جیسے جیسے کورونا وائرس سے متاثر افراد دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آ رہے ہیں، اس نئے وائرس کے خلاف ویکسین بنانے کی دوڑ تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور یوں ماہرین میڈیکل ٹیکنالوجی کی حدود کو بھی پیچھے دھکیل رہے ہیں۔
اب دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں، تحقیقی ادارے، دوا ساز کمپنیاں اور مالی امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے دھڑا دھڑ پیسہ بھی لگا رہے ہیں اور دیگر وسائل بھی۔
عام طور پر کسی ویکسین کو بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں، لیکن جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اب یہ کام حیرت انگیز طور پر کم وقت میں کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالےسے ہم یہاں چار چیزوں کا ذکر کر رہے ہیں جو کم سے کم وقت میں ویکسین بنانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
’مالیکیولر کلیمپ‘
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئینزلینڈ میں ایک نئی ویکسین پر ’بے مثال تیزی‘ سے کام ہو رہا ہے جس میں ایک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جو یونیورسٹی کے اپنے ماہرین نے بنائی ہے۔ اسے مالیکیولر کلیمپ‘ یا شکنجہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدان اب وائرس کی بیرونی سطح پر پروٹینز کی جگہ ایک ایسا عمل کر سکتے ہیں جس سے ہمارے جسم کا دفاعی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔
یونیورسٹی کے سکول آف کیمسٹری اینڈ مالیکیولر بائیو سائنس کے سربراہ پروفیسر پال ینگ بتاتے ہیں کہ ’عام طور پر کسی بھی ویکسین میں جو پروٹین پائے جاتے ہیں وہ غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے اکثر ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یا ان کی ساخت اتنی تبدیل ہو جاتی ہے کہ ان سے جسم میں درست اینٹی باڈیز نہیں پیدا ہو پاتیں۔‘
مالیکیولر شکنجہ کرتا یہ ہے کہ ان پرویٹینز کی ساخت کو قابو میں رکھتا جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہمیں کوئی انفیکشن ہوتی ہے تو ہمارا مدافعتی نظام مذکورہ پروٹینز کی درست شناخت کر لیتا ہے اور یوں اس کے خلاف کام شروع کر دیتا ہے۔
پروفیسر ینگ کا خیال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویکسین صرف چھ ماہ کے اندر اندر تیار ہو جائے گی جس کے بعد اسے ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسین بنانے میں اتنا کم وقت لگنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چینی حکام نے کورونا وائرس کا جنیٹک کوڈ فوراً دنیا کو بتا دیا تھا۔
’بے مثال تیزی‘
روایتی طور پر کسی بھی مرض سے بچاؤ کی ویکسین بنانے کے لیے وائرس یا بیکٹیریا کو کمزور شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اس پر ایسے کیمیائی عمل کیے جاتے ہیں جس سے اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب جنیٹک کوڈ کو استعمال کر کے وائرس کے ڈی این اے کے کچھ حصوں کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ یوں ویکسین بنانے کے لیے درکار وقت حیرت انگیز طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ چین نے کورونا وائرس کی شناخت ہونے کے تین دن بعد ہی، 10 جنوری کو اس کا جنیٹِک کوڈ اور دیگر معلومات انٹرنیٹ پر چڑھا دیں تھیں، جس کے بعد دنیا بھر کے ماہرین کے لیے ویکسیسن کی تیاری پر جلد ازجلد کام کرنا ممکن ہو گیا۔ کورونا وائرس کو 2019-nCoV کا نام دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف کویئن لینڈ میں جو تحقیق ہو رہی ہے، اس کی مالی معاونت متعددی امراض سے پچاؤ کے لیے کام کرنی والا ایک گروپ (سی ای پی آئی) کر رہا ہے جسے دنیا بھر کی کئی حکومتیں اور فلاحی نتظیمیں فنڈز فراہم کرتی ہیں۔
اس گروپ نے دنیا کی تمام تنظیموں اور اداروں سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے پاس ویکسین بنانے والی کوئی ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو کورونا وائرس کو مقابلہ کرنے میں مدد کر سکتی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ مالی امداد کے لیے درخواست بھیجیں تا کہ گروپ انہیں پیسے دے سکے۔
سی ای پی آئی اور دنیا کی مشہور دواساز کمپنی ’جی ایس کے‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دونوں مل کر ایڈجووینٹ نامی کیمائی ایجنٹ استعمال کرنے جا رہے ہیں جو وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف ہماری مدافعت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ جب اس ایجنٹ کو کسی ویکسین میں ملایا جاتا ہے تو اس سے جسم کا دفاعی نظام کسی انفیکشن سے زیادہ بہتر انداز میں اور زیادہ دیر تک لڑ کر سکتا ہے۔
ایس کے ایف کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی مرض عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے تو ایڈجووینٹ کی اہمیت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہم ویکسین بنانے والے اینٹی جِن کی تھوڑی سی مقدار سے بہت سی ویکسین بناسکتے ہیں۔‘
