’کبھی کبھی مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں اندر سے بالکل خالی ہو گئی ہوں، میرا بچہ بھوک سے چیخیں مار مار کے روتا ہے لیکن میرا دودھ اتنا نہیں ہوتا کہ وہ پیٹ بھر کے پی سکے۔‘
یہ کہنا ہے رابعہ فہد کا جو چار ماہ پہلے ہی ماں بنی ہیں اور آج کل اپنے بچے کو پیٹ بھر کر دودھ پلانے کی مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں کبھی اٹھ کر اسے بہلاتی ہوں اور کبھی اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی ہوں، کبھی اس کو ایک سائیڈ سے دودھ پلانے کی کوشش کرتی ہوں تو کبھی دوسری طرف سے۔ لیکن اس دوران وہ تھک جاتا ہے تو مجھے ڈبے کا دودھ دینا پڑتا ہے۔ میرا دودھ اتنا آتا ہی نہیں تھا کہ وہ پیٹ بھر کر پی سکے۔‘
ڈاکٹر شبینہ عارف آغا خان ہسپتال کراچی سے منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچے کی پیدائش کے بعد 98 فیصد ماؤں کا دودھ اُتر آتا ہے مگر دو فیصد ماؤں کو اس سلسلے میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے، یا تو ان کا دودھ اترتا ہی نہیں یا مقدار میں بہت کم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شبینہ کہتی ہیں کہ اگر تین باتوں پر عمل کیا جائے تو دودھ بہت اچھا آتا ہے۔
ان میں سب سے پہلے ماں کو آرام چاہیے ہوتا ہے۔ دوسرا، فیملی سپورٹ اور تیسرا تین وقت کا ایسا مناسب کھانا جس میں دودھ پلانے والے ماں کے لیے مناسب اور ضروری کیلوریز ہوں۔
بچے کو دودھ پلانا ماں کی صحت کے لیے کتنا مفید؟
ماں کا دودھ بچے کی صحت کے لیے تو ضروری ہے ہی لیکن اگر ماں بچے کو دودھ نہ دے پائے، یا درست انداز میں نہ دے پائے تو اس کی اپنی صحت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
حاملہ ہونے کے بعد سے لے کر بچے کی پیدائش تک ماں ایک ایسے عمل سے گزرتی ہے جس میں اسے شدید ذہنی اور جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے لیے بڑا چیلنج اپنا دودھ پلانا ہوتا ہے اور بعض اوقات مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل ماں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔
قرۃ العین جب پہلی بار ماں بننے جا رہی تھیں تو انھوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ بچے کو اپنا دودھ پلائیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے دنیا میں آنے سے پہلے باقی تیاریوں کے ساتھ میرا ذہن مکمل طور پر تیار تھا کہ مجھے اسے اپنا دودھ ہی دینا ہے کیونکہ مجھے بچے کے لیے ماں کے دودھ کی افادیت کا پتا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’پیدائش کے بعد اندازہ ہوا یہ ایک مشکل کام ہے۔ مجھے درست طریقہ ہی نہیں آتا۔ کیسے بچے کو چھاتی سے لگانا ہے اور کس پوزیشن میں رکھنا ہے کہ وہ ماں کی چھاتی کو ٹھیک انداز سے مُنھ میں لے سکے۔‘
’میں چھاتی کی ایک طرف زیادہ وقت فیڈ کراتی رہتی تھی اور وہ جس طرف سوتا تھا اسی طرف سے دودھ پلا دیتی تھی۔ کچھ دن بعد مجھے چھاتی میں درد رہنے لگا اور بخار بھی ہو جاتا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں کیا کروں اور یہ سب کیا ہے۔ جب میں نے اس مسئلے کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ مجھے بریسٹ اینگارجمنٹ ہے۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب آپ ایک طرف دودھ پلاتے ہیں اور دوسری طرف دودھ جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکڑ شبینہ عارف کا کہنا ہے کہ ماں اگر اپنے بچے کو دودھ نہیں پلا پاتی تو اس سے بچے کی صحت کے ساتھ ساتھ ماں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
