منتخب تحریریں

قائداعظم پہ جسونت سنگھ کی کتاب

Share

اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں جسونت سنگھ ہندوستان کے وزیر خارجہ تھے۔ جب نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر بن کے اُبھرے‘ جسونت سنگھ سے اُن کی بن نہ پائی۔ پچھلے انتخابات میں انہیں بی جے پی کا ٹکٹ نہ دیا گیا اور انہوں نے سیاست سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن منصبِ وزارت چھوڑنے کے بعد انہوں نے ایک کام کیا، جناح صاحب کی زندگی پہ ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے ‘جناح: ہندوستان۔ تقسیم (اور) آزادی‘۔
جناح صاحب کی زندگی پہ کئی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن پھر بھی اتنی نہیں جتنی کہ ہونی چاہئیں۔ اُن کی زندگی اور سیاست کو مزید اُجاگر کرنے کی اَب بھی ضرورت ہے۔ بہرحال میں نے جتنی جناح صاحب پہ کتابیں پڑھیں سب سے بہترین سردار جسونت سنگھ کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ہر شعور رکھنے والے پاکستانی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے حتیٰ کہ کسی میں عقل ہو تو ہماری درس گاہوں کے نصاب میں بھی یہ کتاب شامل ہونی چاہیے۔ کئی کتابیں ایسی ہیں جو یا تو خواہ مخواہ کی مدح سرائی کرتی ہیں یا ہندوستانی لکھاریوں سے اثر لیتے ہوئے بے جا اورغیر متوازن تنقید پہ مبنی ہیں۔ جسونت سنگھ کی کتاب میں یہ دونوں کمزوریاں نہیں ملتیں۔ جو رائے اور خیالات اس کتاب سے اُبھرتے ہیں وہ بھرپور ریسرچ کا نتیجہ ہیں۔
بنیادی سوال‘ جو کتاب لکھتے ہوئے جسونت سنگھ نے اپنے سامنے رکھا‘ یہ تھا کہ تقسیم ہند ہوئی کیسے اور ذمہ داری اس تاریخی واقعے کی کن ذہنوں پہ زیادہ بنتی ہے۔ اس سوال کا جواب جو کتاب سے نکلتا ہے وہ ہندوستان میں بہت سارے لوگوں کو پسند نہیں آئے گا۔ بہت عرصے تک ہندوستان میں اس سوچ کو ہوا دی گئی کہ تقسیم ہند کی بڑی وجہ جناح صاحب کی وہ جو انگریزی کا لفظ ہے اِیگو (ego) تھی۔ اس سوچ کے مطابق جناح صاحب اپنا مقام کانگریس پارٹی میں بنا نہ سکے اور پھر اپنی اِیگو اور گھمنڈ کی تسکین کیلئے وہ پاکستان بنانے کے راستے پہ چل نکلے۔ اس غلط سوچ کی مکمل نفی اگر کہیں ملتی ہے تو وہ اس کتاب میں ہے کیونکہ جسونت سنگھ اُس زمانے کے حالات سے پردہ اُٹھاتے ہوئے یہ بات لکھتے ہیں کہ مسئلہ جناح صاحب کی اِیگو کا نہیں بلکہ کانگریسی قیادت کا گھمنڈ تھا۔ خاص الزام جو لگتا ہے وہ پنڈت جواہر لال نہرو پہ ہے۔ اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود اُن کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آئی کہ ہندوستان کا بنیادی مسئلہ ہندو مسلم ڈیوائیڈ (divide) یا تفریق ہے اور جب تک اس مسئلے کا حل نہ نکالا جائے ہندوستان کی آزادی میں پیش رفت نا ممکن ہے۔
جواہر لال نہرو کا کردار بڑے واضح طور پہ کتاب میں درج ہے کہ وہ طبعاً اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے کہ مسلمانانِ ہند کا ایک الگ وجود ہے اور اُن کے تحفظات کا خاطر خواہ حل نکالنا ناگزیر ہے۔ نہرو اِس رٹ پہ ہی لگے رہے کہ کانگریس آل انڈیا جماعت ہے جو تمام ہندوستان بشمول مسلمانان کی نمائندہ ہے۔ جس وقت اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے لگے تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی کتاب میں جو بات بہت واضح اور اجاگر ہوتی ہے وہ جناح صاحب کے ہندو مسلم اتحاد کی خواہش تھی۔ یہ امر تو ہم سب جانتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل کی دہائیوں میں جناح صاحب کو ہندو مسلم اتحاد کا ایمبیسیڈر کہا جاتا تھا۔ جسے ہم 1916ء کا لکھنؤ پیکٹ کہتے ہیں وہ اُن کے اور موتی لال نہرو کے مابین طے پایا تھا۔ پہلی دفعہ کانگریس نے اس معاہدے کے تحت جداگانہ طرز انتخاب کا اصول مانا تھا‘ جس سے بعد کے سالوں میں کانگریس پارٹی منحرف ہو گئی۔
