی حالات سے گزار کر ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے تک کھینچا۔
یہ ایک مشکل سفر تھا اور زیادہ سے زیادہ رفتار صرف 10 میل فی گھنٹہ تھی۔
برف میں ڈرلنگ
گراؤنڈنگ زون کیمپ میں موجود سائنسدانوں کا منصوبہ ہے کہ وہ برف سے سوراخ ڈرل کرنے کے لیے گرم پانی کا استعمال کریں۔
اس کے لیے انھیں 10 ہزار لیٹر پانی چاہیے ہو گا جس کا مطلب 10 ٹن برف کو پگھلانا ہے۔
ہر کوئی کدالوں کے ساتھ کام سے لگ جاتا ہے اور ایک چھوٹے سوئمنگ پول کے سائز کے ربڑ کے کنٹینر ’فلبر‘ میں برف پھینکنے لگتا ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے کے ڈرلنگ انجینیئر پال اینکر کہتے ہیں کہ ’یہ دنیا کی سب سے جنوبی جیکوزی ہو گی۔‘
اس کا اصول نہایت سادہ ہے۔ آپ کئی بوائلرز کی مدد سے پانی کو نقطہ ابال سے تھوڑا کم گرم کریں، اور اس کے بعد اسے برف پر سپرے کریں اور پگھلا کر اپنا راستہ بنائیں۔
تاہم دنیا کے سب سے زیادہ متحرک گلیشیئر کے سامنے تقریباً آدھ میل برف میں ایک 30 سینٹی میٹر کا گڑھا کھودنا آسان نہیں ہے۔
اس برف کا درجہ حرارت منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اس لیے یہ گڑھا برف بن جائے گا اور یہ پورا عمل غیر یقینی موسم پر منحصر ہے۔
جنوری کے آغاز میں جب تمام آلات تیار تھے تو ہمیں تنبیہ کی گئی کہ ایک اور طوفان آنے کو ہے۔
عام طور پر انٹارکٹکا کے طوفان بہت شدید ہوتے ہیں۔ یہ غیر معمولی بات نہیں ہے کہ اس علاقے میں برفانی طوفان تیز ہواؤں کے علاوہ کم درجہ حرارت کا بھی باعث بنتے ہیں۔
یہ طوفان انٹارکٹکا میں آنے والے طوفانوں کے برعکس کم درجے کا ہے تاہم اس میں بھی تین دن تک ہوا کی رفتار 50 میل فی گھنٹا تک رہی۔ ان ہواؤں کے باعث کیمپ میں بڑی تعداد میں برف آتی ہے جو آلات پر بھی پڑتی ہے اور تمام کام رک جاتا ہے۔
ہم کھانے کے ٹینٹ میں بیٹھ کر تاش کھیل رہے تھے اور چائے پی رہے تھے اور سائنسدان یہ بحث کر رہے تھے کہ یہ گلیشیئر اتنی تیزی سے کیوں پگھل رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلی، موسم کی شدت اور بحری لہروں کا درجہ حرارت شامل ہیں۔
اس حوالے سے سب سے اہم سمندر کا گرم پانی ہے جو دنیا کے دوسرے کونے سے آتا ہے۔
جیسے جیسے گرین لینڈ اور آئس لینڈ کے درمیان خلیجی لہروں کے درجہ حرارت کم ہوتے ہیں، پانی کا وزن بڑھ جاتا ہے۔
پانی نمکین ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ زیادہ وزنی ہو جاتا ہے لیکن تب بھی اس کا درجہ حرارت صفر ڈگری سے ایک یا دو سینٹی گریڈ زیادہ ہوتا ہے۔
اس وزنی اور نمکین پانی کو ایک گہری سمندری لہر جسے ایٹلانٹک کنویئر بھی کہتے ہیں لے کر جنوبی ایٹلانٹک پہنچا دیتی ہے۔ یہ لہریں پانی کی کم درجہ حرارت والی سطح کے نیچے سفر کرتی ہے۔
ہواؤں میں تبدیلی
یہاں یہ انٹارکٹک سرکمپولر کرنٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ٹھنڈے پانی کی تہہ سے تقریباً 530 میٹر گہرائی میں سفر کرتی ہے۔
انٹارکٹکا میں سطح پر موجود پانی کا درجہ حرارت منفی دو ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جو نمکین پانی کا نقطہ انجماد ہے۔
گہرائی میں سفر کرنے والا یہ گرم پانی پورے برِاعظم کے گرد گھومتا ہے تاہم حال ہی میں یہ مشرقی اینٹارکٹکا کی برفانی حدود کو چھو رہا ہے۔
