چند سال قبل تک جیما نیڈہیم ایسی ملازمت میں پھنسی ہوئی تھیں جو انھیں پسند نہیں تھی۔ اس دوران انہیں ہر وقت ذہنی تناؤ اور اینگزائٹی رہتی تھی۔
تب جیما کی ایک دوست نے انھیں میڈیٹیشن یا مراقبے کے موضوع پر لکھی ہوئی ایک کتاب پڑھنے کو کہا۔
بی بی سی کے ریڈیو 1 نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں پیسے کمانے کے لیے یہ ملازمت کر رہی تھی اور میرے ایسے کئی تعلقات تھے جو بہت زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس کتاب نے مجھے نیا زاویہ دیا۔ میں خود کو بہت زیادہ پرسکون محسوس کرنے لگی۔‘
26 سالہ جیما نے برطانیہ کے شہر ناٹنگھم شائر میں اپنے گھر پر مراقبہ شروع کیا جس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ چیزوں کو ایک نئی سطح پر لے جایا جائے۔
انھوں نے سائلینٹ ریٹریٹس یا خاموش تعطیلات کی تلاش شروع کی، ایسی چھٹیاں جہاں آپ مراقبہ کرتے ہیں اور کسی سے بات نہیں کرتے۔ اکثر اوقات یہ سلسلہ کئی کئی دن تک جاری رہتا۔ پھر انھوں نے ایکسٹر شہر کے نزدیک ایسی ہی ایک پناہ گاہ میں تین دن کا دورہ بُک کر لیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’شروع میں یہ مشکل تھا لیکن یہ تجربہ زندگی کو بالکل تبدیل کردینے والا تھا۔‘
’میں وہاں پر سب سے کم عمر تھی اور پانچ اجنبیوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں مقیم تھی۔‘
مگر وہ بتاتی ہیں کہ وہاں پر اجنبیوں سے غیر ضروری باتیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ’اگر ایسا ہوتا تو یہ عجیب سی صورتحال بن جاتی۔‘
گذشتہ تین سالوں میں جیما نے 10 مرتبہ یہ تجربہ دہرایا ہے اور کبھی کبھی تو 12 دن تک بھی۔
’میں بالکل اس کی دیوانی ہوگئی تھی۔ ایک سال تو میں نے پانچ مرتبہ ایسا ہی کیا۔ جب آپ وہاں سے باہر آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا ایک مختلف جگہ بن چکی ہے۔‘
جب سے انھوں نے ایسی خاموش چھٹیوں پر جانا شروع کیا ہے، تب سے جیما کی زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ انھوں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی، اپنا فیس بک اکاؤنٹ ختم کر دیا، پیانو بجانا سیکھنا شروع کیا، اور صحت کے شعبے میں اپنے نئے کریئر کا آغاز کیا۔
’میری زندگی میں ہر چیز تبدیل ہوگئی ہے‘
مگر یہ سب کچھ فوراً نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو انھیں طویل دورانیوں کے لیے مراقبہ کرنا بہت مشکل محسوس ہوتا تھا۔
’گھر میں 20 منٹ تنہائی میں مراقبہ کرنا ایک ہال میں 100 لوگوں کے ساتھ مراقبہ کرنے سے بہت مختلف ہے۔ آپ کے ذہن میں ایسے ایسے خیالات اور احساسات بھی آ سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ کو علم ہی نہیں ہوتا۔ اور جب آپ اتنے سارے لوگوں کے درمیان ہوں تو آپ وہاں سے اٹھ کر کہیں جا نہیں سکتے۔‘
لیکن اپنے پانچویں دورے تک ان کی زندگی میں وہ لمحہ نہیں آیا تھا جس سے انھیں اپنے سامنے راستہ روشن نظر آنے لگا تھا۔
’میں اچانک آدھی رات کو اٹھی۔ سب لوگ سو رہے تھے اور گھپ اندھیرا تھا۔ پھر میرے ذہن میں ایک خیال کوند گیا۔‘
جیما کہتی ہیں کہ اس سے انھیں مشکل صورتحال کو نئی روشنی میں دیکھنے کا موقع ملا۔
