پیپلز پارٹی کا روشن ستارہ
میرے قارئین جانتے ہیں اور میں پیپلز پارٹی کی جانب اپنے نظریاتی جھکائو کا اعتراف کرتا ہوں۔
میری زندگی میں 4؍اپریل 1979کی رات وہ آسیبی رات ہے جس نے مجھے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے زیر و زبر کر کے رکھ دیا۔ میں اس وقت بلاول بھٹو کے نانا کی پھانسی کے اشک بار باب کو چھیڑنا نہیں چاہتا، اس تذکرے کا مقصد دراصل بلاول کو اس کے خاندانی پسِ منظر میں اُس کے سیاسی مستقبل کی ممکنہ منظر کشی کی ایک عاجزانہ سی کوشش ہے۔
ظاہر ہے بقول میرے بلاول ’’خانوادۂ شہیداں‘‘ سے تعلق رکھتا ہے، اس کی والدہ محترمہ کی شہادت اور والد گرامی کی قید و بند وہ مصائب اور آلام ہیں جس سے وہ اپنے سیاسی اثاثے کے طور پر کسی بھی حالت میں بھٹک نہیں سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کیا ہے۔
اس معاملے پر اُس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا بیانہ ہی ایک مستقل قدر کا مقام رکھتا ہے۔ ہم اِس بیانیے کی روشنی میں بلاول کے ممکنہ سیاسی مستقبل کا جائزہ لینے کو منطقی اور جائز سمجھتے ہیں اور وہ بیانیہ یہ ہے۔
بھٹو صاحب نے کہا تھا ’’مارچ 1977کے انتخابات کے انعقاد پر 25؍جولائی 1977کو جاری ہونے والی دستاویز کو وائٹ پیپر کا نام دیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پی این اے نے انتخابات میں بہت جوش و خروش سے حصہ لیا تھا۔ دونوں اطراف سے تشدد اور دھاندلی کے الزامات ایک دوسرے کے خلاف لگائے گئے تھے۔
دونوں اطراف میں انتخابی مقابلہ تلخ ترین رہا۔ وائٹ پیپر میں پی این اے کے خلاف کسی قسم کی تنقید نہیں کی گئی۔
اس میں صرف ’حزبِ اختلاف‘ کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں مجھے للکارا گیا ہے کہ میں ثابت کروں کہ میرا رویہ پی این اے کے ساتھ منصفانہ نہیں تھا۔
وائٹ پیپر یکطرفہ اور غیر جانبدارانہ حقائق پر مبنی ہے جس کی اشاعت وقت کا ضیاع ہے۔ وائٹ پیپر میں پی این اے کی عدم موجودگی کے بارے میں لنگڑے لولے بہانے دیئے گئے ہیں۔فرد جرم عائد کرنے میں وائٹ پیپر کے تعصب، جانبداری اور کرم فرمائی کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
اگر پی این اے نے انتخاب نہیں کرائے تھے تو یہ کام پیپلز پارٹی نے بھی نہیں کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات منعقد کرائے تھے جہاں انتخابی دھاندلی کے خلاف کئی شکایات درج کروائی جا سکتی تھیں اور اس زمرے میں کروائی بھی گئیں۔
وائٹ پیپر انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مبینہ دھاندلی کے خلاف بخوشی بات کرتا ہے لیکن پی این اے کی سرگرمیوں کے بارے میں بڑی فیاضانہ خاموشی کا مظاہرہ کرتا ہے جیسے پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی مہم چلائی تھی، اسی طرح پی این اے نے بھی چلائی تھی اور اس بنیاد پر وائٹ پیپر میں اس کی بداعمالیوں کا ذکر بھی ہونا چاہئے تھا۔‘‘
کیا بلاول بھٹو نے اپنے نانا کی یہ کتاب ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ مطالعہ نہیں کی ہو گی، اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔ کیا بلاول بھٹو نے اپنے نانا کی میت کا جنازہ ایک ڈھیلی ڈھالی چارپائی پر رات کے تقریباً 3بجے کے قریب دس پندرہ آدمیوں کے پڑھنے کی تصویر نہیں دیکھی ہو گی۔
