بینکاک میں وزن کم کرنے والی سرجری کے بعد دو بہنوں رینل اور ٹیری کے لیے اپنے شہر آک لینڈ کی 11 گھنٹے کی فلائٹ میں بزنس کلاس سے سفر کرنا کسی عیش سے کم نہیں ہونا چاہیے تھا۔
لیکن دونوں بہنوں اور ان کی والدہ ہوہانا کے لیے وہ وقت کسی ’صدمے‘ سے کم نہیں رہا جب تھائی ایئرویز کے سٹاف ٹیپ لے کر ان کے پاس آئے اور انھیں کہا کہ وہ ان کے بزنس کلاس سیٹ کے لیے جسامت میں ’بہت بڑی‘ ہیں۔
اس ’نفرت انگیز‘ واقعے کو چھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن 59 سالہ ہوہانا کے ذہن میں اس تجربے کی تلخی ابھی تک برقرار ہے۔
انھوں نے کہا: ’سٹاف بار بار ہم سے ’زیادہ بڑا ہے، بہت بڑا ہے‘ کہہ رہے تھے۔ جب انھوں نے ہمیں چیک اِن کے وقت ہماری جسامت کو ماپا تو لوگ قطار لگا کر ہمیں دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے جس طرح ہمارے ساتھ سلوک کیا وہ اتنا تضحیک آمیز تھا کہ ہماری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔‘
زبان نہ سمجھنے کی دقت نے بھی مدد نہیں کی اور سٹاف نے انھیں بزنس کلاس میں داخلے سے منع کر دیا اور انھیں اکانومی کلاس یعنی سستے درجے میں بٹھایا۔
ہوہانا سماجی کارکن ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ جب تک وزن کم نہیں کریں گی اس وقت تک ہوائی جہاز کا سفر نہیں کریں گی تاکہ تھائی ایئرویز میں ہونے والے مجروح کن تجربات دوبارہ ان کے اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ نہ ہوں۔
انھوں نے کہا: ’ہم لوگ بزنس کلاس میں سفر کرنے کے لیے پرجوش تھے لیکن اس کی جگہ ہمیں گہرا صدمہ پہنچا۔‘
زیادہ تر ایئرلائنز اپنے چوڑے چکلے اوور سائز مسافروں کے لیے سیٹ بیلٹ میں توسیع کی سہولت رکھتے ہیں۔
لیکن تھائی ایئرویز نے کہا کہ ان کے بزنس کلاس میں سیٹ بیلٹ ایئر بیگز کے ساتھ منسلک ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس میں توسیع نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ ابھی تک اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں۔
گذشتہ موسم گرما کے اپنے صدمہ انگیز سفر کے بعد سے ہوہانا اور ان کی بیٹیاں تھائی ایئرویز سے ٹکٹ کے پیسے واپس مانگ رہی ہیں۔ لیکن ايئرویز نے اس خاندان کو صرف بزنس اور اکانومی کلاس کے ٹکٹوں کی قیمت میں جو فرق ہے وہ ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔
انھوں نے اس ٹریول ایجنٹ فلائٹ سینٹر سے رابطہ کیا جس سے انھوں نے ٹکٹ بک کروایا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ انھیں پورا پیسہ واپس کرے گی لیکن اس کے لیے انھیں چھ ماہ سے زیادہ عرصے کا انتظار کرنا پڑا ہے۔
جب بی بی سی نے تھائی ایئرویز سے رابطہ کیا تو ایک ترجمان نے بتایا کہ انھوں نے اپنے انتباہ کے نظام کو بہتر کیا ہے تاکہ ایجنٹس کو اس قسم کے مسائل سے باخبر رکھا جائے۔
یہ بہت افسوسناک ہے
یہ خانوادہ ڈیسٹینیشن بیوٹی کی جانب سے منعقدہ سفر پر تھا جو کہ اپنے گاہکوں کو وزن کم کرنے اور پلاسٹک سرجری کے لیے تھائی لینڈ بھیجنے میں اختصاص رکھتی ہے۔
ڈیسٹینیشن بیوٹی کے چیف ایگزیکٹو مارٹن اوسلن نے کہا کہ جس طرح ایئرلائنز نے حالات کو ہینڈل کیا اس سے انھیں ’بہت دکھ ہوا ہے‘ اور وہ ’حیرت زدہ بھی ہیں۔‘
تھائی سٹاف کے سلوک پر بھی کنفیوز ہیں کیونکہ بہت سے ’موٹے افراد بزنس کلاس کا ٹکٹ اس لیے بھی لیتے ہیں کہ وہ اکانومی کلاس کی سیٹ پر آرام سے نہیں سما سکتے ہیں۔‘
شہری ہوا بازی کے محکمے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جب بات مسافر کی جسامت کے بڑے سائز کی آتی ہے تو اس پر ہر ایک ایئرلائنز کا صورت حال سے نمٹنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ایئرلائنز کسی طیارے کے پرواز کرتے وقت کسی کے وزن کا حساب لگاتی ہے لیکن اس میں مسافروں، ان کے سامان اور ایندھن وغیرہ کے وزن بھی شامل کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’زیادہ تر مسافروں کا وزن اوسط سے کم ہوتا ہے کیونکہ چھوٹ فراخدلی کے ساتھ دی جاتی ہے۔‘
زیادہ تر ایئرلائنز کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ سیٹ کے مقابلے میں زیادہ بڑے ہیں تو آپ کو ٹکٹ لیتے وقت دو ٹکٹ لینی چاہیے۔ لیکن جب ‘اوور سائز’ کی بات آتی ہے تو کم ہی ایئرلائنز میں اس کے متعلق مخصوص ہدایات ہوتی ہیں۔
بہر حال امریکن ایئرلائنز کا کہنا ہے کہ ‘اگر کسی گاہک کا جسم سیٹ کی کہنی کی آخری حد سے ایک انچ سے زیادہ باہر جاتا ہے اور اس کے لیے سیٹ بیلٹ میں توسیع کی ضرورت پیش آتی ہے تو اسے ایک اور ٹکٹ لینا چاہیے۔‘