منتخب تحریریں

وہی شہباز شریف کی ٹیم؟

Share

جناب وزیر اعظم (اور ان کی پی ٹی آئی) کے دیرینہ مداح‘ ہمارے ایک دوست کا فون تھا‘ ”تمہیں گِلہ ہوتا ہے کہ خان صاحب ہمیشہ غصے میں نظر آتے ہیں‘ انسان کو کبھی لائٹ موڈ میں بھی ہونا چاہیے۔ تم نے دیکھا‘ آج خان صاحب ہنسی مذاق کے موڈ میں تھے‘‘۔
ان کا اشارہ‘ اس اتوار کی سہ پہر جنابِ وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کی طرف تھا۔ انہوں نے لاہور میں بڑا بھرپور دن گزارا تھا۔ ان کی مصروفیات میں پنجاب کی نئی (تبادلہ شدہ) بیوروکریسی سے خطاب شامل تھا‘ پارٹی رہنمائوں اور وزیر اعلیٰ بزدار سے ملاقاتیں بھی۔ اسلام آباد واپسی سے قبل وہ باقاعدہ میڈیا کانفرنس سے مخاطب تھے۔ جناب عثمان بزدار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے لیے سو فیصد جناب وزیر اعظم کا انتخاب ہیں۔ اس سے بڑی خوش بختی کیا ہو گی کہ وہ پہلی بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزارتِ اعلیٰ کا ہما ان کے سر پر آ بیٹھا‘ جس کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے لیے تو اپنی آبائی تحصیل تونسہ کی نظامت بھی بڑی بات تھی۔ جولائی 2018ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو یہی سوچتے تھے کہ کسی طرح ارکان اسمبلی کے ہاسٹل میں ایک کمرہ الاٹ ہو جائے۔ وہ اسمبلی کی راہ داریوں سے بھی نا آشنا تھے۔
قدرت کے اپنے کھیل ہوتے ہیں‘ پنجاب کی وزارتِ ا علیٰ کے لیے دو مضبوط ترین امیدواروں میں سے ایک‘ جہانگیر ترین سپریم کورٹ سے تا حیات نا اہل قرار پا گئے (جناب عمران خان اور ترین صاحب کے خلاف پٹیشنز کا فیصلہ ایک ہی دن آیا تھا‘ جس کے مطابق خان صاحب اہل اور جہانگیر ترین نا اہل ٹھہرے (ایک انگریزی اخبار نے اس پر Balancing Actکی سرخی جمائی تھی)۔ اب وزارتِ اعلیٰ کے دوسرے مضبوط ترین امیدوار شاہ محمود قریشی کے لیے راستہ صاف نظر آتا تھا‘ لیکن وہ اپنے ہی شہر میں صوبائی سیٹ پر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے والے تحریک انصاف ہی کے ایک نوجوان سے شکست کھا گئے۔ ان دو ہیوی ویٹس کے بعد عبدالعلیم خان کا نام آتا تھا۔ سنا ہے‘ وہ اس کے لیے لابی بھی کر رہے تھے۔ جناب عمران خان کے ناقدین‘ ترین صاحب کے علاوہ علیم خان کو بھی ”اے ٹی ایم مشین‘‘ کہا کرتے تھے۔ علیم خان نیب کے ہتھے چڑھ گئے۔
بزدار صاحب بے چارے تین میں تھے‘ نہ تیرہ میں… ان کی تو شاید عمران خان صاحب سے پہلی (با ضابطہ) ملاقات بھی ایم پی اے بننے کے بعد ہوئی۔ اس موقع پر وزارتِ اعلیٰ کے لیے اپنی نامزدگی کی خوش خبری پر انہیں دیر تک یقین ہی نہ آیا۔ ان دنوں یہ بھی کہنے سننے میں آیا کہ یہ سب کچھ کسی روحانی اشارے کا نتیجہ تھا۔
بزدار صاحب کہنے کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے‘ لیکن حقیقت میں طاقت کے تین چار مراکز اور تھے (ان میں گورنر ہائوس اور سپیکر ہائوس بھی تھے۔ کئی اہم احکام بنی گالہ سے بھی آتے)۔ قارئین سے معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی۔ قصہ مختصر یہ کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ‘ مسائل کا شکار نظر آنے لگا (جیسے ہندوستان میں مغلوں کا آخری دور تھا)۔ کہا جاتا ہے‘ اس پر مقتدر حلقے بھی مضطرب ہوئے بغیر نہ رہے۔ پارٹی میٹنگز میں بھی اس کا کھلا اظہار ہونے لگا‘ لیکن جنابِ وزیر اعظم اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
اس اتوار کو جنابِ وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس‘ وزیر اعلیٰ بزدار پر بھرپور اعتماد کا ایک اور اظہار تھا۔ جنابِ وزیر اعظم کا کہنا تھا‘ پنجاب میں ایک شریف وزیر اعلیٰ ”مافیا‘‘ سے برداشت نہیں ہو رہا‘ حالانکہ اس دوران بزدار صاحب نے زبردست ”اینیشی ایٹوز‘‘ لیے۔ وزیر اعظم صاحب کے بقول‘ انہیں بھی ان زبردست اینیشی ایٹوز کا علم‘ بزدار صاحب کی زبانی ہوا۔ وزیر اعظم صاحب کے خیال میں بزدار صاحب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ پبلسٹی میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اچھے کاموں کے ساتھ ان کا نام آئے؛ چنانچہ انہوں نے ان زبردست اینیشی ایٹوز کو بھی سیکرٹ رکھا۔ بزدار صاحب کے لیے ان کا مشورہ تھا کہ وہ اپنے زبردست اقدامات کی کچھ تشہیر بھی کیا کریں۔ ہو سکتا ہے‘ بزدار صاحب بچپن میں پڑھی یا سنی ہوئی کہاوت ”نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کو ابھی تک دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق ایک روایتی مذہبی خانوادے سے ہے‘ اور مذہبی لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی نیکی کی تشہیر‘ اس کے اجر کو ضائع کر دیتی ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنے علاقے میں ایک کالج کو اپنے نام کی بجائے‘ اپنے والد صاحب کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا۔
