پاکستان میں اب تک عمران خان سمیت 22کل وقتی وزرائے اعظم حکومت کر چکےہیں۔ کل وقتی وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل رہنمائوں میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ کسی ایک نے بھی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مقررہ مدت پوری نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان ابھی اقتدار میں ہیں مگر اُن سے متعلق خدشات بھی ہمارے سامنے ہیں۔
تمام اکیس وزرائے اعظم مدت مکمل ہونے سے پہلے گھر بھیج دیے گئے۔ مدت پوری کرنے کی اس کسوٹی پر اب تک کوئی ایک وزیراعظم بھی پورا نہیں اترا۔
سوال مگر وزرائے اعظم کی ناکامی کا نہیں بلکہ ان وجوہات کا ہے جن کے باعث وہ ناکام ہوتے رہے ہیں۔ ویسے یہ تو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ہو سکتا ہے مگر پھر بھی کچھ مختصر بنیادی حقائق ہیں جو پاکستان میں کسی وزیراعظم کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔
1۔ وزیراعظم کی ناکامی کی سب سے پہلی اور بڑی وجہ پیسوں کی غیر متوازی تقسیم ہے۔ سالانہ بجٹ میں کم و بیش آدھی رقم اندرونی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں جاتی ہے۔
جس کے بعد دفاعی بجٹ پر خرچ آتا ہے۔ اس کے بعد جو رقم بچتی ہے اس سے پوری حکومت کے امور انجام دیے اور تنخواہوں و پنشنز کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جو قلیل حصہ بچتا ہے وہ ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہوتا ہے۔ وزیراعظم جب بھی اس تقسیم کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔
2۔ معیشت سرمایہ کاری سے آگے بڑھتی ہے اورسرمایہ کاراپنا سرمایہ خوف سے آزاد ماحول میں لگاتے ہیں۔ جہاں سرمایہ کار کو بہتر ماحول کے بجائے نیب، ایف بی آر، کسٹمز، ایف آئی اے جیسے ادارے ہراساں کریں تو فیکٹری چلتی ہے نہ معیشت۔ ناکام معیشت بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے جس کا الزام وزیراعظم پرعائد ہوتا ہے۔
3۔ ناکامی کی ایک وجہ اختیارات کا اصل مرکز بھی ہیں۔ عام آدمی کی نظر میں ملک کا سربراہ وزیراعظم ہے اور وہی سب سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ اس کے پاس معیشت کے اہم فیصلے، ترقیاتی منصوبے، خارجی دنیا سے تعلقات، اندرونی امن عامہ جیسے کلیدی اختیارات ہیں۔
حقیقت مگر اس کے برعکس ہے۔ اس فہرست میں صرف محدود ترقیاتی منصوبے ہی وہ واحد اختیار ہے جو وزیراعظم کے پاس بچا ہے جبکہ اصل طاقت کہیں اور ہے۔
4۔ وزیراعظم کی ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ بیوروکریسی ہے۔ پاکستان میں وقت کے ساتھ بیوروکریسی کے اختیارات و حجم دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کمزور معیشت کے علاوہ مہنگائی اور سرکاری مشینری میں خرابی کی ایک وجہ بیوروکریسی پر نگرانی کا فقدان ہے۔ ہمارے اضلاع عملی طور پر ڈپٹی کمشنرز اور پولیس افسران اپنے ماتحتوں کے ذریعے چلاتے ہیں۔
ان پر نگرانی کے لیے ضلعی حکومتوں یا لوکل گورنمنٹ کا نظام موجود نہیں۔ نتیجے کے طور پر تمام ضلع، تحصیل اور یونین کونسل سطح کے مسائل کی ذمہ داری بھی لوگ وزیراعظم پر عائد کرتے ہیں جبکہ مافیاز کھلے عام اپنا کام کرتے ہیں۔
5۔ کمزور سیاسی جماعتیں بھی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں عملی طور پر ایک فرد کا نام بن جاتی ہیں۔ ان کے عہدے انتخابات کے بجائے پارٹی سربراہ کی خواہش پر تبدیل ہوتے ہیں۔ یونین کونسل سے ضلع، صوبے اور مرکز تک عہدوں کی تقسیم اور مدت کا کوئی نظام موجود نہیں ہوتا اور ہو بھی تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
نتیجے میں پارٹی کے اندرنئی سوچ اور نیا خون شامل نہیں ہوتا۔ پرانے لوگ عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ اس طرح وزیراعظم کو زمینی حقائق تک رسائی نہیں ہوتی۔
سیاسی جماعتیں عملی طور پر ایسا پلیٹ فارم بن جاتی ہیں جن سے عام آدمی کا نہیں بلکہ سیاست میں دلچسپی کے حامل پیسے والوں کا تعلق ہی رہ جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر، نواز شریف اور عمران خان سب کی بحیثیت وزیراعظم ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کی سیاسی جماعتوں کی یونین کونسل سطح تک تنظیم سازی کا مستقل نظام نہ ہونا بھی ہے۔
6۔ میرٹ کے بغیر عہدوں کی بند ربانٹ بھی ناکامی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں وزیر تعلیم کا عہدہ ایسے شخص کو بھی دیا جا سکتا ہے جس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سیاسی جماعتیں پہلے سے عہدے تقسیم کرکے رکھتی ہیں نہ مختلف امور پر پالیسیاں تیار رکھتی ہیں۔
نتیجے میں ایسے غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار لوگ سامنے آتے ہیں جو محض چرب زبانی، چاپلوسی یا کسی اور بنا پر عہدے حاصل کرتےہیں اور پھر بہتری لانے کے بجائے مزے اڑاتے ہیں۔ میرٹ کے بغیر عہدوں کی تقسیم سیاسی جماعتوں کے منشور کو مسحور کن وعدوں پر مبنی ایک ایسی کتاب بنا دیتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
7۔ حالیہ برسوں میں وزیراعظم کو ناکام بنانے میں میڈیا کا بھی ایک کردار ہے۔ میڈیا کے اندر ایسے کرداردرآئے ہیں جن کا تعلق صحافت سے نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔ وزیراعظم یا حکومت سے ناراضی کے بعد میڈیا کے یہ کردار ایسا راگ سنانے لگتے ہیں جس میں مسائل کی نشاندہی کے ساتھ آئین میں درج پانچ سالہ مدت سے قبل ہی وزیراعظم کو رخصت کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہوتا ہے۔
یعنی عوامی رائے من مرضی سے تیارکی جاتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا میں ایسے عناصر کی بحیثیت ادارہ حوصلہ شکنی اور بیخ کنی نہیں کی گئی اور غیر تربیت یافتہ لوگ رائے کو خبر کی شکل میں پیش کر کے عوامی خیالات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
8۔ حالیہ برسوں میں کم ازکم دو وزرائے اعظم یعنی نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی رخصتی میں عدلیہ کا کلیدی کردار تھا۔
دراصل یہ عمل پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بالادستی کی ایک غیر علانیہ جنگ کا بھی شاخسانہ ہے۔ وزیراعظم کوعدلیہ کے ہاتھوں رخصتی سے بچانے کا عمل پارلیمنٹ کی عدلیہ سمیت تمام اداروں پر بالادستی سے جڑا ہوا ہے۔