اس موقع پر موسمیاتی تبدیلی کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔
ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بحرالکاہل کے پانی کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کے باعث ہواؤں کے رخ تبدیل ہو کر مشرقی اینٹارکٹکا کی جانب ہو چکے ہیں۔ جس کے باعث یہ گرم اور گہرا پانی براعظم کی شیلف سے ابھر رہا ہے۔
نیویارک یونیورسٹی میں بحری جغرافیہ کے ماہر ڈیوڈ ہالینڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ گہرا اینٹارکٹک سرکمپولر پانی اپنے سے اوپر موجود پانی سے کچھ ہی درجے گرم ہے لیکن یہ گیلشیئر کے پگھلنے کا باعث بن سکتا ہے۔‘
ڈیوڈ ہالینڈ گراؤنڈنگ زون کیمپ میں موجود نمایاں سائنسدانوں میں سے ایک ہیں۔
مجھے انٹارکٹکا سے دسمبر کے اواخر میں نکلنا تھا تاہم تاخیر کے باعث ڈرلنگ کا آغاز سات جنوری کو ہی ہو سکے گا۔
ایسے میں میک مارڈو میں امریکی انٹارکٹک پروگرام کے ہیڈکوارٹر سے سیٹلائٹ فون کال آتی ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ ہم مزید یہاں نہیں رک سکتے اور ہمیں فوراً رسد فراہم کرنے والے جہاز میں میں واپس جانا ہو گا جو ایک گھنٹے میں کیمپ پہنچ رہا تھا۔
یہ انتہائی مایوس کن تھا کہ ہمیں اس گڑھے کے بننے سے قبل ہی واپس جانا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہاں پہنچنے اور ان آلات کو چلانے میں ہمیں بہت وقت لگا تھا۔
ہم الوداع کہتے ہوئے جہاز پر بیٹھ گئے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ ڈرل کے اوپر موجود پہیہ گھوم رہا ہے اور اس میں سے کالے رنگ کا مواد نکل رہا ہے۔
وہ برف میں تقریباً آدھے میل گہرائی تک پہنچ چکے تھے۔ ہمارا جہاز کیمپ کے اوپر سے ہوتا ہوا شمال کی جانب سمندر کے جانب پرواز کر رہا تھا۔
سائنسدانوں نے مجھے بتایا کہ ہمارا کیمپ برف کے ایک ایسے ٹکڑے پر تھا جسے ابھری ہوئی زمین نے محفوظ بنا رکھا تھا۔
جیسے ہی ہماری پرواز گلیشیئر کے سامنے سے گزری تو مجھے یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ یہ گلیشیئر کتنا نازک ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ کچھ عظیم قوتیں آہستہ آہستہ اس برف کو توڑ اور کھا رہی ہیں۔
کچھ جگہوں پر برف کی یہ تہہ مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے اور یہ آہستہ آہستہ چھوٹی برفانی چٹانوں کی شکل میں سمندر میں تیر رہی ہیں۔
دوسری جگہوں پر ایسی برف کی چٹانیں ہیں جو سمندر کی تہہ سے ایک میل کی بلندی پر ہیں۔
گلیشیئر کے سامنے کا حصہ تقریباً 100 میل چوڑا ہے اور ہر سال اس کا دو میل طویل حصہ سمندر میں گرتا ہے۔
اس کے پگھلنے کا پیمانہ بہت بڑا ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تھوئیٹس دنیا میں سمندروں کی سطح میں اضافے کی ایک انتہائی اہم وجہ ہے لیکن مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ ایک اور عمل کے باعث اس کے پگھلنے کی رفتار مزید تیز ہو سکتی ہے۔
پگھلنے کی رفتار میں اضافہ
زیادہ تر گلیشیئر جو سمندر میں بہتے ہیں ان میں ’آئس پمپ‘ ہوتا ہے۔
سمند کا پانی نمکین ہونے کے ساتھ ساتھ گاڑھا ہوتا ہے۔ پگھلنے والا پانی تازہ ہونے کے علاوہ ہلکا بھی ہوتا ہے۔