بزدار صاحب کے لیے ان کلماتِ تحسین کو‘ ہمارا دوست‘ جنابِ وزیر اعظم کے لائٹ موڈ‘ ان کے ہنسی مزاح سے تعبیر کر رہا تھا‘ حالانکہ جناب وزیر اعظم اس میں سو فیصد سنجیدہ تھے۔ ہمارا مذکورہ دوست تو وزیر اعظم صاحب کی جانب سے حالیہ دنوں میں اپنی قانونی ٹیم کی کارکردگی پر تعریف و تحسین کو بھی‘ ان کی حسِ مزاح کا اظہار قرار دے رہا تھا (حالانکہ جنابِ وزیر اعظم اس میں بھی سنجیدہ تھے) اور اب اسے آسٹریلیا میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی ”کارکردگی‘‘ پر وزیر اعظم کی شاباش کا انتظار تھا۔
وزیر اعلیٰ بزدار صاحب کے ان زبردست ”اینیشی ایٹوز‘‘ کا علم جناب وزیر اعظم کو خود بزدار صاحب کی زبانی ہوا‘ اور میرے خیال میں وزیر اعظم صاحب کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ ناقدین اسے ”کانوں کا کچا‘‘ ہونا کہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں‘ یہ دوستوں کے حوالے سے حسنِ ظن بھی ہو سکتا ہے‘ کہ وہ جو بتا رہے ہیں‘ درست بتا رہے ہیں۔ اسی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم صاحب سے ایک سوال لاہور میں اورنج لائن ٹرین کے حوالے سے تھا‘ جس پر بزدار صاحب نے وزیر اعظم کو بتایا کہ اس ماہ (دسمبر) کی دس تاریخ کو اورنج لائن چل پڑے گی اور وزیر اعظم صاحب نے یہی بات‘ میڈیا سے کہہ دی‘ حالانکہ آئی ٹی اور کمیونیکیشن سسٹم سمیت‘ بہت سا کام ابھی باقی ہے۔ بعض کاموں کے لیے تو ابھی کنٹریکٹ بھی سائن نہیں ہوئے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگلے سال مارچ میں بھی اگر اورنج لائن باقاعدہ چل پڑے‘ تو بڑی بات ہو گی۔
ادھر پنجاب میں‘ ان پندرہ سولہ مہینوں میں تیسری بار‘ اعلیٰ بیوروکریسی اور پولیس میں وسیع پیمانے پر تبادلوں کا معاملہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں بحث کا نیا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس بار تو یوں لگا جیسے تبادلوں کا طوفان تھا (خان صاحب کبھی ”سونامی‘‘ کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے) چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے علاوہ ہوم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت 31 سیکرٹریز‘ 9 میں سے 8 کمشنر اور 35 میں سے 31 ڈپٹی کمشنر تبادلوں کی زد میں آئے۔ ان میں خود بزدار صاحب کے اپنے ڈویژن ڈیرہ غازی خان میں کمشنر کا یہ تیسرا اور ڈپٹی کمشنر کا چوتھا تبادلہ تھا۔ جو چار اضلاع اس طوفان سے محفوظ رہے‘ ان میں گجرات اور منڈی بہائوالدین ”چودھری صاحبان‘‘ کی مکمل اجارہ داری میں ہیں۔ جہلم‘ فواد چودھری (اور ان کے خاندان) اور حافظ آباد‘ بھٹیوں کی مکمل دستبرد میں ہے۔
وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ ان بہترین افسران کے انتخاب کے لیے انہوں نے بزدار صاحب کے ساتھ مل کر تین ہفتے سخت محنت کی۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹس سے بھی مشاورت کی گئی۔ ادھر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ساری ٹیم تو وہی ہے جسے جنابِ وزیر اعظم‘ شہباز شریف کے فرنٹ مین کہا کرتے تھے۔ گزشتہ رات ایک ٹاک شو میں اوریا مقبول جان تو احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی صلاحیت اور اہلیت کے حوالے سے بھی رطب اللسان تھے۔ بنیادی سوال وہی ہے‘ ٹیم تو شہباز شریف کی آ گئی‘ لیکن اس کے لیے‘ شہباز شریف جیسا کپتان بھی تو درکار ہو گا۔ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے‘ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کو نئے اور پرانے پنجاب میں فرق واضح طور پر نظر آئے گا۔ لیکن یہ فرق تو بزدار صاحب کی وزارتِ اعلیٰ کے ساتھ ہی نظر آنے لگا تھا۔ یہ الگ بات کہ ناشکرے پنجابی (اور بطور خاص لاہوریے) پرانے پنجاب کی دوبارہ آرزو کرنے لگے ہیں۔