منتخب تحریریں

مونچھیں اونچی نیچی تو ہوتی ہی رہتی ہیں

Share

میں بہت عرصے سے ایک دوست کی زبانی مونچھوں کی مدح سن رہا تھا۔ اس ’’مونچھ لور‘‘ نے تو اس حوالے سے ایک مقولہ ’’مونچھ نہیں تو کوچھ نہیں‘‘ ہی ایجاد کر رکھا تھا۔

کیا فرق پڑتا ہے اگر اس نے کچھ کو ’’کوچھ‘‘ کر دیا۔ بہرحال میرے اس دوست کا کہنا تھا کہ مونچھ مرد اور عورت کے درمیان حدِ فاصل کا کام دیتی ہے چنانچہ جس مرد کی مونچھ نہیں ہے اسے کسی بھی نازک لمحے میں عورت سمجھا جا سکتا ہے۔

میں اس کو جواباً کہتا تھا کہ تمہاری احتیاط اپنی جگہ قابل قدر ہے لیکن جس طرح کے تمہارے نین نقش ہیں، مزید احتیاط کا تقاضا ہے کہ تم داڑھی بھی رکھ لو مگر یہ مشورہ اسے قابل قبول نہ تھا، شاید اس لئے کہ میرا یہ درمیانے قسم کا دوست ’’درمیان‘‘ ہی میں رہنے کا خواہشمند تھا۔

موصوف میرے سامنے مونچھوں کے جو ’’فضائل‘‘ بیان کرتے تھے ان میں سے ایک ’’فضیلت‘‘ یہ بھی تھی کہ آپ کے پاس اگر کوئی ہتھیار نہ بھی ہو تو بھی مخالف کو مونچھوں پر تاؤ دے کر یرکایا جا سکتا ہے۔

مونچھوں کی مدح کے بیان میں اس کا یہ کہنا بھی تھا کہ انسان اگر سر سے گنجا بھی ہو جائے تو بھی مونچھوں سے کبھی گنجا نہیں ہوتا چنانچہ اس ’’باقیات الصالحات‘‘ کی قدر کرنا چاہئے۔

مونچھوں کے حوالے سے میرے دوست کا ایک بیان اور بھی تھا اور وہ یہ کہ انسان اپنے کردار سے نہیں، اپنی مونچھوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کیلئے اس نے کوئی دلیل نہیں دی۔

شاید اس لئے کہ لوگ میرے اس دوست کو آج بھی اس کی مونچھوں نہیں، اس کے کردار کے حوالے ہی سے پہچانتے ہیں جس پر پردہ ڈالنے کیلئے اس نے مونچھیں رکھی تھیں۔

یہ اور اس طرح کی بہت سی دوسری باتیں میرے علاوہ میرا ایک ہمسایہ بھی اس دوست سے سنتا رہتا تھا، کافی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ مونچھیں ٹرائی کرنا چاہئیں، چنانچہ میرے اس ہمسائے نے بالآخر مونچھیں رکھ لیں اور اب اسے احباب کی تنقید سنتے ہوئے اقبال بہت یاد آتا ہے

آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں

سو قوموں کی زندگی میں یہ کٹھن منزل آئی ہوئی ہے اور یہ ’’قومیں‘‘ روزانہ آتے جاتے اس کی مونچھوں پر پھبتیاں کستی ہیں۔ بچپن میں دکانوں پر مونچھوں کی حامل دو تصویریں دیکھنے کا اتفاق ہوا کرتا تھا۔

ایک تصویر میں ایک شخص مونچھوں کو تاؤ دیتا خوش و خرم نظر آتا تھا، اس کے نیچے لکھا ہوتا تھا ’’نقد کی حالت‘‘ اور دوسری تصویر میں ایک اداس سا شخص ڈھلکی ہوئی مونچھوں کے ساتھ دکھایا جاتا تھا جس کے نیچے یہ تحریر درج ہوتی تھی ’’ادھار کا انجام‘‘ ان دو تصویروں کے ذریعے دکاندار دراصل گاہک کو یہ پیغام دے رہا ہوتا تھا کہ ادھار مانگنے کی کوشش نہ کریں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ میں نے اپنے دفتر کی میز پر ایک تختی رکھی ہوئی ہے جس پر درج ہے ’’ہمیں احساس ہے کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے‘‘ یار لوگ یہ پڑھ کر ہنستے ہیں اور گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔

چنانچہ میں نے اپنے ہمسائے کو بتایا کہ زمانہ اسی طرح ہر سنجیدہ بات کو مذاق کا نشانہ بناتا ہے لہٰذا تم دل چھوٹا نہ کرنا اور اب اگر تم نے مونچھیں رکھ ہی لی ہیں تو انکے ادب آداب کی پاسداری کرتے رہنا!

یہ سن کر میرا ہمسایہ جو لوگوں کی پھبتیوں پر ملول نظر آتا تھا، میری بات سن کر مزید ملول ہو گیا اور بولا ’’یہ جو تم نے مونچھوں کی پاسداری کی بات کی ہے، یہ تو بہت مشکل کام ہے کیونکہ اس میں تو جان بھی جا سکتی ہے‘‘۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘

بولا ’’مونچھیں ایک مرد کی آن ہوتی ہیں اور ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ جان جائے، پر آن نہ جائے، صرف یہی نہیں بلکہ ان کی پاسداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب تک دم میں دم ہے، مونچھ اونچی ہی رکھی جائے حالانکہ مونچھ نیچی کرنے سے کامیابی کے سینکڑوں در کھل جاتے ہیں!‘‘ میں نے کہا ’’میں تمہاری بات سمجھا نہیں!‘‘

بولا’’اب یہ سیدھی سی بات میں تمہیں کیسے سمجھاؤں، زندگی میں ہر فرد اور ہر قوم کو اپنی عزتِ نفس کے حوالے سے کچھ ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جن پر عملدرآمد کے نتیجے میں نہایت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر لمحے بھر کیلئے عزتِ نفس کو ذرا پرے کر دیا جائے تو زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک اپنی عزت، افتخار اور خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دیتے اور پھر مشکل حالات سے گزرتے ہیں، یہی معاملہ افراد کا بھی ہے۔ میں ایک کمزور شخص ہوں لیکن اس کے باوجود مونچھ کے آداب کی پاسداری کرنے کی خواہش میرے دل میں ہے، میں کیا کروں؟‘‘

اس پر میں نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا ’’کرنا کیا ہے‘‘ بلا خوف و خطر بوقت ضرورت اپنی مونچھ نچی کر لیا کرو اور جب کام ہو جائے تو دوبارہ مونچھوں پر تاؤ دینا شروع کر دو۔ 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں جنرل نیازی نے انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالتے وقت مونچھیں نیچی کر لی تھیں،

اس کے بعد وہ ساری عمر مونچھوں کو تائو دیتا رہا بلکہ جب وہ مرا تو اسے 21توپوں کی سلامی کے ساتھ پورے فوجی پروٹوکول کے ساتھ دفن کیا گیا لہٰذا تم بھی مونچھ کی اونچ نیچ کی فکر نہ کرو۔

یہ اونچی نیچی تو ہوتی ہی رہتی ہیں!‘‘اور آخر میں یہ کہ اب زمانہ بہت بدل گیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بدل گیا ہے، لہٰذا آن عزت، بے عزتی کے چکر میں پڑنا ہی نہیں مونچھیں رکھیں یا نہ رکھیں، اس بے غیرتی کو شعار بنائیں اور غالب کا یہ شعر گنگناتے رہیں ؎

اب تو آرام سے گزرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے