تعلقاتِ عامہ کا کلچر
معاشرے تعلقاتِ عامہ (Public Relations) سے قائم رہتے ہیں یا صلاحیت کے اعتراف سے؟
اس سوال کا جواب سادہ نہیں ہے۔ کسی علمی کتاب کی رونمائی ہو تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی وزیر کی صدارت میں ہو۔ وزیر بھی وہ جس کا علم سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ مطلوب کتاب کی تشہیر ہوتی ہے۔ صدرِ تقریب اپنا بھرم رکھنے کے لیے کتاب کے بارے میں کچھ کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بسا اوقات تکلفاً۔
برسوں پرانی بات ہے۔ اسلامی یونیورسٹی نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم کی یاد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ میں اُن دنوں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم کے زیرِ سایہ طالب علمانہ زندگی گزار رہا تھا اور ہر روز اﷲ کا شکر ادا کرتا تھا کہ ایسی نادرِ روزگار شخصیت کی صحبت میسر ہے۔ اس تقریب کا اہتمام ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کا ذمہ تھا، جس کی سربراہی ڈاکٹر صاحب کے پاس تھی۔ ان دنوں اور آج بھی رسم یہی ہے کہ مہمانِ خصوصی یا صدر کے خطاب کا مسودہ تیار کرنا میزبان کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ میں اس تقریب کے صدر سے ملوں اور ان سے پوچھوں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ پھر ان کے خیالات کو ایک تقریر کی صورت دے دوں۔
میں مجوزہ صدر سے ملنے گیا اور کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا تاکہ ان کی گفتگو کے نکات درج کر سکوں۔ فرمایا: آپ تفسیر کے بارے میں مولانا علی میاں کی خدمات کا ذکر کریں۔ عرض کیا: میرے علم کی حد تک، اس باب میں ان کا کوئی منفرد کام سامنے نہیں آیا۔ کہا: اچھا، علمِ حدیث پر ان کی تحقیق پر روشنی ڈالیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایسی کوئی خدمت میرے علم میں نہیں۔ پھر فقہ، کلام سمیت کچھ اور موضوعات کی بات کی۔ میں نے جب مولانا مرحوم کے بارے میں بتایا کہ یہ بھی ان کی دلچسپی کے میدان نہیں تھے تو کہا: اچھا، پھر کچھ ‘دال دلیا‘ کر دیں۔
اور تو اور اب علمی و ادبی کتابوں کے دیباچے بھی اسی تعلقاتِ عامہ کے لیے لکھوائے جاتے ہیں۔ پرانے دور میں یہ روایت تھی کہ کتاب کے مقدمے کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جاتا تھا‘ جو اس مضمون میں اپنے علمی کام کی وجہ سے ممتاز ہو۔ مغرب میں آج بھی یہی ہوتا ہے۔ بعض اوقات مقدمہ نگار کا ذکر کتاب کے سرورق پر مصنف سے زیادہ نمایاں انداز میں کیا جاتا ہے۔
ایک میدان کانفرنسوں اور سیمینارز کا بھی ہے۔ ان میں اس حلقے کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو تعلقاتِ عامہ کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ میزبان اور مہمان کے مابین ایک غیر اعلانیہ اور غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔ اس لیے کہ آج کا مہمان کل کا میزبان ہوتا ہے۔ ایسے حلقے عالمی سطح پر وجود میں آتے ہیں اور مقامی سطح پر بھی۔
میڈیا میں بھی دیکھتا ہوں کہ کیسے حیلوں بہانوں سے اپنے حلقے کے افراد کی تشہیر کی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر واری جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے کمالات کو بیان کرتے ہیں۔ کالم نگار اور ٹی وی میزبان اہلِ سیاست و حکومت میں بھی ایسے حلقے قائم کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً قوم کو یاد دلاتے ہیں کہ اس ملک کی سیاست میں کیسی کیسی نادرِ روزگار شخصیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے اوصاف کا ماخذ کالم نگار خود ہی ہوتا ہے۔ عوام ان کی صلاحیتوں سے بے خبر رہتے ہیں، یہاں تک کہ چالیس سال تک قوم کی خدمت کرنے کے بعد وہ ریٹائر ہو چکے ہوتے ہیں۔ قدیم دور میں اس کے لیے انجمن ستائشِ باہمی کی اصطلاح مستعمل تھی۔
