ہماری پارلیمان میں جب بھی کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آئے تو اس موضوع پر تقاریر کرنے والے اراکین کی اکثریت حکومت کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ کے افسران اس معاملے کے بارے میں ’’عالمی ضمیر‘‘ کو جگانے میں ناکام رہے۔وقت آگیا ہے کہ ’’عوام کے منتخب نمائندوں‘‘ پر مشتمل وفود بنائے جائیں۔ وہ دُنیا بھر کے ممالک میں پھیل کر وہاں کے میڈیا اور سیاسی رہ نمائوں کو مقبوضہ کشمیر کی تشویش ناک صورتحال کے بارے میں آگاہ کریں۔انہیں مؤثر دلائل سے اس امر پر مجبور کریں کہ بھارت کی ہندوانتہاپسند حکومت کو کشمیریوں پر ظلم ڈھانے سے روکنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔اپنے صحافتی کیرئیر کے لگ بھگ 30برس میں نے پاک-بھارت تعلقات کے بارے میں رپورٹنگ کی نذر کئے ہیں۔پیشہ وارانہ تقاضہ تھا کہ اس تناظر میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر بھی توجہ مرکوز رکھی جائے۔کشمیر کے ضمن میں ذاتی طورپر بھی بہت جذباتی محسوس کرتا ہوں۔صحافیانہ لگن کی بدولت بے شمار مشکلات اور پابندیوں کے باوجود تحریک آزادی کے تقریباََ ہر رہ نما سے رابطے کی صورت نکالی۔ان میں سے کئی اب مجھے اپنے خاندان کا رکن ہی شمار کرتے ہیں۔ان روابط کی بدولت عملی صحافت سے کنارہ کشی کے باوجود تازہ ترین حالات سے آگاہ رہتا ہوں۔
5اگست2019کے بعد کشمیر کی جو ’’نئی‘‘ صورت اُبھری ہے اس کے خدوخال سے خوب واقف ہوں۔اپنی محدودات کے باوجود جو جانتا ہوں اسے ذہن میں رکھتے ہوئے مسلسل دوروز قومی اسمبلی کی پریس گیلری اور لائونج میں بیٹھ کر پیر اور منگل کے دن اس ایوان میں کشمیر پر ہوئی تقاریر کو سنا تو دل واقعتاً پریشان ہوگیا۔
5فروری کے ’’یوم کشمیر‘‘ کے تناظر میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہوا دو روزہ اجلاس میری ناقص رائے میں دُنیا کو بنیادی طورپر اس وجہ سے بھی کوئی مؤثر پیغام نہیں دے پائے گا کیونکہ اس ایوان کے قائدیعنی وزیر اعظم پاکستان وہاں موجود ہی نہیں تھے۔وزیر خارجہ بھی ان کے ہمراہ ملائیشیاء جاچکے تھے۔ان دونوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر وزراء بھی مذکورہ اجلاس سے غائب رہے۔ حکمران جماعت کی نشستوں پر حاضری نہ ہونے کے برابر رہی۔جو اراکین موجود تھے وہ گروپس کی صورت میں نشستوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو بارہا انہیں یاد دلانا پڑا کہ ایوان میں ایک ’’اہم‘‘ معاملہ زیر بحث ہے۔برائے مہربانی اس معاملے پر ہوئی تقاریر کو توجہ سے سنا جائے۔شہباز شریف صاحب کئی ہفتوں سے لندن میں قیام پذیر ہیں۔ان کی عدم موجودگی میں نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے اراکین کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ پنجابی محاورے کے مطابق ’’کس کی ماں کو ماسی کہیں‘‘۔ ان کی اکثریت حاضری لگواکر گھر چلی جاتی ہے۔خواجہ آصف سوٹ ٹائی پہنے آتے ہیں۔اپنی نشست سنبھالتے ہیں اور چند مسلم لیگی رہ نمائوں سے سرگوشیوں میں گفتگو کے بعد ایوان سے رخصت ہوجاتے ہیں۔