بہت سے واہمے (Myths) ہیں جو ہم نے پال رکھے ہیں۔ بہت سے مغالطے ہیں، ہم جن میں مبتلا ہیں۔ وقت ایک شفیق استاد کی طرح ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے۔ کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے؟ مثال کے طور پر:
1۔ ریاست سماج پر مقدم ہے۔ سیاست درست خطوط پر استوار ہو جائے تو معاشرہ سنور جاتا ہے۔
2۔ اصلاح کا سفر اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے۔ وقت کا حکمران اگر دیانت دار ہو تو معاشرہ دیانت دار ہو جاتا ہے۔
3۔ منظم و مضبوط سیاسی جماعتوں کے بغیر بھی، جمہوریت اور عوامی حقوق کی کوئی جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی جا سکتی ہے۔
4۔ تجدید و اصلاح کے بغیر مذہب سماج کی تعمیر میں مثبت کردار ادا سکتا ہے۔
5۔ سماج کو مذہب کے آئیڈیلز کے سامنے سر نگوں ہونا ہے۔ مذہب سماجی حالات کی رعایت نہیں کرتا۔ وہ حالات سے ماورا ایک تصور ہے۔
6۔ امتِ مسلمہ ایک سیاسی تجسیم کا نام ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک عالمگیر سیاسی نظم کے قیام کو اپنا ہدف بنائیں۔
7۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشی نظام کی تشکیل سے لے کر کرونا وائرس کے خاتمے تک، ہمارے تمام مسائل حل کرے۔
8۔ ریاست کسی نظریے کے نفاذ کے لیے بنتی ہے۔ سیاسی استحکام یا بنیادی حقوق کا تحفظ، اس کے بنیادی وظائف نہیں ہیں۔
9۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔
10۔ پاکستان ایک مملکت خداداد ہے جس پر فطری اور طبعی قوانین (Natural Laws) کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بطور قوم، ہم حماقتوں کے انبار لگا دیں، یہ ریاست پھر بھی قائم رہے گی۔
11۔ ریاست کے دفاع کا انحصار اس کی عسکری قوت پر ہے، صحت مند قوم پر نہیں۔
یہ چند بڑے بڑے واہمے اور مغالطے ہیں جن میں کم و بیش ہر آدمی مبتلا ہے۔ واہموں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو گروہی ہے۔ ممکن ہے ایک گروہ میں پائے جاتے ہوں اور دوسرا ان سے محفوظ ہو۔ جیسے بعض واہمے طبعاً ‘مذہبی‘ ہیں۔ یہ مذہبی طبقات کو لاحق ہو سکتے ہیں۔ بعض واہمے بنیادی طور پر ‘سیکولر‘ ہیں۔ سیکولر گروہ ان کا شکار بنتے ہیں۔ اگر کوئی ایسے گروہی واہموں کی فہرست بنائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو جائے۔
جن اجتماعی واہموں کی میں بات کر رہا ہوں، یہ سیاست دانوں سمیت تمام طبقات نے پھیلائے ہیں مگر اس میں زیادہ حصہ اہلِ دانش کا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ، وہ اس کا محرک بنے ہیں۔ انتہا پسندی کو دیکھ لیجیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس ‘دانش ور‘ کا انتہا پسندانہ سوچ کے فروغ میں سب سے زیادہ کردار ہے، وہ اس کی مذمت میں سب سے بلند آہنگ ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ وہی فصل ہے جس کو وہ خود کئی برسوں سے پانی دیتا رہا ہے۔ حسنِ ظن ہے کہ اسے خود اس کا اندازہ نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں اپنے خیالات اور طرزِ عمل پر نظر ثانی کا کوئی رواج نہیں۔
انقلابی قائدین نے بھی انتہا پسندی کے فروغ میں حصہ بقدرِ جثہ ڈالا ہے۔ دنیا میں جتنی انتہا پسندی ہے، اس کا فکری ماخذ انقلابی تصورات ہیں۔ بیسویں صدی میں اشتراکیت یا اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے جو انقلابی تحریکوں اٹھیں، انہوں نے تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ لینن اور ماؤ نے اپنے پیروکاروں کو تشدد پر ابھارا اور اس کا پرچارکیا کہ خون بہائے بغیر کوئی انقلاب نہیں آتا۔
اسلامی انقلاب کے سرخیل بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔ آیت اللہ خمینی صاحب نے شاہ کے خلاف تحریک اٹھائی تو کہا: ”ابھی سے خون خرابے کے خوف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ضروری ہے کہ خون بہایا جائے… کیا ہمارا خون امام حسین کے خون سے زیادہ مقدس ہے؟ ہم اپنا خون بہانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟…‘‘ (صحیفۃ الامام)
