قاری بنام نظامِ ریاست!
جناب سعید اظہر صاحب! میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں۔ اس میں میں اپنی زندگی میں پیش آنے والے ایک دو واقعات کا ذکر کروں گا۔ میں پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور ہوں۔ میری زندگی کے مشاہدات جو میری 45سالہ پیشہ ورانہ زندگی کے تجربہ کی روشنی میں پیش آئے اگر ان کا احاطہ کرنے بیٹھ جائوں تو شاید آپ پڑھتے پڑھتے تنگ آ جائیں کیونکہ ہمارے حکمران جو آج سے کئی برس پہلے کر رہے تھے۔ آج بھی وہی کر رہے ہیں۔ آج بھی تمام وزراءاپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے جبکہ یہ سب تکبر اور غرور کے مریض ہیں۔ انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں کبھی کبھی یہ گمان گزرنے لگتا ہے کہ ہمارے بعض رہبر اور محافظ ہی سب سے بڑے رہزن ہیں۔ یہ لوگ رحم اور ترس سے خالی ہیں۔ مجھے نوعمری میں ہی اپنے گھر کی معیشت کے لئے تعلیم ادھوری چھوڑ کر محنت مزدوری کے لئے اس بےرحم معاشرے کے رحم و کرم پر گھر سے نکل کر رکشہ چلانا پڑا۔ آج میری عمر 66برس ہے اور میں آج ایک دہاڑی دار رکشہ والا ہوں۔
آج سے کئی برس پہلے کا واقعہ جو میں کبھی بھول نہیں سکتا یہاں پر درج کر رہا ہوں۔ شاید اس سے میرے دل کا کچھ بوجھ کم ہو سکے۔ عید سے ایک دن پہلے میں سارا دن محنت مزدوری کر کے گھر جانے لگا تو لاہور ہوٹل کے قریب ایک شخص نے مجھے روک کر کہا کہ گلبرگ جانا ہے۔ ان دِنوں انکار بھی ایک جرم تھا۔ میں نے کہا صاحب میں تو گھر جا رہا تھا لیکن آپ بیٹھ جائیں میں آپ کو چھوڑ کر چلا جائوں گا۔ شاید میرا یہ جملہ اس کی طبیعت کو ناگوار گزرا وہ شخص بیٹھ تو گیا مگر اپنی منزل پر پہنچ کر اس نے مجھ سے پوچھا کتنے پیسے میں نے کہا صاحب جو مناسب سمجھتے ہیں دے دیں۔ اس کے گھر کے باہر جو پلیٹ لگی ہوئی تھی اس پر اس کے نام کے ساتھ انسپکٹر تھانہ غالب مارکیٹ لکھا تھا میرے اس جملے پر کہ صاحب جو مناسب ہے دے دیں کے جواب میں اس نے پوری طاقت کے ساتھ میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا اور میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔
اس اندھیرے میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں ہی میرے دل میں اپنی ماں اور اپنے بہن بھائیوں کا جو بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور میرا انتظار کر رہے تھے کے چہرے آ گئے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے صبر کی توفیق دے دی اور میں نے جواب میں ایک جملہ تک نہ کہا کہ یہ بندہ کم از کم میری عید کے چند دنوں کے لئے تو مجھے تھانہ میں بند کروا سکتا ہے اور میری ماں کیا کرے گی۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اتنے میں اس کے گھر والی کچھ خواتین آ گئیں۔ انہوں نے کہا چلو چھوڑو جی دفعہ کرو یہ لوگ ایسے ہی ہیں اور اس نے مجھے گندی گالیاں دے کر چھوڑ دیا۔ میں گھر واپس آتے تمام راستہ روتا ہوا آیا، مغلپورہ میں میرا گھر تھا واپس آیا اور یہ ارادہ کر لیا کہ آج کے بعد رکشہ نہ چلائوں گا۔ جب گھر پہنچا تو میری چھوٹی چھوٹی بہنیں اور ماں بہت خوش ہوئیں سب مجھے گھیر کر بیٹھ گئیںاور مجھے اس درندے کی درندگی کم محسوس ہوئی۔ کیا آج بھی ہم ان درندہ صفت لٹیروں اور ظالموں سے محفوظ ہیں کیا آج بھی ہمارے بچوں کو باعزت روزگار کے لئے ان جیسے ہزاروں بدبختوں سے ہر وقت اپنی بے عزتی کا خوف نہیں ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اور بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جناب محترم! کوئی وقت کے حاکم وزیراعظم سے احکامات لیتا ہے کوئی براہ راست وزیراعلیٰ سے احکامات لیتا ہے۔ اسی طرح درجہ بدرجہ عام لوگ جو سفید پوش طبقات ہیں۔ ان کا حاکم ان کے سر پر مسلط S.H.Oیا وہ اہل کارہیں جو عام لوگوں کے درمیان کسی نہ کسی آسیب کی صورت میں موجود رہتے ہیں۔ کافی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ کرشن نگر میں فرقہ ورانہ مسائل کی وجہ سے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ میں سیکریٹریٹ چوک میں کھڑا تھا کہ کرفیو میں وقفہ تھا۔ اچانک ٹائم ختم ہو گیا کچھ لوگ جلدی جلدی گھروں کو لوٹ رہے تھے اور جا بھی رہے تھے کہ ایک نوجوان موٹر سائیکل پہ جانے کی کوشش کرنے لگا تو ایک اہل کار نے روک لیا۔ اس نے کہا بھائی میرا گھر ساتھ ہی ہے میں گھر کا سودا سلف لینے گیا تھا مگر اہل کار نے کہا تم نہیں جا سکتے اس کی منت سماجت کے جواب میں اس اہل کار نے زبردستی اس کی موٹر سائیکل سائیڈ پر لگوا لی اور اس کو دھکے اور گالیاں دینے لگ گیا۔ میں ابھی تمہارا انتظام کئے دیتا ہوں صاحب آئیں گے تو پوچھ کر چلے جانا۔ اتنے میں ایک کار اور اُس کے پیچھے ایک فوجی ٹرک آتا دکھائی دیا۔ اس نے کہا صاحب آ گئے ہیں ان سے پوچھ لینا۔ کار میں مجسٹریٹ تھا۔ جونہی مجسٹریٹ کی گاڑی رکی اہل کار نے آگے ہو کر جلدی میں صاحب کو کچھ بتایا تو صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ٹرک میں بٹھانے کا اشارہ کر دیا۔ وہ نوجوان صاحب سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کو موقع ہی نہ دیا گیا اور اہل کار نوجوان کو گریبان سے پکڑ کر ٹرک کے پیچھے لے گیا اوراسے اس طرح ٹرک میں پھینکا جیسے کوئی آٹے کی بوری پھینکتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کا مجھے پتہ نہیں میں آج بھی اس طرح کے کسی وقوعہ کا سوچ کر کانپ جاتا ہوں۔
سادہ سا سوال ہے، قارئین! میرے خط کنندہ دوست مولوی رفیق کے خیال میں آپ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ امیر ہو یا غریب، کسی ریاستی اہلکار کے قابو میں آ جائے تو وہ آج بھی اس کی نسلیں برباد کر سکتا ہے اور قانون کی گاڑی کے پہیوں کے نیچے اس کے وجود کا نام و نشان مٹا سکتا ہے، لہٰذا ہم صرف غلام ہیں، جب تک اللہ بچائے بچائے، بصورت دیگر ہم سب غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اس سوال کا کسی کے پاس جواب ہو تو دے دے۔