تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار کے دعوے کی مبینہ آڈیو پر جہاں پاکستانی فوج کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے وہیں حکومتی وزرا بھی اس بارے میں بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔
بی بی سی اردو کے عماد خالق نے جب اس بارے میں وزیر داخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک سے بات کی تو دونوں کا یہی کہنا تھا کہ انھیں اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔
جمعرات کو سوشل میڈیا پر احسان اللہ احسان سے منسوب ایک آڈیو پیغام سامنے آیا تھا جس میں مبینہ طور پر دعوی کیا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گذشتہ ماہ پاکستانی فوج کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
احسان اللہ احسان کہاں ہیں اس پیغام میں یہ نہیں بتایا گیا تھا تاہم پاکستانی اخبار دی نیوز نے جمعہ کو یہ دعوی کیا کہ وہ پاکستان سے فرار ہو کر ترکی پہنچ چکے ہیں۔
احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی حراست سے فرار ہونے کے دعوے کے بارے میں جب وزیر داخلہ برگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا بطور وزیر داخلہ انھوں نے متعلقہ اداروں سے اس بارے میں جاننے کی کوشش کی تو رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک سے جب یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے آپ نے سنا ہے، میں نے بھی سنا ہے۔‘
جب ان سے احسان اللہ احسان کے پاکستان کی تحویل میں ہونے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے علم میں نہیں کہ ادھر ہے کہ نہیں ہے۔‘
اس سے قبل جب بی بی سی نے جمعرات کو اس مبینہ آڈیو پیغام میں کیے گئے دعویٰ پر رد عمل کے لیے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تو فوجی ذرائع نے اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی اور کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
مقامی چینل سما کی اینکر پرسن عنبر شمسی نے جب جمعے کو اپنے پروگرام میں وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم سے احسان اللہ احسان نے متعلق کیسز کے بارے میں دریافت کرنا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس لیے ’اعجاز شاہ سے پوچھیں۔ وہ آپ کو تفصیل سے بتائیں گے کہ اس میں فیکٹ کیا ہے، فِکشن کیا ہے اور آگے وہ کیا کرنے جا رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی اور کے دائرہ اختیار پر بولنا شروع کر دیں۔
ادھر سوشل میڈیا پر صارفین اس سے متعلق مختلف سوالات اٹھا رہے ہیں اور اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی عباس ناصر نے ٹوئٹر پر صحافی اور اینکر پرسن کامران خان کی ٹویٹ کو جس میں فوج کی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر رہے ہیں، ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایسا لگ رہا ہے کہ احسان اللہ احسان کے ‘فرار’ ہونے کے بارے میں فیض کو دھچکا لگا ہے۔ ہاں، ہاں میں یہ خود سے کہہ رہا ہوں، اپنے خوابوں میں۔‘
اسی طرح صحافی اور اینکرپرسن ضرار کھوڑو نے اس بارے میں متعدد ٹویٹس کیں جن میں جہاں انھوں نے احسان اللہ احسان کے ’فرار‘ ہونے سے متعلق سوال اٹھائے وہیں انھوں نے لکھا کہ ’یاد رکھیں یہ احسان اللہ احسان نہیں جو دشمن ہے۔ جن کی نگرانی میں وہ ’فرار ہو گیا‘ وہ ذمہ دار نہیں۔ آپ میں سے اصل دشمن وہ لوگ ہیں جو اس پر سوال کرتے ہیں اور جواب طلب کرتے ہیں۔ وہی اصل غدار ہیں۔‘
صحافی اور اینکر پرسن عنبر شمسی نے اس معاملے میں ٹویٹ کیا کہ ایک عام ملک میں دہشت گردی کے بدترین واقعے کے چہرے کے ممکنہ ’فرار‘ یا ’رہائی‘ کی خبروں پر غم و غصہ پایا جاتا ہے، ’میڈیا پر جوابات کے سخت مطالبات سامنے آتے ہیں۔ خاموشی کا مطلب بھی جرم ہوتا ہے۔ یہاں، ٹوئٹر پر تھوڑا بہت غصہ اور بڑے پیمانے پر طنز اور میمز کا ایک سلسلہ جاری ہے۔‘
صحافی اور اینکر پرسن مبشر زیدی نے اس پر اپنا طنزیہ ردعمل کچھ یوں دیا۔
جبکہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی سابق رکن اسمبلی اور قومی وطن پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر نے اس بارے میں لکھا کہ ’بڑے پیمانے پر قتل و غارت کرنے والا احسان اللہ احسان، کبھی بھی جیل میں نہیں تھا، نہ ہی اس پر کوئی الزام لگایا گیا تھا نہ ہی اسے کسی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔ وہ ریاستی مہمان تھا۔ معاہدے کے بغیر ملک نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ متاثرہ خاندانوں کی توہین کے لیے اس کا میڈیا پر انٹرویو کیا گیا۔ دہشت گردی کے الزامات، جیلیں امن کے حامی پختونوں کے لیے ہیں۔‘
جبکہ ایک صارف نے اس پر ایک میم کے ذریعے کچھ اس طرح تبصرہ کیا۔