ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ اور لال مسجد کے سابق خطیب کے درمیان معاملات اتفاق رائے سے طے پا گئے ہیں اور اگلے ایک، دو روز باقی معاملات قانون اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں حل کر لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات میں پیش رفت کے نتیجہ میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز لال مسجد سے جانے کے لیے تیار ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ایچ الیون کے پلاٹ کے متبادل جگہ دے دیں تو ہم اپنا قبضہ ختم کر دیں گے۔ اور اس پر ہمارے معاملات طے پا گئے ہیں۔’
مولانا عبدالعزیز نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مذاکرات کی کامیابی کی تصدیق کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی زبانی معاہدہ طے پایا ہے جسے تین روز بعد تحریری شکل بھی دی جائے گی۔‘
معاملے کا پس منظر
اس معاملے کا پس منظر بتاتے ہوئے حمزہ شفقات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر سنہ 2012 کی وفاقی کابینہ نے لال مسجد کو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں ایک پلاٹ الاٹ کیا تھا۔
البتہ اس کے بعد سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے لال مسجد کو الاٹ کردہ پلاٹ منسوخ کر کے انھیں کوئی متبادل جگہ دینے کے احکامات دیے تھے۔
‘جب انتظامیہ نے لال مسجد کو لاٹ کردہ پلاٹ واپس لیا تو اس دوران دونوں فریقین میں غلط فہمی پیدا ہوئی، جس کا فائدہ ملک میں نقص امن ڈالنے والی قوتوں نے اٹھایا اور لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کو بھی اکسایا جس کے بعد وہ لال مسجد آ کر بیٹھ گئے جبکہ اپنے مدرسے کی خواتین طلبا کو ایچ الیون میں بھیج دیا۔’
ڈی سی اسلام آباد نے حالیہ مذاکرات کے بارے میں کہا کہ’ لال مسجد کے معاملات بہتر ہو رہے ہیں اور ایچ الیون میں قائم مدرسہ کا قبضہ دوبارہ حاصل کرلیا گیا ہے اور لال مسجد انتظامیہ نے اپنی خواتین طلبہ کو اس مدرسہ سے نکال لیا ہے۔’
حمزہ شفقات نے یہ بھی بتایا کہ ‘مولانا عبدالعزیز لال مسجد میں خطابت نہیں کر سکتے مگر جب تک ان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے انھیں مسجد سے نہیں نکالا جائے گا۔’
مولانا عبدالعزیز کی جانب سے انتظامیہ سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی رقم ملنے کے دعوے پر ڈی سی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز نے ایچ الیون والے پلاٹ پر بہت خرچہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کا سرکاری تخمینہ لگوایا جا رہا ہے اور جو بھی رقم قانون کے مطابق بنے گی وہ ان کو ادا کر دی جائے گی۔
‘اس حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا گیا اور اسی نکتے پر اگلے ایک دو دن بات ہونا باقی ہے۔ ہم نے مولانا عبدالعزیز کو ایک جگہ کی پیشکش کی ہے اور دیگر جگہوں پر بھی اگلے ایک دو روز میں بات کی جائے گی۔ ہو سکتا ہے وہ رقم نہ مانگیں اور کسی ایسی جگہ پر اراضی لینے پر ہی رضامند ہو جائے۔ ان معاملات پر ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔’
بی بی سی کے اعظم خان سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز نےمذاکرات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد انتظامیہ میرے لال مسجد میں رہنے پر اعتراض نہیں کرے گی اور جو ہمارا جامعہ حفصہ پر ساڑھے تین کروڑ روپیہ خرچ ہوا وہ ہمیں دیا جائے گا بصورت دیگر اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں تعمیر ہونے والے جامعہ حفصہ کی حیثیت متنازع رہے گی۔‘
مولانا عبدالعزیز کے مطابق ’انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد وہ لال مسجد کی خطابت سے دستبرار ہو گئے ہیں تاہم اس معاہدے کے تحت انھیں مسجد سے بیدخل نہیں کیا جائے گا۔‘
ان کے مطابق انھوں نے انتظامیہ کی اس شرط کو تسلیم کر لیا ہے کہ ایچ الیون میں قائم مدرسے سے طالبات کو نکالا جائے گا۔
مولانا عبدالعزیز کا لال مسجد پر قبضہ
واضح رہے کہ سات فروری کو سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد میں داخل ہو کر قبضہ کر لیا تھا اور موجودہ حکومت سے جہاد کشمیر شروع کرنے اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
