Site icon DUNYA PAKISTAN

خواجہ اینڈ سنز کا شہزادہ ماموں!

Share

میں اپنے خاندان کا شہزادہ ماموں ہوں۔ شہزادہ میرا ’’نِک نیم‘‘ ہے۔ سارے والدین کو اپنے بیٹے شہزادے ہی لگتے ہیں، چاہے گھر سے باہر انہیں کوئی منہ بھی نہ لگاتا ہو۔ میں اور بھائی جان ضیاء الحق قاسمی (مرحوم) چھ بہنوں کے ’’اکلوتے‘‘ دو بھائی تھے، والدین کو لگتے تو ہم دونوں شہزادے ہی تھے لیکن میں چونکہ چھوٹا تھا لہٰذا مجھے ’شہزادہ‘ کا نِک نیم دیا گیا۔ اب میں اپنی بڑی بہن کے بعد سب سے بڑا ہوں، مجھ سے چھوٹی صرف ایک بہن ہے اور اس کے شوہر سید عزیر شاہ کو بھی ’’شہزادہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ میری چار بہنیں فوت ہو چکی ہیں، ماشاء اللہ ان کی آل اولاد، جو خاصی کثیر تعداد میں ہے، سب کی شادی ہو چکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ میرے یہ بھانجے بھانجیاں اب خود بھی دادا دادی بن چکے ہیں، چنانچہ اب وہ سب بھی مجھے شہزادہ ماموں کہتے ہیں۔

میں جب گھرانے کے کسی بچے بچی کی شادی میں شریک ہوتا ہوں تو چاروں طرف سے شہزادہ ماموں، شہزادہ ماموں کی پیار بھری آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ سب کورس میں ’’شہزادہ ماموں آ گئے‘‘ کہتے ہوئے مجھے چمٹ جاتے ہیں۔ مجھے نہ تو ان میں سے کسی کا نام یاد ہوتا ہے اور نہ یہ علم ہوتا ہے کہ وہ میرے کس بھانجے یا بھانجی کا بیٹا یا بیٹی ہے تاہم مجال ہے میں کسی کو یہ احساس ہونے دوں مگر جب مجھ سے کوئی یہ پوچھتا ہے کہ شہزادہ ماموں یہ بتائیں کہ یہ بچہ کون ہے تو میں سیاسی جواب دیتا ہوں، ’میری جان ہے اور کون ہے؟‘