میرا اس سے کوئی مذموم مقصد نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے، بلاول کا سیاسی پسِ منظر پاکستان کے تمام معروف و غیر معروف خاندانوں سے کہیں مختلف ہے۔
اس نے اس تاریخ کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا جو ایک اشک بار فرض کی صورت میں اس سے اپنی ادائیگی کا مطالبہ کر رہی ہے، چنانچہ خدا نے اسے شخصیت، علم اور ادراک سے نواز رکھا ہے اور مجھ جیسے پیپلز پارٹی کی جانب نظریاتی جھکائو رکھنے والے قلمکاروں کو یقین ہے، وہ تاریخ کے اس قرض کی ادائیگی کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔
تاریخ کے اس پشتارے کو اٹھا کر وہ قومی سیاست میں ایک منفرد ترین شخصیت کے طور پر جانا پہچانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس کے قومی سیاسی رویے اس کے تینوں پہلوئوں کی بھرپور نمائندگی کا نمونہ پیش کرتے رہتے ہیں۔
مثلاً بلاول نے حکومت کے لئے ’’سلیکٹیڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، اس اصطلاح کے استعمال کے بعد تحریک انصاف اور عمران جتنی مرضی سیاسی قلقاریاں اور آہ و زاریاں بھریں، یہ انتخاب ان کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔
اور یہ جو مہم چلائی جا رہی ہے، وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے، وہ پاکستان کے سیاسی سمندروں میں مدوجزر پیدا کر دیں گے، وہ درمیانی مدت کے انتخابات کے ذریعہ دوبارہ قوم کے ہیرو بن جائیں گے، ان دعوئوں سے اے اصحابِ پاکستان! رتی بھر متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔
بلکہ دعا کرو یہ جماعت اپنی انتخابی حکمرانی مدت پوری کرے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں، لوگ اپنے ووٹ کی وساطت سے ان کا وہ حشر کریں گے۔
یہ کوئی عقل کا اندھا اور ذہن سے محروم ہی فرض کر سکتا ہے کہ تحریکیں حکمرانوں پر اثر انداز نہیں ہوتیں، اثر انداز ہوتی ہیں اور اس حد تک کہ انہیں سنبھلتے سنبھلتے دانتوں پسینہ آ جاتا اور آنکھیں بہنے لگتی ہیں جسے ’’آشوبِ چشم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ نقشہ، یہ ہے وہ پس منظر، یہ ہے وہ قصہ کہانی، یہ ہے وہ المناک تاریخ جس کے چوراہے پر بلاول کی قومی سیاست کا محکمہ لہلہا رہا ہے اور اس کا رنگ ڈھنگ سب سے منفرد ہے۔
غیب کا علم صرف اللہ کی ذات کے پاس ہے، ظاہری طور ہم جیسے دنیا داروں کو محسوس ہوتا ہے، بلاول ان شاء اللہ تاریخ کا یہ قرض اتارنے میں کامیاب رہیں گے اور کامیابی بھی نہ صرف خیرہ کن ہوگی بلکہ انتقام سے خالی اور کارکردگی کے زیور سے لدی پھندی ہو گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت میں قمر زمان کائرہ، خورشید شاہ، نیر بخاری، بیرسٹر عامر حسن، اعتزاز احسن، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور نذیر ڈھوکی جیسے لیڈر اور کارکن تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
شیری رحمٰن، بشیر ریاض، دیگر واجب الاحترام شخصیات ابھی میں نے صاحبزادیوں آصفہ اور بختاور کا ذکر نہیں کیا، کہنے سے مراد یہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی ویسی ہی قومی جماعت ہے جیسی تھی۔
اس کے ساتھ 1988تا 2008کیا کیا ہوا، اس منحوس تاریخ کے سیاہ ابواب چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