1915ء میں گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس لوٹے تو بمبئی میں اُن کیلئے ایک تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت جناح صاحب نے کی۔ اپنی تقریر میں جناح صاحب نے گاندھی کی خوب تعریف کی لیکن جواباً گاندھی جی کے الفاظ میں اتنی گرمجوشی نہیں تھی۔ اگلے چند سالوں میں گاندھی جی بطور بڑے لیڈر سیاسی اُفق پہ اُبھرے۔ ناگپور کے تاریخ ساز کانگریس سیشن میں اُن کی قیادت پہ مہر ثبت ہوئی۔ اُس سیشن میں جناح صاحب نے جو کہا کہ ہمیں آئینی راستہ اختیار کرنا چاہیے اُسے پذیرائی نہ ملی۔ جناح صاحب نے کانگریس کو الوداع کہہ دیا لیکن پھر بھی اِس کوشش میں رہے کہ ہندو مسلم اتحاد کسی طریقے سے قائم ہو جائے کیونکہ اوروں سے زیادہ وہ جانتے تھے کہ انگریز سامراج کو دباؤ میں لانے کیلئے ہندو مسلم اتحاد ضروری ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ جناح صاحب کو اوروں سے زیادہ یہ بھی احساس تھا کہ مسلمانانِ ہند کو آئینی تحفظات میسر ہونے چاہئیں تاکہ وہ ہندو اکثریت کے نیچے دَب کے نہ رہ جائیں۔ پوری سیاسی زندگی میں اُن کے بڑے مقاصد دو ہی رہے کہ ہندوستان انگریز تسلط سے آزاد ہو اور مسلمانان ہند کی الگ حیثیت کو آئینی شکل میں تسلیم کیا جائے۔ بہت دیر تک وہ اتحاد کی کوششیں کرتے رہے۔ پاکستان میں تو ہم کہتے ہیں کہ ہندو ذہن مکار ہے۔ جسونت سنگھ کہیں یہ لفظ استعمال نہیں کرتے لیکن جن حالات کو وہ اُجاگر کرتے ہیں اُن سے مکاری کا شائبہ نظر اُبھرتا ہے۔
کتاب میں بہت مفصّل ذکر یوپی میں 1937ء کے صوبائی انتخابات کا ہے۔ انتخابات سے پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ نتائج جیسے بھی ہوں یوپی کے مسلمانوں کو اقتدار میں دو وزارتوں کی شکل میں حصہ ملے گا۔ انتخابات میں کانگریس کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ دو وزارتوں کی حامی کانگریس نے بھر لی لیکن شرائط کچھ عجیب سی رکھیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد، چوہدری خلیق الزمان سے ملے اور اُن کے سامنے ایک دو صفحات پہ مشتمل ٹائپ شدہ تحریر رکھ دی جس میں کہا گیا تھا کہ وزارتیں ملتے ہی اسمبلی میں مسلمان ممبر کانگریس کے ڈسپلن اور احکامات کے پابند ہوں گے۔ چوہدری خلیق الزمان نے مولانا سے کہا کہ یہ شرائط تو سیاسی خود کشی کے مترادف ہیں لیکن مولانا کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ نتیجتاً تمام مسلمان ممبران اپوزیشن نشستوں پہ بیٹھ گئے۔ مؤرخین عموماً اس بات پہ متفق ہیں کہ یوپی میں اقتدار میں حصہ نہ دینا کانگریس کی بہت سنگین غلطی تھی‘ جس کے بعد میں بہت دُور رس نتائج نکلے۔
کہا جاتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر مستقبل پہ تھی۔ اس ضمن میں بات کئی دفعہ اتنی بڑھا کے پیش کی جاتی ہے کہ گمان ہوتا ہے مولانا آزاد اولیائی کے حق دار تھے۔ یوپی کی صورتحال کے تناظر میں تو وہ مستقبل کو نہ پڑھ سکے۔
یہ بات بھی کتاب میں واضح ہوتی ہے کہ مسلمانانِ ہند کو ایک مضبو ط اور سوچ رکھنے والے لیڈر کی ضرورت تھی اور سوائے محمد علی جناح کے اس پائے کا لیڈر مسلمانوں میں اور کوئی نہ تھا۔ اسی لیے 1930ء کی دہائی میں انہیں قائل کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ کی صدارت سنبھالیں۔ یہ کام اور کوئی نہ کر سکتا تھا۔ جواہر لال نہرو اس صف میں نہیں آتے۔ گاندھی جی کے مقابلے کے لیڈر مسلمانوں میں صرف جناح صاحب تھے۔
پاکستان میں ہم نے البتہ جناح صاحب کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ اب بھی جو سمجھ اُن کی ذات اور سیاست کی ہونی چاہیے ہمارے ہاں اتنی گہری نہیں۔ گاندھی جی تو 1915ء میں ہندوستان آئے۔ تب تک جناح صاحب اپنا مقام بطور ایک آل انڈیا لیڈر بنا چکے تھے۔ بمبئی کے مسلمانوں نے اُنہیں ہمیشہ اسمبلی میں بھیجا کیونکہ وہاں کسی کو اُن کی صلاحیتوں پہ کوئی شک نہ تھا۔ لیکن اُن کا مطمحِ نظر خالصتاً سیاسی تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مسئلہ مذہبی نہیں تھا۔ مسئلہ تھا ہندو اکثریت کے سامنے آئینی تحفظات کا، کہ آزادی کی شکل میں ہندوستان کا جمہوری نظام ایسا ہو جس میں مسلمانوں کی حیثیت اور جائز حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ راجہ صاحب محمود آباد ایک اسلامی ریاست کے حق میں تھے‘ لیکن جناح صاحب نے انہیں اس پہ بات کرنے سے روکا اور راجہ صاحب اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اس بنا پہ میں جناح صاحب سے تقریباً دو سال دور رہا۔ پاکستان میں ہم نے جناح صاحب کے نظریات کو توڑ کے اور مسخ کر کے پتا نہیں کیا کیا بنا دیا ہے۔ اُن کے نظریات صحیح طور پہ ہم سمجھنے کے قابل ہوتے تو اپنی قومی زندگی میں بہت ساری قباحتوں سے بچ جاتے۔