’میں نے محسوس کیا کہ کہ اگر کوئی چیز ذہنی دباؤ اور پریشانی کا باعث بن رہی ہے تو اس چیز کو دیکھنے کا صرف وہی ایک زاویہ نہیں جہاں سے آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔‘
انھوں نے اپنی دفتر کی ملازمت چھوڑ کر ایمبولینس سروس میں شمولیت اختیار کر لی جو انھیں لگتا تھا کہ کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔
’مراقبہ شروع کرنے سے قبل مجھے سوئیوں سے شدید خوف محسوس ہوتا تھا۔ انجکشن لگواتے وقت مجھے چار لوگ پکڑا کرتے تو تب ہی انجکشن لگ پاتا۔ یہ بہت ہی برا وقت تھا۔‘
’میں ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور میں نے اے لیولز بھی کر لیا تھا مگر یونیورسٹی میں داخلے کی درخواست سے دو ہفتے قبل میں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔‘
لیکن اب جیما کا یہ خوف دور ہوگیا ہے اور وہ نرسنگ کے شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
’اب ہر چیز مجھ پر کم اثرانداز ہوتی ہے۔‘
پہلے پہل تو جیما کے خاندان کو حیرت ہوئی کہ وہ اپنا فارغ وقت ایسے گزارنا چاہتی تھیں۔
وہ کہتے تھے، ’تم تو 24 سال کی ہو اور بوڑھے لوگوں کے ساتھ خاموش چھٹیاں گزار رہی ہو۔ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ کچھ دلچسپ چیزیں کرو؟‘
مگر وہ کہتی ہیں کہ اب ان کے خاندان کو چھٹیوں کے لیے ان کے غیر معمولی انتخاب کے فوائد نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔
’اب میرے اندر پہلے سے زیادہ صبر ہے۔ لوگوں کی باتوں پر فوری ردِعمل دینے اور غصہ یا ناراض ہونے کے بجائے اب میں خود ایک قدم پیچھے ہٹ سکتی ہوں۔‘
ان خاموش چھٹیوں میں کیا ہوتا ہے؟
بدھ مت، ہندو ازم اور مسیحت سمیت کئی مذاہب میں مراقبے یا سائیلنٹ ریٹریٹ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔
آپ ایسا اکیلے بھی کر سکتے ہیں اور جیما کی طرح ایک گروپ کی شکل میں بھی جا سکتے ہیں۔
عام طور پر یہاں کوئی فون، مطالعے کا مواد، ٹی وی وغیرہ نہیں ہوتا اور آپ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ آپ لکھیں بھی کچھ نہ۔۔
جیما کہتی ہیں کہ ’ہر دن کا آغاز صبح چھ بجے ہوتا ہے مگر کوئی گھڑیاں نہیں ہوتا اس لیے آپ کو کسی کے گھنٹی بجانے کی آواز سے اٹھنا پڑتا ہے۔‘
’اس کے بعد آپ تقریباً ایک گھنٹے کے لیے مراقبہ ہال میں جاتے ہیں جس کے بعد ناشتہ کیا جاتا ہے۔‘
’ہر کوئی آپ کے گرد خاموشی سے بیٹھ کر کھانا کھا رہا ہوتا ہے مگر ’ایکسیکوز می‘ کہے بغیر لوگوں کے ارد گرد سے اپنا راستہ بنانا تھوڑا مشکل ہوسکتا ہے۔‘
’اور اگر آپ کسی سے ٹکرا جائیں تو آپ کے منھ سے خود بخود ’سوری‘ نکل جاتا ہے، اور پھر آپ کو بولنے کے لیے معافی مانگنی پڑتی ہے، اور سب لوگ ہنسنے لگتے ہیں۔‘
اس کے بعد باقی دن بیٹھ کر یا چلتے پھرتے مراقبہ کرنے میں گزرتا ہے جس میں وقفہ صرف کھانے کے وقت ہی آتا ہے۔
’دن کا اختتام عموماً رات نو بجے ہوتا ہے۔ اس کے بعد لوگ اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ بس فوراً سونے کے لیے چلے جاتے ہیں۔‘
اور ان خاموش چھٹیوں سے جیما کی محبت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ ان کا منصوبہ ہے کہ سال میں کم از کم ایک بار ایسی جگہوں کا دورہ ضرور کیا جائے۔
وہ کہتی ہیں، ’میں نے پرسکون رہنے اور اپنا خیال رکھنے کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ ہم سب کو پرسکون رہنے کی ضرورت ہے۔‘