جیسے جیسے گلیشیئر پگھل رہا ہے تازہ پانی کا بہاؤ سطح پر ہے اور نیم گرم اور وزنی پانی اس کے نیچے بہتا ہے۔
جب سمندر کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے تو یہ عمل انتہائی سست ہوتا ہے۔ آئس پمپ عام طور پر کچھ درجن سینٹی میٹر ہی پگھلتا ہے اور یہ نئی بننے والی برف پر آسانی سے توازن برقرار رکھ لیتا ہے۔
تاہم سائنسدانوں کے مطابق نیم گرم پانی اس عمل کو تبدیل کر دیتا ہے۔
دوسرے گلیشیئرز سے ملنے والے شواہد کے مطابق اگر آپ گرم پانی کی مقدار میں اضافہ کریں تو آئس پمپ مزید تیزی سے کام کرتا ہے۔
اس وقت تک ہمیں مزید سائنسدان مل جاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی کامیاب سیزن رہا ہے۔
انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گہرا نیم گرم سرکم پولر پانی گلیشیئر کے نیچے جا رہا ہے اور انھوں نے اس حوالے سے اچھے خاصے اعداد و شمار اکھٹے کر لیے ہیں۔
آئس فن نام روبوٹ آبدوز نے اب تک پانچ مشنز پر کام کیا ہے۔ اس نے گلیشیئر کے نیچے موجود پانی کی متعدد پیمائشیں لے چکا ہے اور انتہائی حیرت انگیز تصاویر بھی کھینچ چکا ہے۔
ان اعداد وشمار کا جائزہ لینے کے کئی برس لگ جائیں گے اور اس ٹیم نے ان اعداد و شمار کو پہلے سے بنائے گئے ماڈلز میں ڈال دیا ہے جس سے مستقبل میں پانی کی سطح میں اضافے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
سمندر کی سطح میں اضافہ
تھوئیٹس فوراً ختم نہیں ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کے خاتمے میں صدیاں نہیں تو دہائیاں ضرور لگیں گی۔
تاہم اس وجہ سے ہمیں لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے۔
سمندر کی سطح میں ایک میٹر کا اضافہ شاید سننے میں زیادہ نہ لگے خاص کر جب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ جگہوں پر لہریں تین یا چار میٹر تک بلند یا گر سکتی ہیں۔
برطانوی انٹارکٹک سروے میں سائنس کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈیوڈ وان کا کہنا ہے کہ سمندر کی سطح کا طوفانوں سے تعلق ہے۔ آپ لندن کی مثال دیکھ لیں۔
سمندر کی سطح میں پچاس سینٹی میٹر کے اضافے کا مطلب یہ ہے کہ جو طوفان اس سے قبل ہر 1000 برس بعد آتا تھا اب ہر 100 برس بعد آئے گا۔
اگر اس سطح میں ایک میٹر تک کا بھی اضافہ ہوتا ہے تو یہ طوفان ہر 10 برس بعد آنے کا امکان ہے۔
پروفیسر وان کا کہنا ہے کہ ’اس بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں بالکل بھی حیرانگی نہیں ہونی چاہیے۔‘ ہم اس وقت اس جہاز میں بیٹھنے لگے تھے جو ہمیں نیوزی لینڈ اور پھر گھر لے جائے گا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئے مقدار کے باعث ماحول اور سمندروں میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
حرارت توانائی ہے اور توانائی سے موسم اور سمندری لہروں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ نظام میں توانائی میں اضافہ کریں گے تو تمام بڑے عالمی قدرتی عمل تبدیل ہو جائیں گے۔
پروفیسر وان نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ’آرکٹک میں یہ تبدیل ہو چکے ہیں اور جو ہم انٹارکٹک میں دیکھ رہے ہیں وہ ایک بڑا نظام اپنے لحاظ سے جواب دے رہا ہے۔‘