’ماں کی چھاتی میں دودھ جمنے لگ جاتا ہے اور زخم بن جاتے ہیں۔ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ ماؤں میں میسٹائٹس ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بریسٹ میں سوجن ہو جاتی ہے، جو کہ ماؤں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر شبینہ عارف کا کہنا ہے کہ مناسب رہنمائی سے ان مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے اور یہ رہنمائی ماں کو اس وقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ زچگی کے دوران ڈاکٹر کے پاس آتی ہے۔ تب ان کو بتانا چاہیے کہ بچے کو کس طرح گود میں لینا ہے اور کس طرح دودھ پلانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ اگر مناسب طریقہ پتا نہ ہو تو ماں کو درد ہوتا ہے جس کے بعد وہ بچے کو دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف بچے کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ماں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
ڈاکڑ شبینہ کا کہنا ہے جو مائیں بریسٹ فیڈ کراتی ہیں وہ بریسٹ کینسر اور اوویرئین کینسر جیسی خطرناک بیماریوں سے دور رہتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق بریسٹ فیڈ کروانے سے دنیا بھر میں 20 ہزار مائیں بریسٹ کینسر سے محفوظ رہ پاتی ہیں۔
’زچگی کے دوران ماؤں کا وزن بڑھ جاتا ہے جس کو بعد میں کم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن بریسٹ فیڈنگ سے وزن میں کمی ہو جاتی یے۔ ایسی مائیں جو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں شوگر کا خدشہ بھی کم ہوتا ہے۔‘
ماں کا دودھ اور غلط فہمیاں
رابعہ کا کہنا ہے ’جب آپ پہلی بار ماں بنتے ہیں تو آپ کو مس گائیڈ بھی بہت کیا جاتا ہے۔ جیسے مجھے کہا جاتا تھا کہ بچے کو دوسرے دودھ کی عادت ضرور ڈالنا جس کی وجہ سے میں نے اسے رات میں ڈبے کا دودھ دینا شروع کر دیا۔‘
ڈاکٹر ماہ رخ چوہدری لیکٹیشن ایکسپرٹ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ماں کے بچے کو دودھ پلانے کے حوالے سے بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
جیسے آئس کریم کھانے سے بچے کا گلا خراب ہو جائے گا، کھٹی چیز کھانے سے بچہ بیمار ہو جائے گا یا ماں کا شروع کا دودھ بچے کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا اوراس کو ضائع کر دیا جاتا ہے، یہ سب بالکل غلط ہے ۔ماں کا پہلا دودھ اصل میں پہلی ویکسینیشن ہوتی ہے اور یہ سب سے زیادہ مفید ہے۔
ماہ رخ کہتی ہیں ان کے پاس ایسی خواتین بھی آتی تھیں جو کہتی تھیں کہ ان کا دودھ کڑوا ہے۔ اور اس کے لیے انھوں نے دودھ میں چیونٹیاں ڈال کر دیکھا ہے اور وہ مر گئی ہیں۔ ’یہ سب لاعلمی کی وجہ سے ہے۔‘
ڈاکٹر ماہ رخ کا کہنا ہے کہ ’یہ غط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ ماں دودھ پلا رہی ہیں اور اگر وہ دوبارہ حاملہ ہو گئی ہے تو اس کو دودھ نہیں پلانا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے ماں تب بھی اپنا دودھ پلا سکتی ہے۔‘
خاندان اور معاشرے کی مدد کتنی ضروری؟
پاکستان قومی غذائی سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 48 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ شہر ہوں یا دیہات دونوں کی شرح یکساں ہیں۔ اس کےعلاوہ 15 فیصد زبردستی، 17 فیصد جزوی طور پر جبکہ 20 فیصد مائیں اپنا دودھ سِرے سے پلاتی ہی نہیں۔
قرۃ العین کا کہنا ہے کہ ماں کی لیے ضروری ہے کہ اس کو نہ صرف گھر والے سپورٹ کریں بلکہ معاشرہ بھی اس کی مدد کرے۔
وہ کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر اگر ہم کہیں باہر جاتے ہیں اور وہاں بچے کو دودھ پلانا پڑ جائے تو مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں میں نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ شاپنگ مال کے ٹرائی روم میں جا کر پلا لیتی تھا یا گاڑی کے اندر بیٹھ کر اس کو بریسٹ فیڈ کراتی تھی۔
ڈاکٹر شبینہ عارف کا کہنا ہے کہ اگر ہم ماں اور بچے کو تندرست دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کو ایسا ماحول دینا ہو گا جس میں اس کو رہنمائی کے ساتھ ساتھ سپورٹ بھی ہو تا کہ وہ بچے کو اپنا دودھ پلا سکیں۔
ڈاکٹر ماہ رخ ماں سے زیادہ معاشرے کو قصوار سمجھتی ہیں جو ماں کو وہ سپورٹ سسٹم نہیں دیتا جس کی اس کو ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ما ہ رخ کہتی ہیں کہ ملازمت پیشہ ماؤں کو بھی رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس طرح وہ اپنا دودھ پمپ کر کے بچے کے لیے گھر میں رکھ سکتی ہیں۔