تعلقاتِ عامہ، سماجی عمل کا ایک حصہ ہے۔ اس سے پوری طرح صرفِ نظر ممکن نہیں؛ تاہم زندہ معاشروں میں میرٹ اور تعلقات کے مابین ایک توازن قائم رکھا جاتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اداروں کی بقا اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب ان میں قابل لوگوں کو جگہ دی جائے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب سماج کا سارا نظام تعلقاتِ عامہ کی نذر نہ ہو جائے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق بقا کی جبلت سے ہے۔ جس معاشرے میں ترقی و تنزلی کا عمل ذاتی تعلقات کے تابع ہو، وہاں یہی ہو سکتا ہے۔ ہمارا عمومی مزاج یہ بن چکا کہ جب ہمیں کسی محکمے میں کوئی کام پیش آتا ہے تو ہم سب سے پہلے وہاں کسی جاننے والے کو تلاش کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ ہمارے لا شعور میں یہ احساس بیٹھا ہوا ہے کہ میرا کام میرٹ کی وجہ سے نہیں، ذاتی تعلق کی وجہ سے ہو گا۔
بطور کالم نگار یا ٹی وی میزبان، میں ایسا کیوں کرتا ہوں؟ اس لیے کہ مجھے یہ خدشہ ہے کہ اس میدان میں میری بقا کا انحصار میری صلاحیت پر نہیں ہے۔ بطور شاعر میں انجمن ستائش باہمی کا حصہ کیوں بنتا ہوں؟ اس لیے کہ اس کے بغیر میرے شعری محاسن کے اعتراف کا کوئی امکان نہیں۔ اس کی ایک دوسری وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ فیصلہ اگر میرٹ پر ہوا تو بطور کالم نگار، ٹی وی میزبان یا شاعر، میرا کوئی مستقبل نہیں۔ اس لیے بھی مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں میں اپنے روزوشب کا بڑا حصہ تعلقاتِ عامہ پہ صرف کرتا ہوں۔
یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارا تمام سماجی و ریاستی ڈھانچہ اب تعلقاتِ عامہ کے اصول پر کھڑا ہے۔ میرٹ کی حیثیت ثانوی ہو چکی۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعلقاتِ عامہ کا کردار ہے لیکن وہاں توازن کو بہرصورت قائم رکھا جاتا ہے۔ اگر کہیں پانچ افراد کام کر رہے ہیں تو کم ازکم چار کا تقرر میرٹ پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اوّل تو پانچوں تقریاں میرٹ پر نہیں ہوتیں یا یہ ترتیب الٹ جاتی ہے۔
اس رویے کے سب سے برے اثرات سیاست پر مرتب ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو تعلقاتِ عامہ کے ماہر ہوتے ہیں، اعلیٰ مناصب تک پہنچ جاتے ہیں اور جو اپنی صلاحیت پر انحصار کرتے ہیں، وہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کابینہ کی تشکیل کبھی میرٹ پر نہیں ہوتی۔ ہر حکومت کو اس کی سزا ملتی ہے۔ وزارتوں کی کارکردگی ناقص رہتی ہے اور اس سے عوام میں حکومت کے بارے میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
میرٹ کا تعلق محض حکومتی پالیسی سے نہیں ہے۔ یہ ایک سماجی معاملہ بھی ہے۔ کتاب کی رونمائی سے اس کی دیباچے تک، کتنے کام ہیں جن کا براہ راست تعلق حکومت سے نہیں ہے۔ اسی طرح نجی ادارے ہیں۔ ان میں اگر فیصلوں کا انحصار اسی گروہی مفاد پر ہو تو پھر اس کی ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ انجمن ستائشِ باہمی کی تشکیل سماجی سطح پر ہوتی ہے، سرکاری بنیاد پر نہیں۔
معاشرے پر اس رویے کے اثرات دو طرح سے مرتب ہوتے ہیں۔ ایک تو ترقی کے لیے لوگ میرٹ پر پورا اترنے کے بجائے، زیادہ توجہ تعلقاتِ عامہ پر دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اداروں کی عمومی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ لوگوں کا ذوق پست ہوتا ہے اور اس کا اثر معاشرتی اخلاق اور معیار پر پڑتا ہے۔ جہاں کم تر شاعری کی تحسین ہوتی ہو اور محض تعلقات کی بنیاد پر ایک چھوٹے شاعر کو بڑا شاعر ثابت کیا جائے وہاں، شاعری زوال کا شکار ہوتی ہے۔ میرے نزدیک کالم نگاری اور ٹی وی پروگراموں کے زوال کا باعث بھی یہی رویہ ہے۔
جن معاشروں میں ایسی فضا بن جاتی ہے، وہاں با صلاحیت لوگ گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں۔ معلوم نہیں کتنے اسی کیفیت میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ جہاں صلاحیت کی قدر ہوتی ہے، وہاں ایسے لوگ تلاش کیے جاتے ہیں اور ان کے شایانِ شان ان کی توقیر کی جاتی ہے۔ خود نمائی اور صلاحیت عام طور پر ساتھ نہیں چل سکتے۔ تعلقات عامہ کا چلن خود نمائی کا کلچر پیدا کرتا ہے۔ با صلاحیت آدمی اگر اخلاقی تطہیر کے عمل سے بھی گزرا ہو تو اس کی طبیعت ایسے کلچر کو قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