پاکستان

پنجاب، پی ٹی آئی اور ق لیگ: پھر ’تبدیلی‘ کی باتیں

Share

پاکستانی سیاست ان دنوں معمول سے کچھ زیادہ مرتعش نظر آرہی ہے۔ لاہور میں اتوار کے دن مہنگائی کے خلاف ایک بہت بڑی رکشہ ریلی نکالی گئی جس سے شہر کا ٹریفک نظام درہم برہم رہا۔

چند ہفتوں سے طالب علم اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی لسانی اور سیاسی تحریکوں کے جوانوں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری ہے لیکن میڈیا پر جو منظر نامہ پیش کیا جارہا ہے وہ ان سب چیزوں سے دُور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو درپیش چیلنجز سے متعلق ہے۔

بظاہر حکومت کو اپنے ہی اتحادیوں سے خطرہ ہے۔ جہاں کچھ لوگ اس صورت حال کو ایک غیر فعال اپوزیشن کے پیرائے میں دیکھ رہے ہیں وہیں اپوزیشن کے سیاستدان مُصر ہیں کہ ان کی پیشین گوئی کہ حکومت اپنے ہی گناہوں کے بوجھ سے گر جائے گی ٹھیک ثابت ہو رہی ہے۔

کچھ بھی کہیے پچھلے چند ہفتے حکومت پر کڑے وقت کی طرح نازل ہوئے ہیں۔

تین صوبوں میں اتحادی جماعتوں نے بیک وقت اپنے عدم اعتماد کا عندیہ دے دیا ہے۔ میڈیا پر بپا یہ سیاسی طوفان تین صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لیے محسوس ہوتا ہے۔ لیکن بات سب سے زیادہ پنجاب ہی کی ہو رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو پنجاب کا حُجم ہے جو بجائے خود پاکستان کی سیاست کی سمت طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دوسری طرف دو بڑی جماعتوں یعنی تحریک انصاف اور ن لیگ کے لیے مقابلے کا میدان بھی یہی صوبہ ہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی ق لیگ حکمران جماعت کے رویے سے بے زار نظر آتی ہے اور کھل کر اس کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ بزدار کی طرز حکمرانی کو بدستور کافی تنقید کا سامنا ہے۔ ق لیگ کے لیڈران جو بطور گھاگ سیاستدان پہچانے اور جانے جاتے ہیں حکومت کے بارے میں یہ تُہمت اب مزید برداشت صرف اُس صورت میں کریں گے اگر ان کے چند تحفظات دور کردیے جائیں۔

بقول ان کے ترجمان کامل علی آغا کے یہ تحفظات ترقیاتی فنڈز اور بیوروکریسی کے بارے میں ہیں۔ اصل میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ق لیگ کے نمائندہ حلقے یعنی گجرات، چکوال، منڈی بہاﺅالدین اور بہاولنگر میں سب پوسٹنگز اور ٹرانسفرز ق لیگ کی مرضی سے ہوں۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر بزدار صاحب کا کلہ مضبوط ہونے کا اعلان فرما چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صوبے کو بدستور اسلام آباد سے بذریعہ چیف سیکرٹری چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

سیاسی حلقوں میں اتحادیوں کے ساتھ عمران خان کا رویہ بھی زیر بحث ہے کیونکہ انھوں نے نہ تو لاہور کے دورے میں بیمار چودھری شجاعت کی عیادت کرنا ضروری خیال کیا اور نہ ہی کراچی کے دورے میں ناراض ایم کیو ایم سے ملاقات ضروری سمجھی۔

ہاں میڈیا میں شور اٹھنے پر انھوں نے تینوں صوبوں کے لیے تین نئی کمیٹیاں تشکیل دے دیں جوکہ تازہ خبروں کے مطابق اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔

پنجاب میں چودھری سرور ہوں، بزدار یا شفقت محمود ق لیگ ان سب کو اپنا مخالف تصور کرتی ہے۔ ان کمیٹیوں کی تشکیل میں جہانگیر خان ترین کو بھی جو کہ ان اتحادوں کو قائم کرنے میں پیش پیش تھے نظر انداز کیا گیا ہے۔ سندھ میں تو پارٹی کے اندر ان کے حریف اسد عمر کو نئی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے۔

عمران خان کے رویے کو ان کی شخصی رعونت کے علاوہ اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک کو چلانے والی غیبی طاقتیں اُن کے ساتھ ہیں اتحادی جماعتیں کہیں نہیں جائیں گی۔

ذکر ہو غیبی طاقتوں کا اور ن لیگ کو یاد نہ کیا جائے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔

خاص طور پر شریف خاندان کے لیڈران کا جن کا ذکر اُن کی زباں بندی کی وجہ سے ہر زبان پر ہے۔ یہ سچ ہے اگرچہ شہباز شریف گاہے گاہے لندن سے کوئی بیان داغ دیتے ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال میں پنجاب کے حوالے سے شہباز شریف کا کردار دلچسپ لگ رہا ہے۔

فائل فوٹو
کمیٹی اپوزیشن کے مشترکہ لائحہ عمل کے لیے تجاویز تیار کرےگی۔

واضح رہے کہ ق اور ن لیگ کے درمیان برف پگھل چکی ہے۔ نوازشریف کے علاج کے لیے باہر جانے کے معاملے پر بھی ق لیگ نے اپنی پوزیشن واضح کردی تھی۔ لہٰذا اس بات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ پنجاب میں کسی تبدیلی میں ان دونوں جماعتوں کا رول ہوسکتا ہے۔ کچھ ذرائع کے مطابق ن لیگ کی مسلسل خاموشی اور آرمی ایکٹ میں ترمیم پر رضا مندی مقتدر حلقوں میں ان کی قبولیت کا راستہ ہموار کرنے کی ایک اورکوشش تھی۔

اس بات سے قطع نظرکہ عمران خان کو پاکستانی سیاست میں لانے کا تجربہ فیل ہوچکا ہے یا نہیں اور اس کا متبادل کیا ہوگا زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک کا بحران سیاسی سے زیادہ معاشی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا معیار دن بدن خراب تر ہو رہا ہے۔

آبادی کا ایک بڑا حصہ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہے۔ ٹیکسٹائل کی تنظیم ایپٹما نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں بجلی کے ریٹ میں اضافے کے باعث بہت سی ملیں بند ہوجائیں گی۔

چیئرمین ایف بی آر کے رخصت پر جانے کی وجہ جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ ملک میں کاروبار ہوگا تو ہی ٹیکس اکٹھا ہوگا۔ یہ حکومت ملک کے اندر اور خطے میں کوئی ایسی پر امن اور مثبت تبدیلیاں نہیں لاسکی جس سے معیشت کے مضبوط ہونے کے امکان پیدا ہوں۔

شاید آنے والے دنوں میں ایک دگرگوں معیشت ہمارے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کا سبب بن جائے۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اس تبدیلی کو لانے کے لیے ہمارے ہاں سیاسی کرداروں کی کوئی کمی نہیں۔