خیال رہے کہ مولانا عبدالعزیز جو اس مسجد کے خطیب بھی رہ چکے ہیں ان کی طرف سے تین مطالبات پیش کیے گئے تھے جن میں مسجد سے متصل سرکاری زمین پر بنائے گئے مدرسے کو بھی از سر نو تعمیر کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے یہ مدرسہ فوجی آپریشن کے دوران یہ کہہ کر مسمار کر دیا تھا کہ یہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔
گذشتہ روز بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ان تین مطالبات کے پورے ہونے تک انتظامیہ یا حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مسجد کے لیے ان کے والد اور بھائی نے قربانیاں دی ہیں اور حکومت ان کو یہاں سے بے دخل نہیں کر سکتی۔ انھوں نے کہا تھا کہ کچھ اور ایسی مساجد ہیں جہاں خطیب ریٹائرڈ ہوئے مگر اس کے باوجود کئی برس تک نئے خطیب تعینات نہیں کیے گئے تو ایسے میں انھیں زبردستی ہٹا کر لال مسجد میں نئے خطیب کی تقرری میں اتنی عجلت کیوں برتی گئی ہے۔
مولانا عبدالعزیز نے سات فروری کو جمعے کی نماز کے دوران خطبے میں اپنے مطالبات دہرائے تھے۔ ان سے مسجد کا قبضہ واپس لینے کے لیے انتظامیہ نے ان سے مذاکرات شروع کیے تاہم پہلے دو دن تک تعطل کی صورت حال برقرار رہی۔
تھانہ آبپارہ کے پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ تین دن سے لال مسجد کے ارد گرد سکیورٹی پر مامور ہیں۔
پولیس کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے مسجد میں تقریباً سو کے قریب خواتین کو ڈھال بنا رکھا تھا جبکہ اس عرصے میں ان کے ساتھ چھ سے سات مرد بھی موجود رہے۔ پولیس نے مسجد کی چاروں اطراف رستے ہر طرح کی ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے لیے بھی بند کر رکھا تھا۔
پہلے دو دن تک مولانا عبدالعزیز کا موقف تھا کہ بعض اوقات پولیس ان کے لیے کھانا لے کر آنے والوں کو بھی روک لیتی ہے، تاہم پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ یہ تنازع انھیں خطابت سے ہٹانے کے بعد شروع ہوا۔ ان کے مطابق اس مسجد کا نظم و نسق ان سے بہتر کوئی نہیں چلا سکتا اور وہ ملک کے کسی بھی عالم سے اچھا خطبہ دے سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ جو کررہے ہیں وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے اس پر وہ تمام علما سے مناظرہ کرنے پر بھی تیار ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی مولانا عبدالعزیز اور انتظامیہ کے درمیان مختلف مواقع پر مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون میں خواتین کے مدرسے موجود ہیں جہاں پر طالبات کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ2007 میں لال مسجد میں فوجی آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے بقول خواتین بھی شامل تھیں۔
تاہم ضلعی انتظامیہ اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔ مولانا عبدالعزیر اس آپریشن میں خواتین کا برقعہ اوڑھ کر فرار ہو گئے تھے، جبکہ ان کی والدہ اور بھائی اس آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے۔
چار سال قبل مولانا عبدالعزیز نے دو مختلف مقدمات سے ضمانت ملنے کے بعد سنہ 2016 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت لال مسجد آپریشن کے تمام کرداروں کو معاف کرنے سے متعلق بیان دیا تھا۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمنائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ سنہ 2007 میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف فوجی آپریشن کرنے والے سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت دیگر تمام کرداروں کو معاف کرنے کو تیار ہیں۔
جن دو مقدمات میں ان کی عبوری ضمانت منظور کی گئی ان میں سول سوسائٹی کے کارکن کو دھمکیاں دینے کے علاوہ مذہبی منافرت اور حکومت کے خلاف شرانگیز تقاریر کرنے کے مقدمات شامل تھے۔
تھانہ آبپارہ کے انچارج نے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں مقدمات میں مولانا عبدالعزیز کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ ان مقدمات میں اگر اُنہیں گرفتار کیا جاتا تو اس سے وفاقی دارالحکومت میں امن عامہ کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