پیر کی شام اگرچہ انہوں نے کشمیر کے موضوع پر ایک دھواں دھار تقریر فرمائی۔مقصد اس تقریر کا عمران حکومت کو کشمیر کے بارے میں ’’غیر مؤثر‘‘ ثابت کرنا تھا۔پیپلز پارٹی کے جواں سال رہ نما بلاول بھٹو زرداری ایوان میں تشریف ہی نہ لائے۔ان کے نانا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر ہی کی بدولت نام کمایا تھا۔ 1965کی جنگ کے دوران ان کی اقوام متحدہ میں ہوئی تقریر نے میری نسل کے بے پناہ نوجوانوں کے دلوں کو گرمایا تھا۔بعدازاں کشمیر کی خاطر ’’ہزاروں سال جنگ لڑنے‘‘ کا وعدہ بھی بھٹو صاحب ہی نے کیا تھا۔بہتر ہوتا کہ وہ کشمیر کے لئے مختص اجلاس سے خطاب فرماتے اور اس ضمن میں اُبھرے نئے سوالات کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتے۔کشمیر سے ’’یک جہتی‘‘ کے اظہار کے لئے قومی اسمبلی کا جو دو روزہ اجلاس ہوا ہے وہ فقط روایت کو ’’فروعات‘‘ کے ذریعے نبھانے کی ایک کوشش تھی۔ ’’گفتار کے غازیوں ‘‘نے مشاعرہ لوٹنے کی کوشش کی۔’’ عالمی ضمیر‘‘ مگر اس کے باوجود سوتا ہی رہے گا۔’’عالمی ضمیر‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے منافقت بھلاکر یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ اگر ہمارے ہی ملک کے 342منتخب اراکینِ اسمبلی کشمیر کے لئے مختص کئے اجلاس کے بارے میں سنجیدگی وگرم جوشی نہیں دکھاتے تویہ ’’ضمیر‘‘ پریشان کیوں ہو۔مزید دُکھ مجھے اس امر پر بھی ہوا کہ کشمیر کے لئے مختص اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تقریباََ ہر مقرر ہمیں اس مسئلے کی ’’تاریخ‘‘ سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا۔مہاراجہ کشمیر کے ذکر کے بعد اقوام متحدہ کا کردار زیر بحث آتا۔اس کی جانب سے ’’استصوابِ رائے‘‘ کا وعدہ اور بھارت کی اس ضمن میں کہہ مکرنیاں۔تحریک انصاف کے وزراء اور اراکین اسمبلی یہ ثابت کرنے میں مصروف رہے کہ عمران خان صاحب نے کشمیر کے حوالے سے دُنیا کے اہم ترین اداروں اور رہ نمائوں کو بھارت کی مودی سرکار کی ’’مذمت‘‘ کرنے کو مجبور کردیا ہے۔وہ نریندرمودی اور اس کی BJPکو دورِ حاضر کے ہٹلر اور نازی پارٹی کی صورت دیکھنا شروع ہوگئے ہیں۔عمران خان سے قبل جو وزرائے اعظم پاکستان کو نصیب ہوئے وہ کشمیر کا نام لیتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔نواز شریف تو ’’مودی کے یار‘‘ بن گئے تھے۔جواب آں غزل کے طورپر اپوزیشن اراکین 2019کے بھارتی انتخابات سے قبل عمران خان صاحب کے وہ فقرے یاد دلاتے رہے جن کے ذریعے انہوں نے اس ’’امید‘‘ کا اظہار کیا تھا کہ وزیر اعظم کے منصب پر بھاری اکثریت سے لوٹ کر نریندرمودی مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کے لئے ٹھوس پیش قدمی دکھائے گا۔اپوزیشن کی جانب سے طنزیہ لہجے میں عمران خان صاحب کی ڈونلڈٹرمپ سے یکے بعد دیگرے تین ملاقاتوں کا ذکر بھی ہوتا رہا۔ٹرمپ کی جانب سے ’’ثالثی‘‘ کی پیش کش بھی یاد دلائی گئی۔ مقصد ان حوالوں کا ہمیں یہ باور کروانا تھا کہ شاید ٹرمپ -عمران ملاقاتوں میں ’’کشمیر کا سودا‘‘ ہوچکا ہے۔اب فقط آنیاں جانیاں ہیں۔دھواں دھار تقاریر ہیں۔منگل کے روز قومی اسمبلی سے خطاب فرماتے ہوئے عمران حکومت کے انتہائی متحرک اور بلند آہنگ وزیر جناب فواد چودھری صاحب نے یہ پھلجھڑی بھی چھوڑی کہ مسلم لیگ (نون) کے خواجہ آصف ان دنوں عمران خان کے بجائے پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔پارلیمانی رپورٹروں نے کشمیر کے بجائے ان کے اس دعوے کو ٹِکروں کی صورت ٹی وی سکرینوں پر پھیلانا شروع کردیا۔ کشمیر کا ذکر وقتی طورپر فراموش کردیا گیا۔کشمیر کے لئے مختص دوروزہ اجلاس کے دوران کسی ایک رکن قومی اسمبلی نے اس حقیقت کو اجاگر نہیں کیا کہ رواں مہینے کے آخری ہفتے میں نریندرمودی اور عمران خان کا مشترکہ ’’دوست‘‘ ڈونلڈٹرمپ بھارت کے تین روزہ دورے میں مصروف رہے گا۔اس دورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستانیوں کو مسلسل یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ اپنے قیامِ بھارت کے دوران امریکی صدر مودی حکومت کو کشمیر کے ذکرسے کچھ پریشان کرے گا یا نہیں۔وہ اپنے اثرورسوخ کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو کم از کم اس امر پر تو مجبور کرسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر 5اگست2019سے مسلط ’’کمیونی کیشن بلاکیڈ‘‘ کا خاتمہ ہو۔کشمیریوںکو انٹرنیٹ تک رسائی دی جائے۔ وہاں کے سینکڑوں نوجوان جو رات کی تاریکی میں گھروں سے اُٹھاکر دہلی راجستھان اور یوپی کی جیلوں میں بند کردئیے گئے ہیں اگر فوری طورپر رہا نہیں کئے جاسکتے تو کم از کم انہیں اپنے آبائی علاقوں کے قریب قائم جیلوں میں منتقل کردیا جائے۔بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں یہ قطعاََ معصومانہ تقاضے ہیں۔امریکی صدر اگر بھارتی وزیر اعظم سے ان کا تقاضہ نہیں کرتا تو پاکستان کو بھی افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ کی مسلسل مدد سے گریز کے لئے تھوڑی ہمت وجرأت دکھانا چاہیے۔سفارت کاری میں یک طرفہ تعاون کی گنجائش نہیں ہوتی۔بنیادی طورپر یہ ادلے بدلے کا کھیل ہے۔’’اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے‘‘سفارت کاری کا کلیدی اصول ہے۔عمرا ن حکومت کے لئے امریکی انتظامیہ سے کشمیر کے حوالے سے تعاون حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ اس برس کے نومبر میں صدارتی انتخاب جیتنے کے لئے ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج کی ’’باعزت‘‘ واپسی کی راہ نکالنے کو بے چین ہے۔سفارت کارانہ مہارت کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے عمران حکومت کے لئے ضروری ہے کہ ٹرمپ کو واضح الفاظ میں یہ پیغام دے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا بھرپور تعاون فقط اسی صورت مہیا ہوسکتا ہے اگر ٹرمپ انتظامیہ کشمیریوں پر نازل ہوئے عذاب کے ازالے کے لئے مودی سرکار پر اپنا اثرورسوخ دیانت داری سے استعمال میں لائے۔