ایک مزے کی بات ہے کہ میرے بھانجوں میں، ایک بہن کی اولاد ایسی ہے جو ساری کی ساری فنکار ہے، یہ میری مرحومہ بہن ماجدہ آپی کی اولاد ہے، میرے بہنوئی امین بھائی جان (مرحوم) اپنے طور پر ایک بہت دلچسپ شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہینڈسم بھی تھے، ان کے نو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ جب ان کے ہاں اولاد ہوتی تھی وہ اپنے تین چار ماہ کے بیٹے کو بازوئوں میں تھامے دوسری طرف کسی اور کو کھڑا کرکے والی بال کی طرح اسے اس کی طرف اچھال دیتے اور یہ والی بال کافی دیر تک جاری رہتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے سارے بچے سخت جان ہیں۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ بھی ہے، جب یہ بیٹے آٹھ نو سال کے تھے اور گرمیوں کے موسم میں گھر میں آم آتے جو ایک ٹب میں برف ڈال کر ٹھنڈے کیے جاتے، اس کے ساتھ ہی سارے بیٹے کپڑے اتارنا شروع کر دیتے اور ٹب کے گرد صرف ایک جانگیہ پہنے بیٹھ جاتے۔ ایک بار بھائی جان کے کسی دوست نے سب اہلِ خانہ کو کھانے پر بلایا، کھانے کے بعد آم آنے کی آواز سنائی دی تو سب لڑکوں نے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ بہرحال میرے ان بھانجوں میں سب سے بڑا میجر جاوید پیرزادہ ہے جو مجھ سے صرف دو سال چھوٹا ہے چنانچہ میں اس کا ماموں بھی اور لنگوٹیا بھی ہوں، ہم بچپن میں اکٹھے نہایا کرتے تھے اور اسی عالم میں نہاتے تھے، جس عالم میں بچے نہاتے ہیں۔ موصوف بہت اچھے سنگر ہیں اور پی ٹی آئی کے بہت بڑے سپورٹر بھی مگر صرف اس وقت جب کوئی پی ٹی آئی کی مخالفت کرے۔ اسی طرح میجر زاہد پیرزادہ بھی سنگر ہیں اور سلمان پیرزادہ تو ٹاپ کلاس سنگر ہے اور میوزیکل شوز میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے مجمع لوٹ لیتا ہے۔ عابد پیرزادہ جادوگر ہے، شعبدے دکھا دکھا کر آپ کی مت مار دیتا ہے اور میرا ایک اور بھانجا مبین پیرزادہ تخلیقی ذہن کا مالک ہے اور نت نئے آئیڈیاز پیش کرتا رہتا ہے اور انہیں کامیاب بھی بناکر دکھاتا ہے۔ اور باقی رہا معین پیرزادہ، یہ ہیوسٹن میں اپنا ریڈیو رن کرتا ہے اور اپنی دلچسپ گفتگو سے بہت کم عرصے میں اس ریڈیو کو ہیوسٹن کے عوام کی آواز بنا دیا ہے۔ ایک اور بھانجا متین پیرزادہ جسے میرے ابا جی ’’متّے بابا‘‘ کہا کرتے تھے، بھی گلوکار ہے مگر یہ سب گلوکار بھانجے ’’بےاستادے‘‘ اور نان کمرشل ہیں، بس شوقیہ اپنی گھریلو محفلوں میں گاتے ہیں کہ اللہ نے انہیں آواز بہت اچھی دی ہے۔

میرا یہ کالم شادی بیاہ کے موقع پر ہر طرف سے شہزادہ ماموں کی پیاری آوازیں سنانے کے حوالے سے تھا مگر میرے بہنوئی امین بھائی جان کی اولاد پر مرکوز ہو کر رہ گیا کیونکہ ان کی ساری اولاد وکھرے ٹائپ کی ہے۔ ایک بہت پیارا بھانجا عدیل بخاری بھی ہے جو نمبر ون مسخرہ ہے، اس کے علاوہ ماشاء اللہ ندیم، نوید، اظہر، مظہر، اطہر اور امجد ہیں جن کے نام لکھ کر ان سب کے آگے اور پیچھے سید اور بخاری لکھنا نہ بھولیں اور ہاں ایک بہت لاڈلا بھانجا سید کاشف عزیر بھی ہے کہ میری سب سے چھوٹی بہن کا اکلوتا بیٹا ہے۔ مجھے سید عزیر شاہ بھی پیارا ہے کہ میرا فرسٹ کزن بھی ہے اور میری چھوٹی بہن کا شوہر بھی! عتیق، صدیق اور عثمان میری سب سے بڑی مرحومہ بہن کے بیٹے ہیں۔ عثمان اور صدیق وفات پا چکے ہیں، یہ دونوں مجھے بہت پیارے تھے۔ ایک مرحومہ بہن کا اکلوتا بیٹا طلحہ مجید ہے، باقی ان کی بیٹیاں ہیں۔

میں نے یہ جو لمبی چوڑی داستان بیان کی ہے، اس کی ایک جھلک آپ نے میرے بہت مقبول ڈرامہ سیریل خواجہ اینڈ سنز میں بھی دیکھی ہو گی جب ایک گھریلو شادی کی تقریب میں بچوں بچیوں کا ایک ہجوم جمع ہوتا ہے اور ہر طرف سے شہزادہ ماموں کی مدھر بھری آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور یہ جملہ بھی جو میں نے اس کالم میں دہرایا ہے یعنی پوچھے جانے پر کہ یہ کون ہے، میں کہتا ہوں ’’یہ کون ہے؟ یہ میری جان ہے اور کون ہے؟‘‘ میں نے سوچا آج آپ کو ’’خواجہ اینڈ سنز‘‘ کا اصل محرک بھی بتا ہی دوں!

Exit mobile version