یہ ایڈجووینٹ اس سے پہلے سوائین فُلو اور برڈ فُلو کی وبا کے دنوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔
جنیٹِک سوفٹ ویئر کوڈِنگ
امریکی کپمنی موڈرنا اور جرمنی کی کمپنی ’کِیور ویک‘ ویکسین بنانے کے لیے ایک مختلف ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ’میسنجر آر این اے‘ کہلانے والے مالیکیولز پر کام کرتی ہے جو جسم کو بتاتے ہیں کہ وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے خود اپنا دفاعی نظام کیسے بنا سکتا ہے۔
اگر آپ تصور کریں کہ ڈی این اے ایک قسم کی یو ایس بی سِٹک ہے، تو آر این اے اس رِیڈر کا کام کرتا ہے جو ڈی این اے میں موجود ڈیٹا کو پڑھتا ہے۔
یوں جب جسم کے خلیوں کو کسی قسم کی پروٹین پیدا کرنا ہوتی ہے تو آر این اے ہی وہ چیز ہے جو ڈی این اے میں پوشیدہ معلومات جسم میں موجود ان ’فیکٹریوں‘ تک پہنچاتا ہے جو پروٹینز پیدا کرتی ہیں۔
جرمن کمپنی آر این اے کی مدد سے کئی امراض کی ویکسین بنا رہی ہے۔
کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹِلمن رڑوز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلیوں کو جسم کے دفاعی نظام کو بڑھانے میں محض ایک دو گھنٹے لگتے ہیں۔
ان کے بقول کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ’اگلے چند ہی ماہ‘ میں اس قابل ہو جائے گی کہ اسے محدود پیمانے پر ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ ہے کہ کمپنی ایک ایسا ’آر این اے پرنٹر‘ بنا رہی ہے جسے اس جگہ لے جایا جا سکے گا جہاں اس کی ضرورت ہو۔ یہ ایم آر این اے فراہم کر کے موقع پر ویکسین کی پیداوار بڑھانے میں مدد کرے گا۔
آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال میساچوسٹس میں موڈرنا انک نامی کمپنی میں بھی ہو رہا ہے جس کی مالی اعانت سی ای پی آئی اور امریکہ کا قومی ادارہ برائے الرجی اور وبائی امراض کرتا ہے۔
اس حوالے سے انسانوں پر تجربہ تو اگلے تین ماہ میں ہو جائے گا تاہم موڈرنا کے سربارہ سٹیفین بانسل نے خبردار کیا کہ ’کوئی بھی موسمِ سرما تک ( عام استعمال کے قابل) ویکسین بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔‘
وائرس کی کمزوری پر حملہ کرنا
سان ڈیئیگو کی انوویو لیب میں سائنسدان ویکسین بنانے کے لیے ایک نئی قسم کی ڈی این اے ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور وہ موسمِ سرما کے آغاز میں اسے انسانوں پر آزمانا چاہتے ہیں۔
انوویو میں تحقیق اور تخلیق کے محکمے کی سینیئر نائب صدر کیٹ براڈرک کا کہنا ہے کہ ’ہماری ڈی این اے کی مدد سے بنائی گئی ویکسینز اس لیے منفرد ہیں کیونکہ یہ وائرس سے ڈی این اے کی ترتیب کا استعمال کرتے ہوئے اس کے ایسے حصوں کو نشانہ بنائیں گی جن کو انسانی جسم کی جانب سے بھی سخت ردِ عمل کا سامنا ہو۔‘
’ہم پھر مریضوں کے اپنے خلیوں کو ویکسین کے لیے فیکٹری بنا دیتے ہیں جس سے جسم کا اس وائرس سے لڑنے کا قدرتی نظام مضبوط ہو جاتا ہے۔‘
انوویو کا کہنا ہے کہ اگر آغاز میں کیے گئے تجربے کامیاب رہے تو اسے ’اس سال کے آخر میں‘ بڑے پیمانے پر چین میں آزمایا جا سکے گا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے ذیکا وائرس سے نمٹنے کے لیے سات ماہ میں ویکسین ایجاد کر لی تھی۔
انوویو کے سربراہ جوزف کم کے بقول ‘ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چین میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مزید تیزی سے ویکسین تیار کر سکتے ہیں۔’
عالمی کوششیں
یہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانی والی تحقیق کی کچھ مثالیں ہیں۔ دنیا بھر میں برطانیہ سے جاپان اور چین میں بھی ادارے اس کا علاج تلاش کر رہے ہیں۔
مثلاً، آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی سی ایس آئی آر او میں اس بات پر تحقیق ہو رہی ہے کہ وائرس کی تخلیق اور نقل بننے میں کتنا وقت لگتا ہے، اس کا ہمارے پھیپھڑوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور یہ وبا پھیلتی کیسے ہے۔
فرانس کے پاسچر انسٹیٹیوٹ نے اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو اس کورونا وائرس کو سمجھ سکے، ایک ویکسین تیار کر سکے اور اس وبا کی تشخیص اور اسے کنٹرول کرنے کے مختلف طریقے وضع کر سکے۔
تاہم اگر یہ ویکسین انتہائی کم وقت میں بھی بنا دی گئی تو بھی شاید حالیہ وبا اس وقت تک ختم ہو چکی ہو لیکن امریکہ میں نوواویکس لیب میں ہونے والی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری گلین کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حالیہ کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
ڈاکٹر گلین نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘کورونا وائرس ایک وبا کے دوران تبدیل بھی ہو سکتا ہے اس لیے اس کی ویکسین بنانا انتہائی ضروری ہے۔’