آج یہ دونوں طبقات انتہا پسندی کی مذمت کرتے دکھائی دیں گے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ فی الواقعہ انتہا پسندی کو سماج کے لیے ایک عذاب سمجھتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے گروہ کی انتہا پسندی کا ہدف بنے ہوں۔ میرا احساس ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے افکار کو اس نظر سے نہیں دیکھا اور نہ کبھی اس کا جائزہ لیا کہ خود ان کا گروہ انتہا پسندی کے فروغ میں کتنا حصہ دار ہے۔
یہ ایک معاشرے کے اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج میں اٹھنے والے فکری رجحانات کا جائزہ لیں۔ مقبول افکار کی قدر پیمائی کریں۔ وہ بتائیں کہ ان خیالات و رجحانات میں کیا کچھ ضرر کا باعث بنا اور کس سے خیر کا صدور ہوا۔ حالات نے کس نظریے کی صحت پر مہرِ تصدیق ثبت کی اور کون سا تصور محض ایک واہمہ ثابت ہوا۔ اگر یہ کام تسلسل سے ہوتا رہے تو معاشرہ کسی انتشار میں مبتلا ہوئے بغیر، ارتقائی مراحل طے کرتا رہتا ہے۔
2014ء کے بعد، پاکستان میں جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا،2018 ء کے بعد بھی اس میں کوئی کمی نہیں آ سکی۔ اس دوران میں کئی سیاسی واہمے اپنے انجام سے دوچار ہوئے۔ اس ملک کے اہلِ دانش نے ان کا کوئی علمی تجزیہ نہیں کیا، الاما شااللہ۔ مثال کے طور پر عمران خان صاحب کے اس تصور کا سنجیدہ تجزیہ ہونا چاہیے تھا کہ تبدیلی کا رخ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ جو لوگ انہیں دیانت دار سمجھتے ہیں، کم از کم وہ تو جائزہ لیتے کہ ایک دیانت دار آدمی کے وزیر اعظم بننے کے باوجود، ملک میں کوئی تبدیلی کیوں نہیں آئی؟
اسی طرح نواز شریف صاحب ووٹ کی عزت کروانے نکلے تھے۔ اس مہم جوئی کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ کم از کم وہ لوگ جو انہیں اس معاملے میں مخلص سمجھتے ہیں، انہیں سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ کیوں ناکام ہوئے؟ نون لیگ کی سیاسی لغت اچانک کیسے بدل گئی؟ محکمہ زراعت، خلائی مخلوق اور اس طرح کی اصطلاحوں کے مفاہیم راتوں رات کیسے تبدیل ہوئے اور کیوں؟
عامیانہ جواب فکری مغالطوں کا تدارک نہیں کر سکتے۔ جیسے کوئی کہہ دے کہ عمران خان صاحب کے پیش نظر کوئی تبدیلی تھی ہی نہیں۔ وہ تو محض اقتدار کے لیے عوامی جذبات سے کھیل رہے تھے۔ یا یہ کہ نواز شریف صاحب صرف ملک سے باہر جانے کے لیے دباؤ بڑھا رہے تھے۔ اس طرح کے سطحی جواب سے ہم خود کو شاید مطمئن کر لیں، مغالطوں سے نجات نہیں پا سکتے۔
اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ ان جوابات کو اگر درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عمران خان کی جگہ کوئی مخلص آدمی ہو گا تو تبدیلی آ جائے گی۔ یا نواز شریف مخلص ہوتے تو ووٹ کو عزت مل جاتی۔ گویا مسئلہ مغالطوں اور واہموں کا نہیں، افراد کا ہے۔ میرے نزدیک افراد اگر بدل جائیں اور مغالطے باقی رہیں تو بھی عمرِ رائگاں کے ماتم کے سوا ہمارے مقدر میں کچھ نہیں ہو گا۔ پھر عمر بن عبدالعزیزؓ جیسا حکمران ہی کیوں نہ آ جائے، تبدیلی اس کی آنکھ بند ہوتے ہی قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔
سیاسی جماعتوں سے تو سوچ بچار کی توقع رکھنا عبث ہے کہ صحیح معنوں میں اس ملک میں سیاسی جماعت موجود ہی نہیں۔ یہ کام ملک کے اہلِ دانش کو کرنا ہے کہ وہ ان واہموں اور مغالطوں کو موضو ع بنائیں تاکہ عوام کی شعوری سطح بہتر ہو۔ معاشرہ فکری ارتقا کے مراحل سے گزرے۔ بصورتِ دیگر یہ دائروں کا سفر ہے جو جاری رہے گا۔
اچھی بات یہ ہے کہ سماجی سطح پر اضطراب ہے جو نشان دہی کرتا ہے کہ احساسِ زیاں موجود ہے۔ بری بات یہ ہے کہ اس اضطراب کا رخ متعین نہیں۔ اس کا حاصل،کم از کم سر دست، فکری پراگندگی ہے۔ اگر اہلِ دانش آگے بڑھ کر ان واہموں کو موضوع بنائیں تو یہ اضطراب ایک حقیقی تبدیلی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ حقیقی تبدیلی پہلے مرحلے میں نظری ہوتی ہے۔